گرگٹ کے بدلتے رنگ

غلام محی الدین  اتوار 27 اپريل 2014
امریکی دفاعی بجٹ میں یہ کمی ایسے وقت میں تجویز کی گئی، جب واشنگٹن کو بڑھتے ہوئے مالیاتی دباؤ کا سامنا ہے۔  فوٹو: فائل

امریکی دفاعی بجٹ میں یہ کمی ایسے وقت میں تجویز کی گئی، جب واشنگٹن کو بڑھتے ہوئے مالیاتی دباؤ کا سامنا ہے۔ فوٹو: فائل

امریکی مسلح افواج  دنیا کی دوسری بڑی اور اسلحہ کے لحاظ سے سب سے طاقت ور فوج سمجھی جاتی ہے۔ 1776  میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کی آزادی کے بعد ہی اس کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔

چند دن پہلے  پینٹاگون نے ایک منصوبے کا اعلان کیا جس کے مطابق امریکی فوج کی تعداد میں آئیندہ تین سالوں کے دوران 70 سے 80 ہزار کمی ہو جائے گی۔ گو کہ امریکی سرکاری اداروں اور فوج نے بہت سے جنگی کام تجارتی اداروں کو ٹھیکے پر دے رکھے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ مشہور کمپنی بلیک واٹر ہے اور اس کے سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی سے گہرے تعلقات تھے۔ تجارتی کمپنی کو اسی کام کے پانچ گنا زیادہ پیسے ملتے ہیں۔ CIA نے بھی تجارتی اداروں کو تشدد اور جیل چلانے کے ٹھیکے دیے ہوئے ہیں۔ مشہور ہوائی جہاز کمپنی بوئنگ بھی اس کام میں ملوث ہے ۔ ان کمپنیوں کو عدالتی کاروائی سے بچانے کے لیے امریکی حکومتیں ہمیشہ سینہ سپر رہیں۔

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال میں جب پینٹاگون نے24 فروری کو امریکی افواج کی تعداد میں کمی کرنے اور اسے دوسری عالمی جنگ سے پہلے کی سطح پر لانے کے منصوبے کا اعلان کیا تو تب عالمی سطح پر سب حیران تھے کہ دوسال میں یہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے آگئی ؟گو کہ اس بجٹ کی حتمی منظوری کے لیے حکومت کو کانگریس سے رجوع کرنا تھا۔ امریکی فوج کا مالیاتی کٹوتیوں پر مبنی وفاقی بجٹ  4مارچ 2014 کو پیش کیا گیا۔ امریکا کے سابق وزیر دفاع لیون پینٹا کے برعکس فروری 2014 کے آخر میں جب موجودہ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے میڈیا کو بتایا کہ وہ امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کے حق میں ہیں اور ان کی تجویز  ہے کہ اس وقت امریکا میں فوجیوں کی کل تعداد یعنی 5 لاکھ 20 ہزار کو کم کر کے4 لاکھ 40 اور 50 ہزارکے درمیان لائی جائے۔ دفاعی بجٹ میں کمی کے منصوبے کا اعلان  ایسے وقت کیا گیا جب اوباما انتظامیہ رواں سال نومبر میں وسط مدتی صدارتی انتخاب کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

امریکی فوج کے نئے بجٹ کے خدوخال بیان کرتے ہوئے چیک ہیگل نے کہا تھا کہ عراق اور افغانستان کی جنگ کے بعد فوج اب کسی مزید طویل المدتی عسکری مہم کے حق میں نہیں ، اگر یہ منصوبہ کانگریس سے منظور ہو جاتا ہے تو امریکی فوجیوں کی کل تعداد 1940 کے بعد پہلی مرتبہ کم ترین سطح پر پہنچ جائے گی۔ یاد رہے کہ دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ کے زمانے میں امریکی فوج کی تعداد میں ڈرامائی حد تک بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔اس بیان پر امریکی وزارت دفاع کے ایک اعلیٰ اہل کار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ اس منصوبے کی حتمی منظوری کے بعد امریکی فوج میں 13 فی صد کمی ہو گی اور اس منصوبے کو 2017  تک پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے گا۔

امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے دفاعی بجٹ میں کٹوتی کے حوالے سے پیش کردہ منصوبے پر عمل درآمد ہوا تو اس کے نتیجے میں ایک جانب کم از کم نوے ہزار فوجیوں کو فارغ ہونا پڑے گا  تو دوسری طرف ملازمت پر موجود  اہل کاروں کے اخراجات یک دم تین گنا بڑھ جائیں گے کیوں کہ امریکا کی روز بہ رو ز خراب ہوتی معاشی صورت حال فوج کو دی جانے والی ایک ارب ڈالرکی سبسڈی بھی ختم ہو جائے گی۔اس سے ملازمت پر موجود فوجیوں کو متعدد اسٹوروں پر قیمت میں رعایت کی سہولت فوری طور پر ختم ہو جائے گی اور ان کو بھی عام شہریوں کی طرح ہر شے منہگے داموں خریدنا پڑے گی ۔ یاد رہے کہ امریکا میں فوجیوں کو تو اشیاء کی قیمتوں میں رعایت ملتی ہے مگر دیگر سول ملازمین کو اس طرح کی سہولت حاصل نہیں، شاید اسی لیے امریکا میں بہت سے نوجوان کم تن خواہ کے باوجود فوج میں بھرتی ہونے کو ترجیح دیتے تھے۔

ماہرین کے مطابق امریکی دفاعی بجٹ میں یہ کمی ایسے وقت میں تجویز کی گئی، جب واشنگٹن کو بڑھتے ہوئے مالیاتی دباؤ کا سامنا ہے۔ عراق سے امریکی فوج پہلے ہی واپس بلائی جا چکی ہے اور صدر باراک اوباما نے اعلان کر رکھا ہے کہ افغان نیٹو مشن کے بعد وہاں امریکی افواج مزید کسی عسکری مہم میں شریک نہیں ہو گی۔یاد رہے 2001  میں نائن الیون حملوں کے بعد امریکا نے دفاعی بجٹ دوگنا کر دیا گیا تھا مگر گزشتہ دہائی کے آخر میں عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے کانگریس نے حکومتی اخراجات اور قرضوں میں کمی لانے کی کوششیں شروع کی تھیں اور اب امریکی فوج کا مجوزہ وفاقی بجٹ بھی اسی تناظر میں تیار کیا جائے گا۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا افغان فوجی مشن رواں برس کے آخر تک اختتام پذیر ہو رہا ہے اور وہاں کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے سپرد ہو جائیں گی۔ اس اعلان سے پہلے پینٹا گون نے فوج کی تعداد میں کمی کرتے ہوئے اسے 4 لاکھ 90 ہزار تک لانے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن اب اس میں مزید کمی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ موجودہ امریکی وزیر دفاع نے خبردار کیا تھا کہ محکمہ دفاع کو تیزی دکھاتے ہوئے فوج کی تعداد کو کم کرنا ہو گی، فوج کی تعداد میں کمی سے امریکا کی دفاعی صلاحیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بل کہ یہ مزید تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس ہو جائے گی۔اس مجوزہ منصوبے میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکی فضائیہ کے ’’ورتھ ہوگ‘‘ طیاروں کے فلیٹ A-10 کو ناکارہ بنا دیا جائے گا جب کہ U-2 جاسوس طیارے گراؤنڈ ہوں گے  اور ان کی جگہ نئے F-35 فائٹر اور ’’گلوبل ہاک‘‘ جاسوس طیارے لیں گے۔

دوسری جنگ عظیم سے پہلے امریکی فوجیوں کی تعداد 2 لاکھ 67 ہزار تھی۔ دفاعی بجٹ کے خدوخال کے مطابق حاضر سروس فوجیوں کی تعداد کو کم کیا جائے گا۔اس کے علاوہ سرد جنگ کے دور کے فضائیہ بیڑے، جاسوس طیارے یو ٹی اور اے ٹین جنگی جہازوں کو بھی گراونڈ کر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ملک سے باہر دو منہگی جنگوں کے بعد امریکی فوج پر بجٹ میں کمی کے سلسلے میں خاصا دباؤ تھا۔وزیر دفاع چک ہیگل نے اس ضمن میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ یہ بجٹ ہمارے مالی چیلنجوں کے حجم کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے،اب ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے، جس میں سے ہم گزر رہے ہیں۔

اب ہم استحکام کی طویل کارروائیوں کے لیے فوج کی تعداد مقرر نہیں کر رہے، اس لیے موجودہ فوج ہماری دفاعی حکمت عملی کے ضروریات سے زیادہ ہے ۔ 2017 تک ملک میں کئی فوجی اڈوں کو بند کرنے کا منصوبہ بھی ہے حالاں کہ حالیہ سالوں میں اس طرح کے کئی منصوبوں کو کانگریس مسترد کر چکی ہے۔  فوجیوں کی تن خواہ اور دیگر مراعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ رہائش کے معاوضے اور تن خواہوں میں اضافے میں کمی اور طبی سہولیات میں اضافے کی تجاویز دی ہیں۔

امریکی فوجیوں کی تعداد میں اس کمی کا مقصد دفاعی بجٹ کے حجم کو کم کرنا ہے جو اوباما انتظامیہ کی جانب سے سرکاری اخراجات میں کٹوتیوں کے طویل عمل کا حصہ ہے۔ منصوبے میں بجٹ سے متعلق حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے امریکی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کو یقینی بنایا گیا ہے تاکہ کہ وہ آنے والے برسوں میں بھی امریکی مفادات کا تحفظ جاری رکھ سکے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا کہ منصوبے پر عمل درآمد کے نتیجے میں امریکی فوج کسی بھی دشمن کو شکست دینے کی صلاحیت کی حامل تو ہوگی البتہ فوجیوں کی تعداد میں کمی طویل عرصے تک کسی غیر ملکی مشن کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے لیکن اس عمل سے امریکی فوج کو نہ صرف جنگ کے لیے تیار رہنے کی زیادہ اہلیت اور تیکنیکی برتری برقرار رکھنے میں مدد ملے گی بل کہ  ان کے نتیجے میں ہتھیاروں کی خریداری، تحقیق اور ترقی میں بھی ترجیحات متعین کرنے میں آسانی ہوگی۔

اس وقت امکان ظاہر کیا گیاتھا کہ دفاعی کٹوتیوں کے اس منصوبے کی کانگریس میں شدید مخالفت ہو گی جہاں قانون ساز  اپنے اپنے حلقوں میں موجود فوجی اڈوں اور وہاں دستیاب ملازمتوں کے مواقع کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس پر  واشنگٹن میں امریکی فوجیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے ارکان نے بھی کہا تھا کہ دفاعی بجٹ میں کمی کا نتیجہ، امریکی فوج میں افرادی قوت کی کمی کی شکل میں ہی برآمد ہوگا، جو درست نہیں۔ امریکا کو ماضی کی غلطیاں دہرانے اور دفاعی بجٹ میں کٹوتی کرکے فوج کو کمزور کرنے سے ہر صورت اجتناب کرنا چاہیے۔

دوسال قبل بھی سابق امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے اسی طرح کے منصوبے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی بجٹ میں کمی سے  فوج کی کارکردگی متاثر ہوگی اور مسلح افواج کو جدید بنانے کا عمل متاثر ہوگا لیکن لیون پنیٹا نے دوسال قبل یہ واضح کیا تھا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے آئندہ ایک دہائی کے دوران امریکا کے متوقع فوجی بجٹ میں 450 ارب ڈالرز کم کیے جانے کا امکان ہے، مگر ان کٹوتیوں کے باوجود یہ ضروری ہے کہ مسلح افواج سائبر دہشت گردی سے لے کر بڑے پیمانے کی جنگوں تک ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کی اہلیت کو برقرار رکھے کیوں کہ اب  10 برس جنگوں میں گزارنے کے بعد موجودہ مسلح افواج امریکی تاریخ کی سب سے سخت جان  فوج بن چکی ہے۔

لیون پنیٹا نے کہا تھا کہ امریکہ کے دشمن سائبر صلاحیت حاصل کر رہے ہیں اور ہر روز ملک کے کلیدی نظاموں پر سیکٹروں حملوں کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے اِس بارے میں شدید تشویش ہے کہ کوئی ایسا بڑا سائبر حملہ ہو، جو امریکی حکومت اور مالیاتی  نظام کو مفلوج کردے۔ میں امریکی قانون سازوں سے کہوں گا کہ وہ دفاعی بجٹ میں بڑی کٹوتیوں میں احتیاط کریں۔ یاد رہے دوسال پہلے پنیٹا پہلے ہی 10سال کے عرصے میں دفاعی بجٹ میں 1450ارب ڈالر کی کٹوتی پر اتفاق کرچکے تھے اور اگر کانگریس کے ارکان قومی خسارے میں کمی کے کسی معاہدے پر متفق نہ ہوئے تو ایک خودکار نظام کے تحت جسے کٹوتیوں کا نظام کہا جا رہا ہے، دفاعی بجٹ میں 500ارب ڈالر  کے اضافے کو ختم کر دیا جائے گا۔

اس وقت وزیر دفاع پنیٹا کے ہمراہ امریکا کے جنرل ڈیمپسی نے بھی امریکی سینیٹ میں ان کٹوتیوں کے بارے میں اپنا مؤقف واضح کرنے کی کوشش کی تھی،بہ قول ان کے ملازمتوں میں کمی اور افغانستان سمیت مختلف آپریشنز کے لیے رقوم میں کمی مشکل کا باعث ہوں گی۔مسٹر پنیٹا نے خبردار کیا تھا کہ کٹوتیاں امریکی دفاع میں تباہی لاسکتی ہیں۔ ان کے الفاظ میں یہ (کٹوتیاں) اس بات کی ضامن ہوں گی کہ ہم اپنی فوجوں کو کھوکھلا کردیں اور اپنے قومی دفاع کو سنگین نقصان پہنچائیں۔’میرا خیال ہے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ خودکار نظام کے تحت کٹوتیاں مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہوں گی اور میں واقعتاً دونوں فریقوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ مل کر کام کریں اور کوئی ایسا جامع حل ڈھونڈیں جو ہمیں خود کار کٹوتیوں سے بچالے اور کوشش کریں کہ ایسا اس ممکنہ تباہی سے پہلے ہوجائے جس کا ہمیں سامنا ہے۔

ملک کے انتہائی اہم اطلاعاتی نظام پر کوئی سائبر حملہ،  جس کا حجم اتنا ہی بڑا ہو گا جیسا کہ 1941 میں پرل ہاربر پر جاپان کا حملہ تھا جس نے امریکا کو دوسری عالمی جنگ میں دھکیل دیا تھا، اگر ہو گیا تو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ مجھے اِس بات پر بے حد تشویش ہے کہ سائبر حملے کی یہ ممکنہ صلاحیت ، کہ وہ ہمارے بجلی کے نظام یا ہمارے حکومتی نظام کو مفلوج کر دے، اس میں پرل ہاربر جیسے ایک اور حملے کی صلاحیت موجود ہے جس کا ہم ہدف بن سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔