قانون کی نگاہ میں سب برابر

نسیم انجم  اتوار 27 اپريل 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

آج کا دور انسانوں کی سفاکی، تشدد اور بے حسی کی کہانی ببانگ دہل سنا رہا ہے یہ خونی کہانی پوری دنیا میں گردش کر رہی ہے، عوام اور حکومت تقریباً ایک ہی راستے پر گامزن ہیں، قانون کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔

اب لوگوں کا نہ عدالتوں پر اعتبار ہے اور نہ حکومتوں پر، یہ ایک ایسا طلسم کدہ ہے جس میں جو پھنس گیا، اس کا نکلنا مشکل ہوجاتا ہے کسی زمانے میں سابق صدر پرویز مشرف کا طوطی بولتا تھا دوسرے ملکوں میں ان کا رعب و دبدبہ تھا، تقاریر و تحریر کے اعتبار سے ان کا کہا معتبر سمجھا جاتا تھا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے لال مسجد کا مسئلہ سامنے آیا۔ لال مسجد والوں نے بھی حکومت سے خوب خوب ٹکر لی، پھر بگٹی قتل بھی سامنے آیا، اسی طرح کی ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں قانون شکنی کے حوالے سے انھوں نے اپنی خامیوں کو تسلیم بھی کیا۔ ان تمام کمزوریوں کے باوجود پرویز مشرف صاحب کا دور حکومت اطمینان بخش تھا، مہنگائی کے عفریت کو انھوں نے اپنے بوٹوں تلے مسل دیا تھا اور ملکی تعمیر و ترقی میں بھی ان کا نمایاں کردار رہا ہے، جس سے ہر شخص واقف ہے۔ طالبان نے بھی سر نہیں اٹھایا تھا، نہ ہی ٹارگٹ کلنگ تھی۔

جوں ہی ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا گویا پاکستان پر بھونچال آگیا ایک زلزلے کی کیفیت تھی، جس میں انسانیت، ہمدردی، علمی خزانہ، اخلاقیات، انصاف، سب کچھ ملبے تلے دب گیا البتہ سابق صدر کی روشن خیالی زندہ و تابندہ رہی اور مختلف چینلز کے پروگرام دیکھ کر اس بات کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا تھا کہ (میڈیا) فلم و ٹی وی کی یہ ہیروئنیں پاکستانی یا غیر ملکی ہیں، بہرحال ان کے ایسے رہن سہن میں کپڑے کی خوب بچت ہوئی۔ صدر کی رخصتی کے بعد حج کرپشن کیس سامنے آیا، ایفی ڈرین کیس اور ریمنڈ ڈیوس کی طاقت و حاکمیت کا بھی عوام کو اچھی طرح اندازہ ہوا، اسے باعزت طور پر باہر بھیج دیا گیا نہ مقدمہ چلا اور نہ سزا۔ جب کہ وہ قاتل تھا۔ لیکن اس کے لیے کوئی قانون نہیں تھا؟

سابقہ حکومت میں تعلیم کا بھی بیڑہ غرق کیا گیا، تعلیمی ادارے مویشیوں کے باڑے بن گئے اور ان دنوں بھی یہ اصطبل نما اسکول اندرون سندھ اور دوسری بہت سی جگہوں پر قائم ہیں۔ گھوسٹ اساتذہ کی بھی کمی نہیں جوگھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں یہ تنخواہیں کلرکوں کو رشوت کھلا کر حاصل کی جاتی ہیں یہ دھوکا دہی، بددیانتی کون سے قانون کے تحت کی جا رہی ہے؟ کئی بار یہ خبر سننے کو ملی کہ اسکول دوبارہ کھول دیے جائیں گے لیکن یہ دعوے جھوٹے ہی ثابت ہوئے۔

پچھلی حکومت نے اور نہ موجودہ حکومت نے تعلیمی زوال کو عروج میں بدلنے کی کوشش کی اور نہ ہی ان دنوں ایسے حالات نظر آرہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ طلبہ ببانگ دہل نقل کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں، لیکن یہ پکڑم پکڑائی کا کھیل کسی ایک دن شروع کیا جاتا اور دوسرے دن ختم کردیا جاتا ہے اور پھر سب کو آزادی مل جاتی ہے چاہے کتاب سے نقل کریں یا سیل فون کے ذریعے، کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، تعلیمی سال شروع ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن سرکاری اسکولوں میں طالب علموں کو کتابیں نہ مل سکیں، کتابیں تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی کا سلسلہ بھی رکا ہوا ہے۔

ایک طرف اساتذہ پریشان ہیں تو دوسری طرف طلبہ اور ان کے والدین، اگر والدین کتابیں خریدنے کے لیے بازاروں کا رخ کرتے ہیں تو کتابیں وہاں سے بھی نہیں خریدی جاسکتی ہیں، اس کی وجہ کہ اشاعت کے مرحلے میں ان دنوں کورس کی کتابیں ہیں، اب آپ اس بات سے ہی اندازہ لگا لیجیے کہ صاحب اختیارات اور حکومت کے اہم ذمے دار اپنی ذمے داریوں سے کس طرح چشم پوشی کرتے ہیں اگر ملک و قوم سے محبت ہوتی طلبہ کے مستقبل کا احساس ہوتا تب یہ کام پہلے ہی سے باآسانی کیا جاسکتا تھا لیکن اس ملک کا ہر کام اسی قسم کی افراتفری کا شکار ہوجاتا ہے، سب کام عین وقت پر یاد آتے ہیں۔

تنظیم، انتظام، منصوبہ بندی اور حکمت عملی جیسی چیزیں مفقود ہوچکی ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں اگر افسران بالا اپنا قبلہ درس کرلیں تو وہ اپنے احکامات آسانی کے ساتھ منوا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کے عوام بے حد پریشان حال ہیں کہ اسے انصاف میسر نہیں اس کے اپنے پیارے ہر روز قتل کیے جاتے ہیں بعض تو بے قصور ہی ہوتے ہیں لیکن قاتلوں کو اس بات کی قطعی پرواہ نہیں کہ کون مجرم ہے، ملزم ہے، یا قوم کا خادم ہے؟ بس انھیں تو مارنے سے مطلب ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قاتلوں، لٹیروں کے لیے قوانین نہیں ہیں؟ چونکہ آج تک کسی ٹارگٹ کلر، چور اور ڈاکوؤں کو سزا نہیں سنائی گئی اور نہ بھتہ گردی کا خاتمہ ہوسکا، آج بھی بھتہ خور لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں۔ بس یہ خبر بذریعہ چینل اور اخبار گردش کرتی ہے کہ فلاں ڈاکو اور قاتل پکڑا گیا، اس کے بعد ان سفاک قاتلوں کو زمین نگل لیتی ہے یا آسمان اٹھا لیتا ہے۔ ان مجرموں کے ساتھ صاحب اقتدار بھی بہت سے جرائم میں ملوث رہ کر قانون شکنی کرتے ہیں، پاکستانی قوم کی محنت سے کمائی ہوئی رقم جو ٹیکسوں اور بلوں کی شکل میں ان تک پہنچتی ہے، اس دولت کو حکومت کے اہم عہدے دار ذاتی خرچ میں لے آتے ہیں، بینکوں سے بڑے بڑے قرضے لیے جاتے ہیں اور دوسرے ملکوں میں دولت منتقل کردی جاتی ہے۔ یہ جرم نہیں ہے کیا؟ اس ضمن کی کیا سزا ہے؟ یہ سزا کسی بھی سابق وزرا یا صدور کو ملی؟ ساتھ  میں مزید یہ ظلم کہ اپنا من پسند صدر چن لیا جاتا ہے جو وزیر اعظم کی ہی بولی بولتا ہے۔

کسی دور حکومت میں صدر بااختیار نظر آتا ہے اور وزیر اعظم ماتحت کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور آج کے دور میں وزیر اعظم مضبوط اور صدر صاحب کمزور۔ زمانہ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر کون سا کمال دکھایا اور ملک کو کتنا استحکام حاصل ہوگیا؟ کیا مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے، واپس مل گیا؟ اور اب صدر پرویز مشرف کو آئین توڑنے کی سزا دلانے کے خواہش مند حضرات پاکستان کو کمزور کریں گے یا مضبوط؟ اگر سزا ہی دینی ہے تو سب کو دی جائے پرویز مشرف سے زیادہ لوگ خطاوار اور آئین شکن ہیں ، بغیر ویزے کے اسلام آباد آنے والے امریکی جن میں بلیک واٹر کے دہشت گرد بھی شامل تھے، انھوں نے خوب دہشت گردی کی اور بدلے میں ان کے رہنے سہنے کے لیے انتظام کیا گیا اور بغیر کسی سزا کے آسانی سے چھوڑ دیا گیا۔

یہ کون سا قانون اور انصاف ہے؟ قوانین کا جنازہ تو مدتوں سے اٹھایا جا رہا ہے اور سر بازار گھمایا بھی جاتا ہے۔ تب قانون کی بات کرنے والے کہاں ہوتے ہیں؟ سابق حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ آخر انھوں نے غیر ملکیوں کو بغیر ویزے کے اور کس قانون کے تحت اسلام آباد میں بود و باش اختیار کرنے کی اجازت دی۔

اس وقت قانون کی بات کرنے والے خاموش تماشائی بنے رہے ۔ یہ وقت بڑا نازک اور ملک کو بچانے کا ہے، اگر وطن سے، وطن کے رہنما کہلانے والے مخلص ہیں تو انتقام کی سیاست کو اٹھاکر بالائے طاق رکھ دیجیے۔ اور پرویز مشرف کو باعزت بری کردیا جائے یہ دانشمندی کا تقاضا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقا کی محنت و ایثار کو ضایع نہ کریں۔ ان مسلمانوں کو ہرگز نہ بھولیں جنھوں نے ہجرت کا کرب سہا ہے، جان و مال کی قربانی دی تھی اس لیے نہیں کہ آج پاکستانیوں اور پاکستان کی تکہ بوٹی کرکے باربی کیو کے مزے لیں ان کے سروں سے فٹبال کھیلیں۔ اور اپنے اختیارات سے ناجائز فائدے اٹھائیں اور ایسے بچکانہ کام کریں جنھیں دیکھ کر دنیا مذاق اڑائے اور قانون کی نگاہ میں سب برابر ہونے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔