کتنی ماؤں کے کتنے تیمور…

شیریں حیدر  اتوار 27 اپريل 2014
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

انیس اپریل، ایک دن پہلے ہی ہم ایبٹ آباد پہنچے تھے، تیمور… میرا پیارا بھانجا پاس آؤٹ ہو رہا تھا اور ہم سارا خاندان اس فخر کا تاج سر پر سجانے کو رواں دواں تھے… ایبٹ آباد کا بادلوں سے بھرا آسمان… بادل جو پہاڑوں سے کہیں نیچے تک جھک آئے تھے اور بے تاب تھے اس وقت اس میدان میں جمع ان سیکڑوں تیموروں کے منہ چومنے کو… جو اس وقت مادر وطن کا سا مٹیالا رنگ پہنے… کس شان سے کھڑے تھے، ان کے قدموں کی گونج سے دلوں پر ہیبت طاری ہو رہی تھی، نظر بار بار دھندلا جاتی تھی…

فوجی دھنیں بکھیرتا ہوا بینڈ، میدان میں چوکس کھڑے لگ بھگ ایک ہزار کے قریب کیڈٹ… ماؤں کے پلے پلائے خوب صورت لال، جنھیں ان ماؤں نے کس حوصلے سے مادر وطن کی حفاظت کا ذمہ سونپ دیا تھا، اس وقت نظریں جمائے اپنے اپنے جگر کے ٹکڑے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں، مگر سب ایک سے لگ رہے تھے، میں نے عینک جما کر دیکھا… سارے ہی تیمور نظر آ رہے تھے، کیسی خوش قسمت مائیں ہیں جن کے لال اس مادر وطن کی حفاظت کے اہل ٹھہرے جو ہم سب کی ماں ہے۔ میں ہاتھ میں قلم لیے، الفاظ تلاشتی… اپنے خیالوں میں گم، کوئی الفاظ ہیں جو ان کے جذبوں کی زبان بن سکیں؟

مہمانان خصوصی تشریف لا چکے تھے اور سلامی کے چبوترے پر پہنچ گئے… فضا میں بھاری آواز گونجی۔

کیڈٹ کہتے ہیں جس کو… اصل میں لفظ قیادت ہے۔قیادت اس کو ملتی ہے… جسے ذوق شہادت ہے

کیا یہ سب کے سب ذوق شہادت سے معمور ہیں، کیا یہ جانتے ہیں کہ زندگی ایک بار ملتی ہے… یہ معصوم جن کی پہلی بار شیو اکیڈمی میں آکر بنائی جاتی ہے، جن میں سے نصف سے زائد اپنی ماؤں کے اکلوتے اکلوتے لال ہیں، تیمور کی طرح۔میرے پیارے مجاہد تیری چھب نرالی، تیری شان عجب، تو پہاڑوں کے ارادوں اور سمندروں کے حوصلوں والا، تیری سبز ٹوپی کا لال پھندنا… دنیا کے ہر پھول کی خوبصورتی کو مات دیتا ہے، تیری خاکی وردی تیرے مشقتوں کی چکی میں ڈھلے تیرے بدن کو سجاتی ہے، بارش کے قطرے تیرے منہ کو چوم چوم کر نہال ہو رہے ہیں، تو بھیگ کر بھی پلک تک نہیں جھپکتا… ہم کوٹوں اور شالوں میںٹھٹھڑ رہے تھے اور وہ ہمارے سب کے لال سر تا پا بھیگ چکے تھے مگر پلک تک نہ جھپک رہے تھے۔

عقابی روح جب بیدارہوتی ہے جوانوں میں

منزل اپنی نظر آتی ہے ان کو آسمانوں میں

مہمان خصوصی پریڈ کا معائنہ کر چکے تھے… اسی برستی بارش میں بھیگے ہوئے ان جیالوں نے پریڈ گراؤنڈ کا چکر لگایا، پرچم پارٹی کے احترام میں ہر انکلوژر سے لوگ کھڑے ہو جاتے ، جب پریڈ کرتے ہوئے یہ نوجوان قریب سے گزرتے تو یہ وقت ہوتا جب ہر کوئی اپنے پیاروں کا قریب ترین نظارہ کر سکتے اور نظروں ہی نظروں میں ان کی بلائیں لیتے ۔ پورے میدان کا چکر لگا کر وہ دوبارہ اپنی پہلی پوزیشنوں پر جا کر کھڑے ہو گئے۔

بینڈ کی آواز بند ہوئی تو چند لمحوں کے لیے سناٹا چھا گیا… پھر فضا میں مائیک سے تلاوت کی آواز گونجی، جس کے اختتام پر اس کا ترجمہ دہرایا گیا…

’’ ابتدا ء ہے اللہ کے پاک نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

اور تیار رکھو اپنی طاقت، اپنی پوری قوت اور ذرائع جنگ کے ساتھ تا کہ ہیبت طاری ہو جائے ان کے دلوں پر جو اللہ کے دشمن ہیں اللہ کے اور تمہارے دشمن ، اور اس کے علاوہ کچھ اور جو تم نہیں جانتے، مگر اللہ سب جانتا ہے۔ اور جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا صلہ پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ نا انصافی ہرگز نہیں کی جائے گی! ‘‘ قرات اور ترجمے کے بعد مائیک میں حلف کی آواز ابھری، جس کی تقلید میں ان سب پیاروں نے اسے دہرایا…

’’ میں صدق دل سے اللہ تعالی کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوص دل سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے۔

اور یہ کہ میںاپنے آپ کو کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں شریک نہیں کروں گا۔

اور یہ کہ میں پاکستان کی بری فوج میں رہ کر پاکستان کی خدمت ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ سر انجام دوں گا۔

اور یہ کہ میں بری، بحری یا فضائی راستے سے جہاں بھی جانے کا حکم ملا… جاؤں گا۔

اور یہ کہ میں اپنے متعین افسران کے قانون کے مطابق دیے گئے تمام احکامات کی تعمیل اپنی جان کو درپیش خطرات سے بے نیاز ہو کر کروں گا… اللہ میرا حامی و ناصر ہو… آمین !!‘‘

حلف کی تکمیل ہوئی… اتنا سحر انگیز منظر تھا کہ جیسے زمین و زمان اس عہد کے گواہ بن گئے ہوں۔ میں ان اسمارٹ نوجوانوں کو کھڑے دیکھ رہی تھی، آج یہ لگ بھگ چھ سو کیڈٹ پاس آؤٹ ہو کر پاکستان کی بری فوج میں شامل ہونے جا رہے تھے، ان میں سے کتنے اگلے چند سالوں میں … میری آنکھیں بھیگنے لگیں۔

کسی نے شمار کیا ہے کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، گزشتہ چند برسوں میں ہونیوالے نقصانات کا، ان میں سے کتنے اگلے دو رینک تک پہنچیں گے، کتنے اس سے اگلے دو رینک تک، کتنے جرنیل بنیں گے … اور کتنے چیف آف آرمی اسٹاف تک پہنچیں گے … چار پانچ کورسوں میں سے بھی ایک شخص اس عہدے تک نہیں پہنچ پاتا… اور وہ ایک پہنچ جانے والا… اسے حالات ہی سیاست میں گھسیٹ لیتے ہیں، اسے اپنے حلف کو توڑنے والا کہا جاتا ہے، اسے سیاست کے کھیل میں شامل کر کے پورے ادارے کی مٹی پلید کر دی جاتی ہے… اس میں ان باقی لوگوں کا کیا قصور ہے جو کہ ہر گز ambitious نہیں ہوتے، اپنے حلف کا عمر بھر پاس نبھاتے ہیں، اپنے عہد پر کٹ مرتے ہیں، مادر وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دیتے وقت اپنی جنم دینے والی اور جان سے زیادہ خیال  رکھنے والی ماں کو بھی چھوڑ جاتے ہیں۔ اسے عمر بھر کے لیے آنسوؤں کی تسبیح کا نذرانہ دے کر جسے وہ عمر بھر سمرتی رہتی ہے۔

جن لوگوں نے فوج اور ہمارے درمیان خلیج قائم کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور ان کی زبانیں ہر ہر فورم پر زہر اگلتی ہیں… کاش ان میں سے کوئی اس دن وہاں ہوتا تو اسے اندازہ ہوتا کہ اپنوں کے درمیان کوئی خلیج نہیں ہوتی، فوج ہے کون؟ ہمارے اپنے ہی تو ہیں، کوئی ان کی طرح دشمنوں کے ایجنٹ نہیں، جنھیں اس نفرت کو پھیلانے کا عوضانہ ملتا ہے، اس دنیا میں بھی بالآخر ان کی مٹی پلید ہوتی ہے اور آخرت میں ان کا نام ان غداروں میں ہو گا جنھیں تاریخ کبھی معاف نہیں کر سکتی۔ وہ نہیں جانتے کہ دوام فقط اللہ کے نام کو ہے جس نے ہر چیز کو تخلیق کیا، وہ ان محافظوں کا محافظ ہے، ان جیالوں سے محبت کرنے والا ہے… اس کے نام پر لڑنے اور کٹ مرنے والوں کے درجات بلند و بالا ہیں… اللہ اس ملک کا اور اس ملک کے نگہبانوں کا سب سے بڑا نگہبان ہو… آمین!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔