تربیت کی کمی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 27 اپريل 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

راقم کا گزشتہ کالم  والدین کے ایک اہم مسئلے سے متعلق تھا، جس میں راقم نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ بہت سے والدین اپنی وصیت کے سلسلے میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور نتیجتاً ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد اولاد آپس میں دست وگریباں ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتیں حالانکہ والدین کی زندگی میں ان اولاد کا آپس میں پیارومحبت مثالی ہوتا ہے۔

اس کالم کی اشاعت پر ہمارے ایک محقق دوست نے اعتراض کیا اور ہمیں اپنا پچھلا کالم جو 18 اپریل کو روزنامہ ایکسپریس ’’مشرق ومغرب میں معاشرتی مسئلوں کا حل‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا کی جانب توجہ دلائی اور کہا کہ دونوں کالموں میں نظریے کا گہرا اختلاف ہے۔ ان کا موقف تھا کہ چونکہ 18 اپریل کے کالم میں ہم نے مسئلے کی جڑ کو ختم کرنے کی بات کی تھی اور مسئلے کے حل کے لیے ان کی وجوہات کو جاننے کی بات کی تھی۔ لہٰذا 23 اپریل کے کالم میں بھی یہی بنیاد ہونی چاہیے تھی یعنی یہ کہ ایسی نوبت کیوں آرہی ہے کہ والدین کا سایہ اٹھتے ہی اولاد آپس میں دست وگریباں ہوجاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وصیت پر تو بات کی لیکن وجوہات پر بات نہ کرکے درست نہیں کیا۔

میرے محترم دوست کا اعتراض کسی حد تک درست ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دیگر قارئین میں سے بھی کچھ نے ایسا کیا ہو۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ وصیت کا مسئلہ بھی اپنی جگہ اہم ہے تاہم جس جانب توجہ دلائی گئی ہے یہ مسئلہ (یعنی اولاد آخر والدین کے بعد دست وگریباں کیوں ہوتی ہیں) اپنی جگہ بڑا اہم ہے واقعی اگر ان وجوہات کو سمجھ لیا جائے تو یقینا پھر وصیت والا مسئلہ بھی مسئلہ نہ رہے۔ آئیے! اس ضمن میں والدین کا اولاد کی تربیت کے حوالے سے جاری رجحان کا جائزہ لیں اور اس میں چھپی خامیوں کو جان کر اصلاح کی کوشش کریں تاکہ آیندہ اس قسم کے مسائل سے بچنے کی راہ نکالی جاسکے۔

والدین کی جانب سے اولاد کی تربیت میں ایک بڑی خامی انھیں مادہ پرست اور کیریئر پرست بنانا ہے۔ والدین جب اپنے بچے کو اسکول میں داخل کراتے ہیں تو اپنی مالی استطاعت کے مطابق ان کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو اچھے سے اچھے اور مہنگے سے مہنگے اسکول میں داخل کریں پھر جب بچہ ہوش سنبھالتا ہے تو وہ والدین سے اس قسم کی توقع سنتا ہے کہ بیٹا! خوب علم حاصل کرو، اچھے نمبر لاؤ اور اچھی ملازمت حاصل کرو، زیادہ پیسے والی ملازمت جو اچھا مستقبل دے سکے۔ اچھی نوکری، زیادہ پیسے والی ملازمت یا بہترین کاروبار پر والدین کی جانب سے اس قدر زور دیا جاتا ہے کہ اولاد یہی سمجھتی ہے کہ زندگی کا حاصل اور مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ ایک اچھی ملازمت یا اچھا مستقبل ہو جس میں بہتر گھر اور بہتر آسائش زندگی ہو۔

چنانچہ جب والدین کی جانب سے ایک اچھا انسان بننے کے بجائے اچھا مستقبل ترجیحاً شامل ہوجاتا ہے تو پھر اولاد بھی اس کے پیچھے دوڑنے لگتی ہے اور اس کی ترجیح ایک اچھا انسان نہیں دولت اور بہتر مستقبل ہوتا ہے چنانچہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر والدین اپنے بچوں کو بہتر مستقبل کے لیے اپنی آنکھوں سے دور بیرون ملک بھیجنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور یوں اولاد بھی مادہ پرست بن کر دولت کے حصول کے لیے والدین سے آگے نکل جاتی ہے۔ کیونکہ وہ بچپن سے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں والدین کی ترجیح میں پیسہ ہے کیونکہ والدین اسے خریداری کرنے میں بھی پیسے سے متعلق ہوشیاری سکھاتے ہیں، دوستوں سے تعلق رکھتے وقت بھی ہوشیاری دکھاتے ہیں اور رشتہ طے کرتے وقت بھی دولت مندوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہ سب عمل جب والدین کی جانب سے ہو جس کی جڑیں مادہ پرستی سے جڑی ہوئی ہوں تو لازماً اس کا اثر اولاد پر بھی پڑتا ہے نتیجتاً آج کا نوجوان ہمیں بہترین کیریئر بنانے کے لیے سر توڑ کوشش کرتا نظر آتا ہے جو پڑھا لکھا ہے وہ قانونی طریقے سے بیرون ملک جاکر پیسے کمانا چاہتا ہے جو ان پڑھ ہے وہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کے لیے مختلف سہارے تلاش کرتا ہے۔ اولاد اپنے والدین کو بھی دیکھتی ہے کہ وہ انسانی رشتوں پرکس طرح دولت اور اسٹیٹس کو ترجیح دے رہے ہیں۔ راقم کے ایک دوست پہلے خود بیرون ملک گئے پھر اپنے دو عدد چھوٹے بھائیوں کو بھی وہیں بلالیا، اب ان کے والدین تن تنہا زندگی گزار رہے ہیں کہ بلند معیار زندگی کا تصور انھوں نے ہی اپنی اولاد کو دیا تھا۔

بات سیدھی سی ہے جب اولاد کی تربیت میں ایسی خامیاں پنہاں کردی جائیں دانستہ یا نادانستہ طور پر تو پھر اس کا خمیازہ کچھ اسی طرح بھگتنا پڑتا ہے اور ایسے حالات بالآخر آہی جاتے ہیں کہ جب والدین کا سایہ اٹھتے ہی اولاد آپس میں دست وگریباں ہوجاتی ہیں حالانکہ والدین کی موجودگی میں ان کے درمیان مثالی پیار و محبت ہوتا ہے۔ پورے ملک میں موجود  بیروزگاری ، خانماں بربادی ، بدامنی، بے اطمینانی، اضطراب، تشدد اور شورش کے پس منطر میں جھانکیے تو ہماری جواں نسل اس خون خرابے کی فرنٹ لائن یا اس کی زد پر نظر آئیگی۔

انسان دوستی پر مبنی تہذیبی رویے، شائستگی، مروت اور رحم دلی کے جذبات کی پرورش زندگی گزارنے کے مثبت اور سادہ طریقہ کار سے منسلک طرز عمل اور حسن سلوک کی مین اسٹریم  سے جڑے رہتے ہوئے جاری رہے تو حیات میں  فطری اعتدلال کا حسن از خود پیدا ہوتا ہے، جوانی دیوانی نہیں بنتی، اس میں عقلیت پسندی اور صلہ رحمی  کی آبیاری ہوتی ہے، رواداری کو پنپنے کا موقع ملتا ہے۔ورنہ تشدد  کے جس ہولناک کلچر نے قوم کو محاصرے میں لے رکھا ہے وہ اس کا آئینہ دار ہے اور اس کے عذاب کی قیمت معاشرہ ادا ہی کرتا رہے گا۔

غور کیجیے جب ہم اپنی اولاد کے سامنے چچا، تایا یا دیگر رشتے داروں کو برا بھلا کہیں، یا پڑوسی کے بزرگ کی عزت نہ کریں تو کیا یہ مناظر ہماری اولاد کو احترام انسانیت کا درس دیتے ہیں؟ جب انسانیت کا درس ہی نہ رہے اور اولاد کو عملاً عفوو درگزر اور صلہ رحمی کا مظاہرہ کرکے دکھایا نہ جائے تو بھلا جائیداد ومال اسباب کی تقسیم پر اولاد ایک دوسرے کا احترام کیونکر کریں گی، کیا وہ اپنا حصہ چھین جھپٹ کر اپنا کیریئر یا مستقبل مزید مضبوط بنانے کی کوشش نہ کریں گی؟ آئیے! تربیت کی کمی پر غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔