آلودگی کا شعور اور میڈیا کی ذمے داری

رئیس فاطمہ  اتوار 27 اپريل 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

فی زمانہ پوری دنیا ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے۔ کہنے کو تو ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ لیکن عمل اس عظیم اور متبرک قول پہ دوسروں نے کیا۔ یہ وہ قومیں ہیں جن کے لیڈر اپنے ووٹرز اور اپنے عوام سے مخلص ہیں۔ اور عوام خود آگاہی اور شعور کی دولت سے مالا مال ہیں۔

مہذب اقوام انفرادی سطح پر بھی خود کو ایک قوم سمجھتی ہیں۔ یعنی قوم کا مطلب افراد کا مجموعہ اور فرد کا مطلب ’’ملت کا ستارہ‘‘۔ اسی لیے وہ ہر معاملے میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم جس بدترین صورت حال سے دوچار ہیں۔ اس میں ماحول کی کثافت سر فہرست ہے۔ کوڑا کرکٹ، غلاظت کے ڈھیر، جہاں جی چاہا گندگی پھیلا دی۔ اور یہ نہیں سوچا کہ صفائی صرف آپ کے دروازے کے اندر تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ گھروں کی دہلیز سے نکل کر سیڑھیوں، فٹ پاتھوں اور سڑکوں تک جاتی ہے۔ یہ سڑکیں، یہ گلیاں یہ بازار سب ہمارے ہیں۔ لیکن بس ایک فیصد لوگ اس بات کو سمجھ پاتے ہیں۔ بقیہ 99 فیصد کے نزدیک ماحولیاتی آلودگی ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ یوں گھروں میں مچھر مار اسپرے سے لے کر کمروں میں خوشبودار اسپرے کا چھڑکاؤ کر کے گویا صحت کی حفاظت کر لی جاتی ہے۔ لیکن پڑھے لکھے ہونے کے باوجود افسوس کہ اپنے اطراف بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے مسائل سے نظریں چرا کر گزر جاتے ہیں۔

یوں ہم پورے سال بہت سے دن مناتے رہتے ہیں لیکن ایک دن صرف شہروں کی صفائی کے لیے مخصوص نہیں کرتے۔ ہمارے سیاست دان آئے دن کسی نہ کسی مسئلے پر ہڑتالوں کی کال بھی دیتے رہتے ہیں۔ علمائے کرام بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ لیکن ایک دن کی ہڑتال یا احتجاج کی کال کبھی کسی نے اس مسئلے کے لیے نہیں دی کہ مختلف اجتماعات میں لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے ۔ اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا بھی حصہ ڈالیں۔

تمام صوبائی حکومتوں کے پاس بہت فنڈز ہوتے ہیں۔ لیکن جو ہوتے ہیں وہ بھی ماحولیاتی آلودگی دور کرنے اور کوڑے کے ڈھیر اٹھانے پر خرچ کیے جائیں۔ آنکھیں بند کر کے بڑے شہروں میں فلائی اوورز اور انڈر پاس بنا دیے گئے ہیں اور مسلسل بنائے جا رہے ہیں۔ بلڈرز کو اپنے مفاد کے آگے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ بلند و بالا عمارات بنانے والوں کو تمام قوانین نظر انداز کر کے فلیٹ اور دکانیں بک کرنے کا اجازت نامہ دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے سینئر کالم نگار آنجہانی اردشیر کاؤس جی نے اکثر اپنے کالموں میں اس مسئلے کو اٹھایا کہ مرکزی شاہراہوں اور دیگر مقامات پر آنکھیں بند کر کے فلائی اوورز اور انڈر پاسز بنانے کی حماقت نہ کی جائے۔ فلائی اوورز پر سے گزرنے والی گاڑیاں اور انڈر پاسز میں جمع ہونے والا زہریلا دھواں نہ صرف آلودگی بڑھا رہا ہے بلکہ لوگوں کی سماعت کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ نزلہ، زکام، دمہ، الرجی، پھیپھڑوں اور سر درد کے امراض کے بڑھنے کی وجہ سے رکشوں، ٹیکسیوں، بسوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، موبائل ٹاورز کے تابکاری اثرات اور غلاظت کے ڈھیر ہیں۔ لیکن ان کے بارے میں عوام کو آگہی کون دے گا؟

جن گھروں میں پابندی سے اخبارات آتے تھے۔ ان میں خاصی کمی آ گئی ہے۔ سائنس کی ایک پروفیسر سے جب پوچھا کہ انھوں نے اخبار لینا بند کیوں کر دیا جب کہ میں نے ہمیشہ تازہ ترین اخبار ان کے ہینڈ بیگ میں دیکھا۔ لیکن اب ڈیڑھ سال سے انھوں نے اخبار سے رشتہ توڑ لیا ہے۔ لیکن جو وجہ انھوں نے اس کی بتائی، وہ واقعی بہت صحیح تھی۔ انھوں نے کہا کہ دن بھر جو خبریں خبرنامے کی صورت میں بریکنگ نیوز کی گھن گرج میں اور پٹیوں (Ticker) کی صورت میں ہر چینل سے دماغوں میں برمے کی طرح سوراخ کرتی رہتی ہیں۔ وہی سب کی سب اگلے دن اخبارات کی سرخیوں اور شہ سرخیوں کی شکل میں موجود ہوتی ہیں۔ باسی خبریں تازہ اخبار میں کون پڑھے گا۔ ایک ایک خبر کو گنے کی طرح مشین میں نچوڑ کر اس کا پھوک صبح پھر ناشتے کے ساتھ موجود ۔ تو ایسی صورت میں اخبار کیوں خریدا جائے؟

ان کی بات سے سب نے ہی اتفاق کیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف ادارتی صفحہ ہر اخبار کا الگ ہوتا ہے۔ ان کالموں میں ویوز اور نیوز دونوں ہوتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ کالم نگار بھی سیاست پہ بات کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ وہ سیاست جسے سنجیدہ لوگ اب Dirty Politics کہتے ہیں۔ وہی خبریں وہی سیاست دانوں کا قصیدہ لکھنے والے میڈیا کے ہر شعبے پہ چھائے ہوئے ہیں۔ کوئی کسی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے، کوئی کسی کے۔ سینئر لکھنے والے تو ہر پابندی سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے سروں پہ اپنی اپنی پارٹیوں کی ٹوپیاں اور وہ مخصوص عینکیں ہوتیں ہیں جن سے صرف اپنا لیڈر فرشتہ اور مخالف شیطان نظر آتا ہے۔ ان لکھاریوں پر کوئی پابندی نہیں، خواہ یہ ذاتی دوستیاں نبھائیں، اور فوائد حاصل کریں، جنرلوں پہ لعن طعن کریں، جمہوریت کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے یہاں تک جذباتی ہو جائیں کہ ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے‘‘۔ سب چلتا ہے ۔ ہر لفظ چھپ جاتا ہے لیکن صحت و تندرستی کے حوالے سے لکھے جانے والی تحریر بے مقصد ٹھہرتی ہے، آتشیں کھلونوں کے مقابلے میں کتاب اور علم سے دوستی بھی ایک گروہ کو گوارا نہیں۔

سماجی مسائل کی نشان دہی بھی اب بے کار ٹھہری ہے۔ کسی کے لیے ایک مخصوص دائرہ کار کے اس سے باہر قدم نہ رکھو۔ خواہ وہ صحت و تندرستی یا ماحولیاتی آلودگی سے نجات کا شعور ہی کیوں نہ بیدار کر رہی ہو۔ کچھ لوگوں کو پسند نہیں۔ امتحانی پرچوں کی طرح صرف ان جوابات کی اجازت ہے جو ممتحن کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرتا ہو۔ لفظ باسی ہو چکے ہیں۔ سوچ پر پابندی ہے۔ قلم پر بہت پہلے ہی پابندی لگ چکی۔ باقی کیا رہ جاتا ہے۔ کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پہ کھوپے باندھ کر ایک دائرے میں گھومتے رہو یا باسی مضامین کو ڈیپ فریز میں سے نکال کر پھر سے وہ سوالنامہ غور سے دیکھو جن میں ہدایات درج ہیں اور ان ہی پر عمل کرو، اور جب ہدایات پہ عمل کرتے ہوئے کولہو کے بیل بنو تو تازہ سوچ کی فرمائش۔ لوگ کریں تو کیا کریں؟

عوام میں آلودگی اور صحت کے حوالے سے آگہی دینا میڈیا کی ذمے داری بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔