- بھارت نے علیحدگی پسند سکھ رہنما کی جائیداد ضبط کرلی
- وزارت تجارت برآمد کنندگان کو نوازنے کے لیے سرگرم
- بجلی پیدا کرنے والے بہت زیادہ منافع لے رہے ہیں، عالمی بینک
- میانوالی ایکسپریس اسٹیشن پر کھڑی مال بردار گاڑی سے ٹکرا گئی، 20 افراد زخمی
- پیرو میں 1000 سال قبل پرانا شیرخوار بچوں کا قبرستان دریافت
- صبح میں ورزش کرنا وزن پر قابو رکھنے میں مدد دے سکتا ہے، تحقیق
- یوٹیوب نے ویڈیو ایڈیٹنگ ایپ متعارف کرا دی
- نارتھ کراچی میں راہ چلتی خاتون سے نازیبا حرکت کا مقدمہ درج
- شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں سے مقابلے میں پاک فوج کا سپاہی شہید
- یوکرین کا روسی نیوی ہیڈ کوارٹر پر میزائل حملہ، افسران کی ہلاکت کا دعویٰ
- کراچی: جیولر کے کارخانے پر 45 لاکھ روپے کی ڈکیتی
- سیالکوٹ میں لینڈنگ کے دوران پی آئی اے کا مسافر طیارہ دو حادثات میں بال بال بچ گیا
- باجوڑ، پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے کو اینٹی کرپشن نے گرفتار کرلیا
- کھیلوں میں سیاست اور سیاست میں کھیل آگیا، فاروق ستار
- منظور وسان نے الیکشن 28 جنوری کو ہونے کی پیش گوئی کردی
- امیدوار کا علیحدہ بینک اکاؤنٹ اور نتیجہ رات دو بجے تک لازمی، الیکشن کمیشن کی نئی ترامیم
- برطانوی حکومت کا اگلی نسل کی حفاظت کیلئے سگریٹ پر پابندی پر غور
- بابراعظم ورلڈ کپ میں آگ لگا سکتا ہے، گوتم گمبھیر
- کراچی سے ڈھائی من سے زائد چرس پکڑی گئی، ملزم گرفتار
- 22 سال سے قید روسی شہری اپنی رہائی کے دن جیل سے فرار
مفت آٹا
موجودہ حکومت نے پچھلے دنوں ہزاروں من آٹا،عوام میں مفت بانٹا۔ نیب نے خرد برد کے الزامات پر باقاعدہ تحقیقات کا آغازکردیا ہے۔ سچ تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گا، جس کے لیے تھوڑا انتظارکرنا پڑے گا۔ اصل میں یہ مسئلہ نیچے سے نہیں شروع ہوتا بلکہ یہ اوپر سے شروع ہوتا ہے، جہاں ہیرا پھیری ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا نظام ہم متعارف کریں گے کہ جس میں ان خرابیوں کا ازالہ ہو۔ سرمایہ دارانہ ملکوں میں جو لوٹ مار ہوتی ہے وہ سرمایہ داروں کے مفاد کے مطابق ہوتی ہے، اگر بغور دیکھا جائے تو یہ نظام بہت فائدہ مند ہے اوپر سے چلتا ہے اور نیچے اپنوں کو ریوڑیاں بانٹتا چلا جاتا ہے۔
دنیا میں ارب پتی ایک ایسا طبقہ ہے جو سرمایہ کو دبوچ کر بیٹھ جاتا ہے اور ضرورت کے مطابق خرچ کرتا ہے لیکن اس میں بھی منافع کا عنصر سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے افسوس کہ صورت حال یہ ہے کہ چیک اور ہنڈیاں لے کر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ٹیلی فون پر اربوں روپے کے لین دین ہوتے ہیں۔ کرپٹ نظام کے کرتا دھرتا سب کچھ کھا پی جاتے ہیں اور آخر میں غریب کے ہاتھ ہزار، ہزار والے چند نوٹ ہی لگتے ہیں، جس سے اس کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہوتی ہیں، وہ روز سسک سسک کر مرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا ہے کیا اس دوران ان انسانوں کا وجود نہ تھا جو اس بندربانٹ کو محفوظ نہ کرسکتے ہوں۔
معیشت کا پہیہ زیادہ تر مڈل مین کے گرد گھومتا رہتا ہے سیٹھ ساہوکار چیک وغیرہ کے چکر میں بھی نہیں جاتے کروڑوں روپے کا لین دین ٹیلی فون پر ہو جاتا ہے نچلے طبقات معاشی تنگدستی میں زندگی گزارتے ہیں کہ انھیں صبح کا کھانا نصیب ہوا تو شام کے کھانے سے محروم رہ جاتے ہیں یہ جو جبر یا المیہ ہے۔
اس کے خلاف عوام کو جاگنا ہوگا اور جدوجہد کرنی پڑے گی؟اصل میں مڈل کلاس بہت اپرچونیسٹ ہوتا ہے وہ اصولوں کو نہیں مانتا ، نہ ایمانداری سے اسے کوئی دلچسپی ہوتی ہے وہ صرف اپنے فائدے کا سوچتا ہے جب صورتحال یہ ہو تو پھر ورکنگ کلاس میں شعور پیدا کرنے کا کام کون کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ ورکنگ کلاس انتہائی اذیت کی زندگی گزار رہی ہے۔
اس سلسلے میں ایک منظم مہم کی ضرورت ہے جو ورکنگ کلاس میں شعور پیدا کرے، اسے بتائے اس کی دن بھر کی محنت کی کمائی اوپر بیٹھے ہوئے چور ہڑپ کر جاتے ہیں۔
یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا ہے اور اگر ایک منظم مہم کے ساتھ اس میں تبدیلی لانے کی کوشش نہ کی جائے تو ورکنگ کلاس اسی ابتر حالت میں زندگی کی گاڑی گھسیٹتی رہے گی ترقی یافتہ ملکوں میں ورکنگ کلاس بیدار ہو رہی ہے اور احساس ہو رہا ہے کہ اس کی محنت کی کمائی دوسرے چھین رہے ہیں۔ یہ احساس جب تک پاکستانی ورکنگ کلاس میں پیدا نہ ہو اس وقت تک ورکنگ کلاس انتہائی اذیت ناک زندگی گزارتی رہے گی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری باشعور مڈل کلاس اس ظلم کے خلاف اپنے آپ کو منظم کرتی۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو کسی حد تک طبقاتی احساس پیدا ہو رہا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں اس حوالے سے نہ کوئی کام ہو رہا ہے نہ ورکنگ کلاس میں کوئی بیداری پیدا ہو رہی ہے۔
اصل میں پسماندہ ملکوں میں قسمت کے لکھے کو حرف آخر تصورکیا جاتا ہے اور اسے حقوق کے حوالے سے جدوجہد کو بے کار، بے محض سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں ایسے انقلابی خیالات کو قوت سے دبا دیا جاتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ طبقاتی سماج میں ایک منظم طریقہ کار ہوتا ہے جو انسانی محنت کا استحصال کرتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ورکنگ کلاس خود اپنے اندر یہ تبدیلی لائے کہ اس کو لوٹا جا رہا ہے اس کو ختم کرنے کے لیے منظم جدوجہد کرنا پڑے گی۔
یہ کام آسان نہیں ہے کیونکہ استحصالی طاقتیں، عوام کے درمیان چھوٹے چھوٹے نظریاتی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر اس کو ایمان کا حصہ بنا دیتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔