- فیض آباد دھرنا کیس؛ وفاق اور الیکشن کمیشن کا بھی نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ
- شیریں مزاری کی گرفتاری پر اسلام آباد پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم
- سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا
- کراچی میں خالو کی فائرنگ سے 3 سالہ بھانجی جاں بحق، سالی زخمی
- ورلڈکپ؛ چاچا بشیر کو سیکیورٹی اہلکاروں نے ’’پاکستانی پرچم‘‘ لہرانے سے روک دیا
- کراچی میں شہری کی فائرنگ سے 2 ڈاکو ہلاک، ایک شدید زخمی
- کراچی میں کمپنی ملازمین کی بس لوٹنے والے 3 ملزمان گرفتار
- ریچھ کا پکنک مناتے خاندان کے دستر خوان پر دھاوا، مفت کی دعوت اُڑا لی
- پنجاب؛ مون سون کا آخری سپیل خطرناک آندھی اور طوفان سے شروع ہونے کا امکان
- جعلی اکاؤنٹس و توشہ خانہ کیس؛ آصف زرداری احتساب عدالت طلب
- انسداد دہشتگردی عدالت؛ سانحہ 9 مئی کا چالان جمع، عمران خان قصوروار قرار
- لاہور ہائیکورٹ نے 24 سیشن ججز کو او ایس ڈی بنادیا، نوٹیفکیشن جاری
- بابراعظم، رضوان اور شاہین نے حیدرآباد میں استقبال پر کیا کہا؟
- کراچی میں شدید گرمی، پارہ 41 ڈگری تک جانے کا امکان
- رواں مالی سال ترقیاتی بجٹ میں 200ارب روپے کمی کا امکان
- پاکستان کو جولائی، اگست میں 5ارب31کروڑ ڈالر قرض اور فنڈز ملے
- گیس چوری، مزید 188کنکشن منقطع، 80 لاکھ روپے جرمانہ عائد
- پشاور؛ احتساب عدالتوں میں بحال کیے گئے ریفرنسز کی سماعت شروع
- کریک ڈاؤن، کھاد کے بیگ کی قیمت 600 روپے تک کم ہوگئی
- حاملہ خواتین کے لیے ورزش کے فوائد
جامعہ اردو میں وائس چانسلر کی تقرری نہ ہونے سے ملازمین کی تنخواہیں رک گئیں
فوٹو: فائل
کراچی: ایوان صدر اور وفاقی وزارت تعلیم کے مابین وفاقی اردو یونیورسٹی کے معاملے پر جاری کشمکش کے باعث یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا تقرر نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہیں رک گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایوان صدر اور وفاقی وزارت تعلیم کے مابین وفاقی اردو یونیورسٹی کے معاملے پر کشمکش جاری ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تقرری نہ ہونے کے سبب ملازمین کی تنخواہیں رک گئی ہیں اور کراچی و اسلام آباد کے کیمپسز کے 1400 ملازمین کو اس بار مئی کے مہینے کی تنخواہیں نہیں ملیں گی۔
یونیورسٹی کے اسائنمنٹ اکاؤنٹ میں تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے مطلوبہ فنڈ موجود نہیں ہے اور یونیورسٹی میں وائس چانسلر نہ ہونے کے سبب دیگر اکاؤنٹس سے فنڈز منتقل ہونا ممکن نہیں رہا، اردو یونیورسٹی کے آفیشل ذرائع نے تنخواہیں رک جانے کی تصدیق کردی ہے۔
واضح رہے کہ اردو یونیورسٹی کا ماہانہ “پے رول” 170 ملین روپے سے زائد ہے جس میں 100 ملین کراچی کے دونوں کیمپسز، 40 ملین اسلام آباد کیمپس ، 28 ملین پینشن جبکہ 7 ملین کنٹریکٹ ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں ادا ہوتے ہیں۔
مزید برآں 25 ملین روپے کے لگ بھگ رقم سے ہائوس سیلنگ کی ادائیگی ہوتی ہے ، ایچ ای سی یونیورسٹی کے اسائنمنٹ اکاؤنٹ میں جو رقم منتقل کرتی ہے اس سے براہ راست تنخواہیں ادا کردی جاتی ہیں تاہم اس وقت اسائنمنٹ اکاؤنٹ میں مطلوبہ رقم کا 50 فیصد بھی موجود نہیں ہے جس سے تنخواہیں جاری ہوسکیں۔
یاد رہے کہ عید الفطر سے قبل یونیورسٹی ملازمین کو عید ایڈوانس تنخواہ کے طور پر 19 اپریل کو ہی سیلری جاری کردی گئی تھی تاہم اب مئی کی تنخواہ اس لیے جاری نہیں ہوسکتی کہ دیگر اکاؤنٹس سے رقم نکلوانے کے لیے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی منظوری لازمی ہے مگر تقریباً تین ماہ سے یونیورسٹی کا کوئی وائس چانسلر نہیں ہے۔
آخری یا سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کو وزارت تعلیم نے ایک خط کے ذریعے یہ کہہ کر عہدے سے سبکدوش کردیا تھا کہ یونیورسٹی کی سینیٹ کے فیصلے کے تحت این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی کے انکار کی صورت میں ڈاکٹر ضیاء الدین مزید دو ماہ تک اس عہدے پر کام کرسکتے ہیں لہذا دو ماہ پورے ہونے پر انھیں عہدے سے ہٹادیا گیا۔
یونیورسٹی ذرائع کہتے ہیں کہ اب یہ معاملہ اسائنمنٹ اکائونٹ میں ایچ ای سی کی جانب سے مزید فنڈز منتقل کرنے یا وائس چانسلر کے تقرر سے ہی حل ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب وزارت تعلیم کے اس فیصلے سے سینیٹ کی ایمرجنسی کمیٹی نے اختلاف کیا اور اپنے منعقدہ ایک اجلاس کی روداد جاری کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کے اجلاس کی روداد فیصلوں کے برعکس جاری کی گئی ہے۔
سینیٹ نے ڈاکٹر سروش لودھی کے انکارکی صورت میں ڈاکٹر ضیاء الدین کو مستقل وائس چانسلر کے تقرر تک عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا مگر فیصلے میں دو ماہ کی مدت کا ذکر نہیں تھا ، تاہم روداد میں مدت دے دی گئی جو فیصلے کے برخلاف ہے۔
یاد رہے کہ اردو یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر اور اراکین سینیٹ کے تقرر کے معاملے پر ایوان صدر اور وفاقی وزارت تعلیم میں اختلاف ہے جسے بیورو کریٹک ڈیڈ لاک کہا جارہا ہے، تین ماہ سے یونیورسٹی کا کوئی وائس چانسلر نہیں ہے جس کا نتیجہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔