’’تدریس چھوڑ کر پولیس میں آئی‘‘

رضوان طاہر مبین  پير 28 اپريل 2014
سندھ پولیس کی پہلی خاتون ایس ایچ او غزالہ پروین  سے ایک نشست۔ فوٹو: فائل

سندھ پولیس کی پہلی خاتون ایس ایچ او غزالہ پروین سے ایک نشست۔ فوٹو: فائل

ویمن پولیس اسٹیشن کے قیام کے بعد جب شاہین پبلک ہائی اسکول کے اساتذہ پر مشتمل ایک وفد اس کے دورے پر آیا، تو اس وفد میں موجود ایک خاتون استاد ایسی بھی تھیں، جو پورے تھانے میں خواتین کو پولیس کی وردیوں میں ملبوس دیکھ کر اتنی متاثر ہوئیں کہ تدریس کو خیرباد کہہ کر انہی کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔ یہ ذکر ہے غزالہ پروین کا، جنہوں نے حال ہی میں سندھ پولیس میں پہلی خاتون ایس ایچ او ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

غزالہ پروین نے پولیس میں آنے کی خواہش کی تو شوہر کی طرف سے یہ کہہ کر سخت مزاحمت کی گئی، کہ پولیس کا محکمہ اچھا نہیں! تاہم سسر نے بھرپور ساتھ دیا اور کہا ’’مجھے اپنی بیٹی پر پورا اعتماد ہے، اسے پولیس میں جانے دو، اگر وہاں کا ماحول اچھا نہ ہوا، تو یہ خود ہی واپس آجائے گی۔‘‘

وہ اپنے والدین کی شادی کے دس سال بعد پیدا ہوئیں۔ اس لیے گھر میں لاڈلی تھیں۔ جب ان کے والد کو یہ معلوم ہوا کہ وہ پولیس میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں، تو انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ تم پولیس میں کیا کرو گی؟ تم تو کسی کو ڈرا بھی نہیں سکتیں، تہمارا تو لب ولہجہ ہی پولیس والوں جیسا نہیں ہے۔

غزالہ پروین نے بی اے اور پی سی ٹی (ٹیچنگ کورس) کر رکھا تھا۔ پولیس میں آنے کے لیے شہداد پور سے تربیت حاصل کی، جس میں اول آئیں، یوں  1994ء میں پروبیشنل اے ایس آئی کی حیثیت سے خواتین پولیس کا حصہ بن گئیں۔

2003ء سے 2014ء تک ایس ایچ او ویمن پولیس اسٹیشن رہیں۔۔۔ اس دوران 260 مقدمات درج کیے، جن میں سے 116 مقدمات چالان ہوئے۔ یہ مقدمات زیادہ ترچوری اور اغوا وغیرہ کے تھے، چند ایک قتل کے  بھی تھے۔ غزالہ کہتی ہیں کہ جائے روزگار پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے قانون کے تحت پہلا مقدمہ درج کرنے کا اعزاز بھی انہی کے حصے میں آیا۔

غزالہ پروین کے مطابق پولیس کے شعبے میں انہیں فلاح و بہبود کے کام کے لیے بھی وسیع گنجایش نظر آئی، جس نے انہیں اس طرف آنے کے لیے مہمیز کیا، کہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کی دعائیں لے سکتی ہیں۔ ’’دعائیں اور پولیس۔۔۔؟‘‘ پولیس کے عام تاثر کے تحت جب ان سے یہ سوال کیا گیا، تو اپنے کیرئیر سے پوری طرح مطمئن غزالہ پروین نے کہا  کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، میری نیت صاف تھی۔۔۔ اس لیے میں اس کا صلہ پا رہی ہوں۔ پہلے ویمن پولیس اسٹیشن میں بغیر کسی اظہار وجوہ کے نوٹس اور معطلی کے  12 برس مستقل ایس ایچ او رہی، جب کہ اس سے پہلے وہاں یہ عہدہ چھے مہینے اور سال سے زیادہ کم ہی کسی کے پاس رہا۔ یہ میرے خلوص کا ہی نتیجہ ہے کہ میں آج ایک عام تھانے میں بھی ایس ایچ او تعینات ہوں۔

پولیس میں آتے وقت کوئی خاص عہدہ ان کی منزل نہ تھا۔ بس کچھ اچھا کرنے کی لگن تھی۔ کبھی ویمن پولیس اسٹیشن کا بھی ایس ایچ او بننے کا سوچا اور نہ کبھی اس دوڑ میں شامل ہوئیں۔

سندھ پولیس کی پہلی خاتون ایس ایچ او کا اعزاد حاصل کرنا ان کے لیے ناقابل یقین ہے۔ کہتی ہیں، میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا ہو گا۔ اس کام یابی پر بہت زیادہ خوشی اور فخر ہے اور میں اپنے احساسات کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ چاہتی ہوں کہ جو اعتماد مجھ پر کیا گیا اس پر پورا اتروں۔ ویمن پولیس اسٹیشن میں طویل عرصے تک ایس ایچ او رہنا بھی ایک چیلنج تھا اور اب یہ بھی ایک چیلنج ہے۔ کلفٹن پولیس اسٹیشن میں بطور ایس ایچ او ضرور نئی ہوں، لیکن 20 سال سے پولیس میں ہوں، تو  سب ہی مجھے جانتے ہیں۔ تجربہ نیا تھا، اس لیے یہاں آنے سے پہلے ایک جھجھک ضرور تھی کہ پتا نہیں بطور کمانڈر کیسے تسلیم کیا جائے گا، لیکن الحمدللہ مجھے پولیس میں اچھے لوگ  ملنے کا تسلسل قائم ہے۔

غزالہ پروین چاہتی ہیں کہ خواتین تدریس اور طب کی طرح بطور پیشہ پولیس میں آئیں۔ اگر اس محکمے کا تاثر اچھا نہیں، تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ باہر سے بیٹھ کر تنقید کرنے کے بہ جائے آگے آکر اس کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھائیں۔ یہ مشکل ضرور ہے، لیکن جب ہم ہمت کر لیتے ہیں، تو پھر مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ اگر خواتین سوچ لیں کہ انہوں نے اچھائیاں پھیلانی اور برائیاں ختم کرنی ہیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

مرد اور خواتین ملزمان کے درمیان موازنے کے ذکر پر ان کا کہنا تھا کہ ملزم تو ملزم ہی ہوتا ہے۔ اس میں صنف کی بنیاد پر کیا تقابل۔ ان کے تجربات کے مطابق متوسط طبقے کی خواتین زیادہ جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں، جس کی زیادہ تر وجہ معاشی حالات اور شعور وآگاہی کی کمی ہے۔ زیادہ تر خواتین ملزمان اغوا اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث پائی گئی ہیں۔ قتل میں بہت زیادہ انتہائی صورت حال میں ملوث ہوئیں۔ خواتین میں جرائم کی شرح دنیا بھر میں پاکستان سے بہت زیاد ہے، یہاں ایسی صورت حال نہیں۔

غزالہ پروین خواتین پر تشدد کے خلاف آگاہی پھیلانے کے لیے بھی متحرک ہیں۔ اس ضمن میں مختلف پمفلٹ اور کتابچے بھی تحریر کیے۔ دو سال قبل یہ تحریریں ’’وائلنس اگینسٹ ویمن‘‘ نامی کتاب کی صورت میں یک جا کیں، اس کتاب میں انہوں نے  اپنے تجربات  بھی شامل کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ضرورت اس کی ہے کہ خواتین کو معلوم ہو کہ جب ان پر تشدد ہو تو انہیں کیا راہ اختیار کرنی چاہیے۔ ایسی خواتین کا خوف دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ مختلف پروگرام بھی منعقد کراتی رہتی ہیں۔

ویمن پولیس اسٹیشن میں رہ کر غزالہ پروین کو اندازہ ہوا کہ معاشرے میں کس، کس طریقے سے خواتین کو جبر اور استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بلیک میلنگ کا ایک مقدمہ ان کے لیے ناقابل فراموش رہا، جس میں انہوں نے متاثرہ خواتین کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار کیا۔ وہ چاہتی ہیں کہ ہماری خواتین خود کو پہچانیں کہ وہ کیا کچھ کر سکتی ہیں۔ جب خواتین کو نظر انداز کیا جاتا ہے، تو انہیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ بقول ان کے کہ ’’اچھے برے سب جگہ ہوتے ہیں، کچھ مثالوں کو بنیاد بنا کر سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا مناسب نہیں۔‘‘

انہوں نے پولیس کی جانب سے آسٹریلیا میں منعقدہ ویمن کانفرنس میں بھی شرکت کی، جہاں 172 ممالک کی خواتین پولیس سے ملنے کا موقع ملا۔ خواتین پولیس کے کام کا طریقہ کار کا مشاہدہ کیا۔ محسوس کیا کہ ہمارے ہاں متاثرین کے لیے معاونت کا فقدان ہے۔ آسٹریلیا میں باقاعدہ ’’وکٹم سپورٹ سروسز‘‘ موجود ہیں۔ اسی کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے ویمن پولیس اسٹیشن میں بھی ایک ’’وکٹم سپورٹ ڈیسک‘‘ بنائی، جو سائونڈ پروف تھی۔ اب چاہتی ہیں کہ کلفٹن تھانے میں بھی ایسی ڈیسک قائم کی جائے، جہاں خواتین آکر بلا جھجھک بات کر سکیں۔ ان کی یہ سوچ ختم ہو کہ تھانے میں نہ جانے ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔

ایک خاتون کے بطور ایس ایچ او آنے سے انہیں امید ہے کہ عوام میں محکمے کا تاثر مزید بہتر ہو گا۔ یہاں آنے کے بعد ان کی اولین ترجیح یہ ہے کہ تھانے آنے والے مطمئن ہو کر جائیں، بالخصوص پولیس کے رویے اور ایف آئی آر کے حوالے سے کوئی دشواری نہ ہو۔

ویمن پولیس اسٹیشن سے عام تھانے میں تقرری سے پیشہ ورانہ معمولات میں بہت فرق آیا ہے۔ عام تھانے میں ذمہ داریاں ملنے کے بعد انہیں لگتا ہے کہ اب زیادہ کٹھن چیزوں سے نبرد آزما ہونا ہوگا۔ ویمن پولیس اسٹیشن میں کبھی ملزمان سے مقابلے یا دھمکیوں کی نوبت نہیں آئی۔ وہاں غروب آفتاب کے بعد کام تقریباً بند ہو جاتا تھا، جب کہ یہاں اس کے برعکس صورت حال ہے۔ اب گھر کو وقت دینا چیلنج ہے۔ غزالہ کے شوہر نصیر پی آئی اے میں انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑا بیٹا میٹرک میں ہے۔ کہتی ہیں کہ شاید وہ پولیس میں آنا پسند نہ کریں، کیوں کہ یہاں بہت وقت دینا پڑتا ہے۔ اپنے تھانے کی حدود میں اسٹریٹ کرائمز  پر قابو پانے کے لیے گشت اور تلاشی کے عمل پر توجہ دینے کا عزم رکھتی ہیں۔

خواتین کے نام پیغام دیتے ہوئے غزالہ پروین نے کہا کہ مائیں بچوں کو جو سکھاتی ہیں، وہ ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ مائوں کو چاہیے کہ وہ بیٹے اور بیٹی کا امتیاز ختم کریں۔ دونوں برابر ہیں، بیٹیوں کو بھی اچھی تعلیم دیں۔ بعض اوقات بیٹیاں وہ کام کر جاتی ہیں، جو بیٹے نہیں کر پاتے۔ ہمارے ہاں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ بیٹی نے تو دوسرے گھر چلے جانا ہے، اس لیے اسے بھلا تعلیم دینے کی کیا ضرورت۔ یہ امتیاز ختم ہونا چاہیے۔

’’تیسرا پھول کہاں ہے؟‘‘

غزالہ پروین کی پیشہ ورانہ زندگی کا تکلیف دہ لمحہ ان کی تنزلی تھا۔۔۔ جب ایک واقعے کے بعدچیف جسٹس کے حکم پر 2009ء میں ایڈہاک پر دی جانے والی ترقی ختم کر دی گئی، جس کی زد میں آکر ان کی تنزلی بھی ہوئی۔ 1994ء سے 2002ء تک ان کی ترقی نہیں ہوئی۔ لہٰذا، ایڈہاک پر آئی جی نے ترقی دی، اس حوالے سے ان کا کہنا ہے، ’’جب ہم ڈی ایس پی کا کورس کر کے آئے، تو انسپکٹر سے بھی سب انسپکٹر ہو گئے۔ یہ لمحہ بڑی شرمندگی کا تھا۔‘‘ وہ گھر والوں کو بھی نہیں بتا سکیں۔ خیر یہ ہوئی کہ اہل خانہ کو پولیس کے دو اور تین پھول کا فرق نہیں پتا تھا۔ کافی دن بعد جب انہوں نے پوچھا  کہ تمہارے تو دو پھول ہیں، تیسرا پھول کہاں گیا؟ تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹالا کہ ’’دراصل کورس کے بعد ایک پھول کم ہو جاتا ہے!‘‘

اسٹریس اینالسٹ

ملزمان سے تفتیش کے حوالے سے غزالہ پروین کا کہنا ہے کہ مار پیٹ کے ذریعے تفتیش سے تو ملزم نے جو نہ کیا ہو وہ بھی قبول کر لے گا کہ ہاں یہ  بھی میں نے کیا۔ اب پولیس کے طریقہ تفتیش میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے ’’اسٹریس اینالسٹ‘‘ کا کورس کر رکھا ہے۔ اس کے ذریعے معلوم چلا لیا جاتا ہے کہ آیا ملزم نے جرم کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں۔ عرف عام میں اسے ’’جھوٹ پکڑنے والی مشین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

غلط بیانی کے وقت ہمارے جسم میں ہونے والے تغیرات اس کی نشان دہی کر دیتے ہیں کہ ہم کچھ چھپا رہے ہیں۔ ’’کیا یہ طریقہ کسی کمزور دل کے بے قصور فرد پر بھی ویسے ہی نتائج دے گا، جو الزامات سن کر پریشان ہو جاتا ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ  ہم اس کے لیے پہلے ایک پورا ماحول بناتے ہیں۔ ملزم کا اعتماد بحال کر کے اسے پرسکون کرتے ہیں۔ جس کے بعد بہ آسانی سچ اور جھوٹ جانچ لیا جاتا ہے۔ اس وقت یہ چند ایک تھانوں میں ہی موجود ہے، کیوں کہ اس میں استعمال ہونے والا سوفٹ وئیر 30 لاکھ کا ہے۔

’’میں ابھی تک زخمی ہوں!‘‘

غزالہ پروین نے جب تدریس چھوڑ کر پولیس میں شمولیت اختیار کی تو اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی سید شہاب الدین کو بھی پولیس میں لائیں۔ بد قسمتی سے  18 اکتوبر 2007ء کو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ہونے والے دھماکے میں شہاب شدید زخمی ہوا اور اس  کا دماغی توازن بگڑ گیا اور ایک آنکھ بھی ضایع ہو گئی۔ اب اس کے گھر کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر ہے۔ اس کی تین بیٹیاں ہیں۔ اسے ابھی تک کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔ غزالہ کا کہنا ہے کہ اس حادثے میں شہاب نہیں بلکہ میں زخمی ہوئی ہوں۔ اگر خدانخواستہ مجھے کچھ ہو جاتا، تو بھائی ہی میرے گھر کی ذمہ داریاں اٹھاتا۔ اب وہ اپنے حواس میں نہیں تو اس کا گھر میری ذمہ داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔