میڈیا اور مادر پدر آزادی

ایاز خان  منگل 29 اپريل 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

میڈیا اور فوج کے حوالے سے جو بحث جاری ہے اس پر خاصے دنوں سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن میں انتظار کر رہا تھا کہ حکومت مجھے کہیں نظر آئے تو پھر کچھ کہا جائے۔ بظاہر حکومت ہر جگہ موجود ہے مگر عملاً کہیں بھی نہیں ہے۔ حکومت کے لیے شاید یہ آئیڈیل وقت ہے کہ میڈیا کی توجہ اس پر نہیں ہے۔ لہٰذا 8 گھنٹے کے ایک ڈرامے سے جتنا حکومت لطف اندوز ہوتی رہی شاید ہی کسی اور نے اسے اتنا انجوائے کیا ہو۔ اگر حکومت ڈرامے کے ابتدائی گھنٹے میں ہی مداخلت کر لیتی تو بھی 7گھنٹے کے نقصان سے بچا جا سکتا تھا لیکن شاید غلیل کے بجائے دلیل کا ساتھ دینے کی سوچ نے ریڈ لائن کراس کرا دی اور پھر جو کچھ ہوا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ کہتے ہیں اس ملک میں ایک آئین ہے جو فوج پر تنقید سے روکتا ہے۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں‘ آئی ایس آئی پر جو تبرا ہوا‘ اس میں آئین کو کوئی اہمیت دی گئی؟ کیا کبھی بھارت کے کسی ٹی وی چینل نے را کے سربراہ کی تصویر کے ساتھ ایسی بریکنگ نیوز چلائی ’’یہ ہے‘ وہ آدمی جس نے قاتلانہ حملہ کرایا‘‘۔ میں تو پہلے ہی کہتا ہوں کہ پاکستان میں جتنی آزادی ہے‘ دنیا کے کسی ملک میں نہیں‘ یہاں آپ طاقتور ہیں تو کسی کو بھی سر بازار بے عزت اور رسوا کر سکتے ہیں۔ چوری کر کے بھی الزام دوسرے پر لگا سکتے ہیں اور پھر اسے ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ صفائی پیش کرے‘ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔

آئین پاکستان کے تحت آئی ایس آئی کا سربراہ وزیر اعظم کے ماتحت ہوتا ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر آئی ایس آئی پر الزام لگتا ہے تو وہ وزیر اعظم پر بھی ہوتا ہے‘ کیا اتنے بڑے معاملے پر جناب نواز شریف کا آگے آنا نہیں بنتا تھا‘ اگر وہ بروقت کارروائی کرتے تو شاید یہ معاملہ اتنا سنگین نہ ہوتا۔آئی ایس آئی کا سربراہ روایتی طور پر حاضر سروس فوجی ہوتا ہے حالانکہ وزیر اعظم کا اختیار ہے کہ وہ کسی غیر فوجی کو بھی اس انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ بنا سکتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے حاضر سروس کے بجائے ریٹائرڈ جنرل کلو کو اس کا سربراہ بنا کر ایک تجربہ کیا تھا مگر وہ کامیاب نہیں رہا۔ اب وزیر اعظم نواز شریف چاہیں تو سویلین سربراہ کا تجربہ کر سکتے ہیں۔

موجودہ صورت حال سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہوئی۔ حامد میر پر حملہ قابل مذمت ہے اور حملہ آوروں کی گرفتاری نہایت اہم۔ صحافت کی دنیا میں حامد میر کا ایک مقام ہے اس لیے ان کے حملہ آوروں کو گرفتار کر کے کیفرکردار تک پہنچانا حکومت وقت کی ذمے داری ہے۔ حامد میر روبصحت ہیں اور میری دعا ہے کہ وہ جلد مکمل فٹ ہو کر صحافت کی دنیا میں واپس آئیں۔ حامد میر کے ساتھ میرا یونیورسٹی دور سے تعلق ہے‘ وہ مجھ سے ایک سال جونیئر تھے۔ میرے دوست اور معروف صحافی طاہر سرور میر اور محسن گورایہ اس کے کلاس فیلوز ہیں لیکن میں حامد میر کا کرکٹ فیلو ہوں‘ یونیورسٹی میں ہم دونوں اوپن کیا کرتے تھے‘ یوں میں کہہ سکتا ہوں کہ میرا اور حامد میر کا تعلق بھی کلاس فیلوز جیسا ہی ہے۔ حامد میر کرکٹر رہا ہے اور جتنا اسے میں نے کھیلتے دیکھا ہے وہ بہت محتاط انداز میں گیند کو کھیلا کرتا تھا۔ البتہ میڈیا میں اس کی اننگز بڑی جارحانہ ہے۔ وہ فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا عادی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں انھوں نے جس طرح کھیلا وہ ان کے چاہنے والوں کو تشویش میں مبتلا کرتا تھا۔ دوستوں سے اکثر بات ہوتی تھی کہ وہ اپنی جارحیت کا نشانہ سب ہی کو بنا رہے تھے۔ ایسے میں یہ خطرہ رہتا ہے کہ کسی طرف سے بھی حملہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس دن ان پر حملہ ہوا مجھے حیرت نہیں ہوئی۔

میڈیا میں اگر 20‘ 25 سال کا عرصہ گزار لیا جائے اور آپ معروف بھی ہو جائیں تو یہ ممکن نہیں کہ کچھ گروہ آپ سے ناخوش نہ ہو جائیں۔ کہیں سے کوئی دھمکی اور دباؤ بھی پھر معمول بن جاتا ہے۔ ایسے میں اگر آپ کسی کو ’’نامزد‘‘ کر دیں تو پھر خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آپ سے ناراض سارے گروپ موقع کی تاڑ میں رہتے ہیں۔ جس کو پہلے موقع ملتا ہے وہ وار کر جاتا ہے۔

فوج اور آئی ایس آئی پر بے جا تنقید سے کیا حاصل کرنے کی کوشش کی گئی؟ یہ سب سے اہم سوال ہے۔ کیا فوج کسی کے ایجنڈے کی راہ میں مزاحم ہے۔ فوج کے سیاسی کردار پر تنقید ہو سکتی ہے لیکن جمہوری دور کے چھٹے سال میں یہ ضرورت کیوں محسوس کی گئی کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو محض ایک الزام پر تضحیک کا نشانہ بنایا جائے۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوج پولیس جیسی ہو جائے؟ کیا ہماری سرحدیں اتنی مضبوط ہو گئی ہیں کہ ہمیں طاقتور فوج کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ آئی ایس آئی‘ سی آئی اے‘ را‘ موساد وغیرہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں جس طرح سے کام کرتی ہیں یہ ممکن نہیں کہ ان سے سب لوگ خوش ہوں۔ یہ سب اپنے ملکوں کے دفاع کے لیے کام کر رہی ہوتی ہیں۔

کیا سارے امریکی سی آئی اے سے خوش ہوں گے یا تمام انڈین را کو پسند کرتے ہوں گے؟ آئی ایس آئی بھی سب پاکستانیوں کی فیورٹ نہیں ہو سکتی۔ اس سے اختلافات ہو سکتے ہیں اور تنقید بھی کی جا سکتی ہے لیکن آٹھ گھنٹے تک اس کے سربراہ کی تصویر چینل پر چلا کر اسے مجرم بنا کر پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور حکومت لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے تو پھر بہت سارے سوال جنم لیتے ہیں۔ وزارت دفاع کی شکایت پر جو شوکاز نوٹس دیا گیا‘ اس میں کئی دن کا ریلیف دیا گیا۔ وزیر داخلہ بھی تب میدان میں آتے ہیں جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ وزیر اعظم اور ان کے بعض وفاقی و صوبائی وزراء اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادی اظہار کیا ہے؟ وزیر اعظم نے اب جا کر کہیں ملکی دفاع اور سلامتی میں آئی ایس آئی کے کردار کی تعریف کی ہے۔ کاش ایسا وہ پہلے روز ہی کر دیتے۔

آزادی اظہار ’’فریڈم آف ایکسپریشن‘‘ کا ترجمہ ہے۔ آپ کے اظہار کی آزادی وہاں تک ہے جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔ ہم میڈیا سے وابستہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم جو چاہے کہیں‘ ہماری جو مرضی ہو لکھیں‘ کوئی ہمیں نہ روکے۔ اظہار رائے کی آزادی ہمیں بہت عزیز ہے لیکن یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس کا استعمال کس حد تک کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ 5 سالہ دور جمہوریت میں آصف زرداری اور ان کی حکومت کو جتنی بار ملک دشمن اور غدار کہا گیا‘ حکومت کے خاتمے کی جتنی بار تاریخیں دی گئیں‘ کیا یہ اظہار رائے کی آزادی تھی؟ کیا یہ آزادی مجھے حق دیتی ہے کہ میں کسی کو بھی غدار قرار دے دوں؟ میرے اس حق کے استعمال سے کسی کی جان چلی جائے تو کیا یہ جائز ہے؟ کیا کسی کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ یہ کہہ دے کہ مجھے نواز شریف بطور وزیر اعظم پسند نہیں‘ اس لیے نریندر مودی کو پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ اظہار رائے کی آزادی کو ذمے داری کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو پھر بربادی ہوتی ہے۔ پہلے ادارے برباد ہوتے ہیں پھر ملک تباہ ہو جاتے ہیں۔ دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے ہمیں اپنے طرزعمل کا بھی ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ میڈیا کی آزادی ضروری ہے مگر دوسروں کی تکریم بھی لازم ہے۔ مادر پدر آزادی دراصل انارکی کا دوسرا نام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔