- امریکا نے اسرائیلیوں کو بغیر ویزا ملک میں داخلے کی اجازت دے دی
- پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے
- پی ٹی آئی کارکنوں کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کی طرح قانون کے کٹہرے میں لایا گیا، وزیراعظم
- فیصل آباد میں 9 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کا ملزم گرفتار
- سینٹرل کنٹریکٹ سے مطمئن اور خوش ہوں، بابراعظم
- نئی حلقہ بندیوں میں خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی 6 نشستیں کم ہوگئیں
- بیمار ماں کے ساتھ سرکاری اسپتال آنے والی لڑکی سے وارڈ بوائے کی مبینہ زیادتی
- کراچی کیلیے بجلی مزید 4 روپے 45 پیسے فی یونٹ مہنگی
- پسند کی شادی سے متعلق چیف جسٹس کے ریمارکس پر وضاحتی بیان جاری
- بلوچستان بڑی تباہی سے بچ گیا، گاڑی سے اسلحے کی بڑی کھیپ اور دھماکا خیز مواد برآمد
- نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے شہریوں کے مسائل جاننے کیلیے ای کچہری کا انعقاد
- ایشین گیمز مینز اسکواش ٹورنامنٹ میں پاکستان نے بھارت کو شکست دے دی
- ورلڈ کپ میں شرکت کیلئے قومی کرکٹ ٹیم بھارت پہنچ گئی
- مارکیٹ میں غیر معیاری آئی ڈراپس کی موجودگی کا انکشاف
- ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے متحد ہیں، آرمی چیف
- سرچ انجن ’گوگل‘ 25 برس کا ہوگیا
- بھیڑوں کا ریوڑ 272 کلو بھنگ چٹ کر گیا
- بیت المقدس کو ہی فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے، سعودی عرب
- شمالی کوریا نے سیاہ فام امریکی فوجی کو پناہ دینے کے بجائے ڈیپورٹ کردیا
- گذشتہ مالی سال ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کی مالیت میں 81 فیصد اضافہ ہوا،اسٹیٹ بینک
تعلیمی ماہرین کا ضلع کیماڑی میں سرکاری اسکولوں کی ’بدتر‘ صورتحال پر تشویش کا اظہار

—فائل فوٹو


کراچی: شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اور تعلیمی ماہرین نے ضلع کیماڑی میں سرکاری اسکولوں کی ’بدتر صورتحال‘ سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضلع کے 216 اسکولوں میں سے 15 بند ہیں اور 11 تدریسی اداروں کی عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ ضلع میں بچوں کی کُل تعداد کا صرف 10 فیصد (39 ہزار 57) داخل ہیں۔
پاکستان کوآلیشن فار ایجوکیشن (پی سی ای) اور ورکرز اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ آر او) نے تعلیم کے عالمی ہفتہ کے موقع پر ضلع کیماڑی میں تعلیم کی صورتحال کے لیے فوکس گروپ مباحثہ کیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بشمول مقامی نمائندے، شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد، صحافی، این جی اوز، مقامی کمیونٹی کے لوگ اور دیگر فریقین نے اجلاس میں شریک ہوئے۔
تعلیمی ماہرین نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ضلع میں صرف فعال اسکولوں میں سے 153 پرائمری اسکول ہیں، جس سے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی ظاہر ہوتی ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انفراسٹرکچر کی قلت نے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 الف کے مطابق پانچ سے 16 برس کی عمر کا ہر بچہ مفت و لازمی تعلیم کا حق دار ہے۔ تاہم ایس ای ایم آئی ایس کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ضلع کیماڑی میں سرکاری سطح پر تدریسی نظام کی صورت حال بہت زيادہ خراب ہے۔
فوکس گروپ کے شرکا کے مطابق تعلیمی اداروں میں دی جانے والی سہولتیں بھی معیاری نہیں جبکہ صرف 50 فیصد اسکولوں میں پینے کا پانی دستیاب ہے، 173 میں بیت الخلا ہیں، 156 میں بجلی ہے اور صرف 81 اسکولوں میں ہاتھ دھونے کی سہولیات ہیں۔
تعلیمی ماہرین کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے تدریسی اداروں میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث بچوں کی بڑی تعداد اسکول چھوڑ رہے ہیں جبکہ ناقص انتظامات اور اساتذہ کی قلیل تعداد کی وجہ سے تعلیم کی حالت اور زیادہ گھمبیر ہو گئی ہے۔
اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ سرکاری اسکولوں کی طالبات کی مشکلات خاص طور پر گھمبیر ہیں، بچیوں کے لیے مناسب واش رومز اور صفائی کے انتظامات کی کمی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ، افراد باہم معذوری کے لیے مخصوص سہولتوں جیسے کہ ریمپز کی عدم موجودگی نے ان کے لیےاسکول ناقابل رسائی بنا دیے ہیں۔
اجلاس کے شرکا کے مطابق زيادہ تر اسکولوں میں ایس ایم سیزغیرفعال ہیں، اور ان کے لیے مختص فنڈز کا اکثر غلط استعمال ہوتا ہے اور کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔
اس موقع پر اجلاس کے شرکا نے پرنسپلز، اساتذہ، کمیونٹی کے افراد اور والدین پر مشتمل اسکول مینجمنٹ کمیٹیاں (ایس ایم سیز) کی ضرورت پر زور دیا اور سفارشات پیش کیں کہ پاکستان کا تعلیمی بجٹ 2 فیصد سے بڑھا کر5 فیصد کیا جائے جبکہ ضلع کیماڑی کا تعلیم کا ترقیاتی بحٹ دو گنا کیا جائے۔
شرکا نے اپنی پیش کردہ تجویز میں کہا کہ مناسب انفراسٹرکچر بشمول چاردیواریوں کے ساتھ محفوظ عمارتیں، بجلی اور پانی، صاف اور الگ غسل خانے، مناسب فرنیچر، کلاس رومز کا سازوسامان، وہیل چئير کو رسائی دینے کے لیے ریمپ، فعال لائبریریاں، سائنسی لیبارٹریاں، خاکروبوں اور سیکیورٹی گارڈز سمیت مکمل اسٹاف جیسی سہولیات فراہم کی جائیں جبکہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی اصل تعداد معلوم کرنے اور اس مسئلے کے حل کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز اور مقامی حکومت کے نمائندوں سے مدد لی جائے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔