مودی اور ہٹلر

نصرت جاوید  بدھ 30 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہمارے بہت پڑھے لکھے لوگ بھی اکثر اس حقیقت کو نظرانداز کیے رہتے ہیں کہ پاکستان دُنیا سے کٹے ہوئے کسی ایک جزیرے میں واقع ملک کا نام نہیں۔ صدیوں تک یہ خطہ وسطیٰ ایشیاء اور خیبر و سوات کے راستوں سے آئے حملہ آوروں کی یلغاروں کا نشانہ بنا رہا۔ بالآخر سمندر پار سے برطانوی آ کر یہاں قابض ہو گئے۔ اپنے طویل قیام کے دوران انھوں نے یہاں بہت سی نئی روایات کی بنیاد ڈالی۔ جمہوری نظام کا تعارف بھی ان میں سے ایک تھا اور اسی نظام نے مسلمانوں کو اس خدشے میں مبتلا کیا کہ ’’اکثریت کی حکومت‘‘ کا تصور انھیں ہندوئوں کا غلام بنا دے گا۔

غلامی کے خوف نے دو قومی نظریے کی بنیاد ڈالی اور 14 اگست 1947 میں ہم ایک الگ اور نیا ملک بن گئے۔ بھارت سے جدا ہو جانے کے باوجود ہمارے درمیان ہمسائیگی کے رشتے نہ بن پائے۔ مخاصمت مسلسل جاری رہی۔ اسی مخاصمت کی وجہ سے 1948، 1965،1971 اور 1999میں چھوٹی بڑی چار باقاعدہ جنگیں بھی ہمارے درمیان ہوئیں۔ مئی 1998کے بعد البتہ فرض کر لیا گیا کہ چونکہ دونوں ملک ایٹمی قوت بن گئے ہیں اس لیے ان کے درمیان اب کسی باقاعدہ اور بڑی جنگ کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔

کارگل اور بھارتی پارلیمان پر ایک حملے کے بعد دونوں ملکوں کی افواج کا 2002 میں مسلسل ایک سال تک سرحدوں پر کسی بھی وقت ہو سکنے والی جنگ کی تیاری کے لیے موجودگی نے ایٹمی دھماکوں کے بعد مقبول ہونے والے ان مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا۔ مگر ہم اس کا پوری طرح ادراک ہی نہ کر پائے۔ 2002 کے بعد ہمارے ہاں ایک ’’میڈیا انقلاب‘‘ کا آغاز ہوا۔ اس ’’انقلاب‘‘ نے مختلف النوع موضوعات کو زیادہ بہتر انداز میں اپنے لوگوں تک پہنچانے کی جو گنجائش فراہم کی اسے بے دریغی کے ساتھ ہم نے ’’سیاپا فروشی‘‘ میں ضایع کر دیا۔ متوازی عدالتوں کے ذریعے حق و باطل کے معرکوں میں مصروف رہتے ہوئے بلکہ ہم نے اپنے لوگوں کو دُنیا سے کٹے ایک جزیرے میں ذہنی اور جذباتی طور پر قید کر دیا۔

میں نے چند روز پہلے اس کالم میں زور دیا تھا کہ بھارت میں ان دنوں ہونے والے انتخابات اس ملک کی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہیں مگر ہمارا مستعد اور چوکس بنا میڈیا اس پر کماحقہ توجہ نہیں دے رہا۔ ہمارے چند دانشور ہیں جو دفاعی اور خارجہ معاملات کے اپنے تئیں ارسطو بنے بیٹھے ہیں۔ ان کی اکثریت نریندر مودی کے بارے میں ’’فکر کی کوئی بات نہیں‘‘ والا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ انھیں یہ گمان ہے کہ مودی بھارت کا وزیر اعظم بن جانے کے بعد پاکستان کے بارے میں بالآخر واجپائی جیسا Pragmatic انداز اپنانے پر مجبور ہو جائے گا۔ میں نے انتہائی عاجزی سے اس سوچ سے اختلاف کا اظہار کیا تھا اور مجھے اپنی بات کے سچ ثابت ہو جانے کی بابت ہر گز کوئی تفاخرانہ خوشی محسوس نہیں ہو رہی۔

انتخابی گہما گہمی کے عروج کے اس موسم میں موصوف نے ایک گجراتی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیا اور بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بڑھک لگا دی کہ وہ اگر بھارت کا وزیر اعظم بن گیا تو دائود ابراہیم کا معاملہ اسی طرح نمٹائے گا جو امریکا نے اسامہ بن لادن کے بارے میں اختیار کیا۔ صرف ایک پاکستانی ہوتے ہوئے نہیں بلکہ پاک۔ بھارت امور کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے نریندر مودی کے دائود ابراہیم والے دعوے پر میرا فوری ردعمل تھا کہ جب نو من تیل ہو گا تو رادھا کا ناچ بھی دیکھ لیں گے۔ تاہم بھارتی میڈیا میں اس دعوے کے بعد چھڑی بحث کو کئی گھنٹے انٹرنیٹ کے ذریعے سمجھنے کے بعد میں خود کو یہ کہنے پر مجبور پا رہا ہوں کہ نریندر مودی بھارت کا وزیر اعظم بنا تو Power Projection کے Soft انداز کو چاہے کچھ عرصے کے لیے سہی ترک کر دے گا۔

اپنی بات بڑھانے سے پہلے مجھے یہ وضاحت کرنے دیں کہ بڑی قوت ہونے کے دعوے دار ممالک اپنی طاقت کو Hard یا Soft میں سے کسی ایک طریقے سے Project کرنے کا سوچا سمجھا فیصلہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے یار چین نے ڈینگ سیائوپنگ کی قیادت میں 1980کے آغاز کے ساتھ فیصلہ کر لیا کہ خود کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ہے۔ ’’امریکی سامراج‘‘ وغیرہ کی مذمت کے بجائے وہاں سے سرمایہ کاری لا کر صنعتوں کو فروغ دینا ہے اور اپنی پیداوار کے لیے زیادہ سے زیادہ صارفین دنیا کے ہر خطے میں ڈھونڈنا ہے۔ بھارت کے ساتھ چین کے شدید اختلافات ہیں۔ اس کے باوجود چین بھارت کے ساتھ اپنی تجارت کو کم از کم سالانہ 100 بلین ڈالر کی حد تک لے جانے کی لگن میں جتا ہوا ہے۔

9/11 کے بعد امریکی صدر بش نے اس سے بالکل مختلف رویہ اپنایا۔ اپنی قوت کو افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی صورت نمایاں کیا۔ Power Projection کے Hard ذرایع کے ذریعے اظہار کے جنون نے امریکی معیشت کا کباڑا نکال دیا۔ صدر اوباما بڑی یکسوئی سے اب ایسی پھنے خانیوں سے اجتناب برت رہا ہے۔ شام اور یوکرین جیسے اہم معاملات کے ضمن میں وہ اپنے ملک کے جنونی لوگوں کو بالکل بکری ہوتا ہوا دکھائی دیا مگر ان کے تمام تر طعنوں کے باوجود ابھی تک اشتعال میں نہیں آیا۔

1990 کی دہائی کے آغاز میں نرسمہا رائو نے من موہن سنگھ کے ذریعے نہرو کے متعارف کردہ ریاستی سوشلزم کو ترک کیا تو بھارتی پالیسی سازوں میں بھی Soft Power کا نظریہ مقبول ہوا۔ واجپائی نے اسی نظریے کو اپناتے ہوئے ایٹمی دھماکے کر دینے کے بعد پاکستان سے تعلقات کو ایک نئی سمت دینا چاہی مگر کارگل ہو گیا۔ بعد ازاں India Shining کا نعرہ بھی انتخابات میں اس کے کام نہ آ سکا۔ من موہن سنگھ نے ممبئی کے باوجود پاکستان سے تعلقات کو جنگی جنون کی نذر نہ کیا اور بھارتی معیشت کی بہتری پر توجہ دیتا رہا۔ مصیبت لیکن اب یہ ہو گئی ہے کہ اس ملک کی معیشت ایک خاص حد تک پہنچ کر جمود کا شکار ہو گئی ہے۔

بھارتی جنتا تک معاشی ترقی کے اثرات بھیTrickle Down نہیں ہوئے۔ ان کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ چند سیٹھ اور بڑے کاروباری ادارے سیاستدانوں کو خرید کر اجارہ دار بنتے چلے جا رہے ہیں۔ سیٹھوں کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکتے اس لیے ان دنوں عام آدمی پارٹی ہو یا نریندر مودی سارا غصہ بدعنوان سیاستدانوں پر نکالا جا رہا ہے۔ مودی کی ذات پر کرپشن کے کوئی ٹھوس الزامات نہیں مگر اس کی توجہ صرف Good Governance تک مرکوز نہیں۔ RSS کے اس سیوک کو ’’ہندوتوا‘‘ کی Hard Projection کا جنون بھی لاحق ہے۔ اس جنون کی بھارتی متوسط طبقے کے نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں میں شدید حمایت موجود ہے۔

اس حمایت کا آغاز اس وقت ہوا جب بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو بذاتِ خود قندھار جا کر اغواء شدہ بھارتی طیارے اور اس کے مسافروں کو بہت سارے مطالبات مان کر رہا کروانا پڑا۔ وہ یرغمالی لے کر بھارت لوٹا تو وہاں کے میڈیا پر سیاپا فروشوں نے اپنے ملک کو ایک ’’کمزور ریاست‘‘ ثابت ہونے کی دہائی مچا دی۔ ممبئی کے واقعات نے ان جذبات کو مزید جنونی بنا دیا۔ ان جذبات ہی کی وجہ سے من موہن سنگھ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے شدید تمنا کے باوجود کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکا۔

نریندر مودی ان جنونی جذبات سے مسلسل کھیلتا چلاجا رہا ہے۔ اسے پوری طرح سمجھنا ہو تو وقت نکال کر ایک دو کتابیں پڑھ لیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمن قوم کے دلوں میں کیسے جذبات مقبول ہوئے اور ہٹلر نے ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا۔ ہٹلر کے جرمنی کو سمجھتے ہوئے یہ بھی یاد  رکھیے گا کہ ایڈولف ہٹلر کی طرح نریندر مودی نے بھی کبھی تھیڑ کا کامیاب اداکار بننا چاہا تھا۔ ہٹلر بھی ایک غریب آدمی کا بیٹا تھا۔ اس پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہ تھا اور ازدواجی حوالے سے وہ بھی نریندر مودی کی طرح ساری زندگی ’’اکیلا‘‘ ہی رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔