پروفیسر صاحب نجانے وہ سب کیوں بھول گئے

نصرت جاوید  جمعرات 1 مئ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پروفیسر ابراہیم صاحب ویسے تو جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے امیر ہیں مگر اس کمیٹی کے ایک بڑے اہم، متحرک اور میڈیا کی توجہ ہتھیانے کے تمام گروں سے واقف رکن بھی،جو ان دنوں حکومت کے ساتھ اپنے ہی ملک میں دائمی امن لانے کے لیے مذاکرات میں مصروف ہے۔ دو کشتیوں کے یہ سوار جب ’’ہم‘‘ کا صیغہ استعمال کرتے ہیں تو میں کنفیوژ ہوجاتا ہوں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ’’ہم‘‘ کہتے ہوئے وہ صرف اپنی جماعت کی بات کررہے ہیں یا ان کی طرف سے پیغام رسانی جنہوں نے انھیں حکومت سے مذاکرات کے لیے منتخب کیا ہے۔ تیسری صورت میں ان کا استعمال کردہ ’’ہم‘‘ ان کی جماعت اور جن کی جانب سے وہ مذاکرات کر رہے ہیں کی مشترکہ سوچ کا اظہار بھی ہوسکتا ہے۔

پیر کی صبح بیشتر اخبارات کے صفحہ اوّل پر نمایاں انداز سے ان کا ایک بیان چھپا جس کے ذریعے پروفیسر ابراہیم کی طرف سے اعلان ہوا کہ اگر مشرف کو پاکستان سے باہر جانے دیا گیا تو ’’ہمارا ہاتھ وزیر اعظم کے گریبان پر ہوگا‘‘۔ وزیر اعظم کے گریبان کو کسی ممکنہ حملے سے بچانا میری ذمے داری نہیں۔ وہ جانیں اور پروفیسر ابراہیم صاحب کا ’’ہم‘‘۔ مگر یہ بات یاد دلانا بھی تو ضروری ہے کہ جنرل مشرف نے فروغ نسیم ایڈووکیٹ کے ذریعے ملک سے باہر جانے کی ایک باقاعدہ درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کر رکھی ہے۔ عدالت اس درخواست پر دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد جو فیصلہ بھی کرے نواز حکومت کو اسے تسلیم کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم کے گریبان کا اس معاملے سے کیا تعلق؟

پروفسر ابراہیم صاحب ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ مجھ سے کہیں بہتر طور پر جانتے ہوں گے کہ جنرل مشرف کے مداحین میں سے بہت سارے لوگ بڑی شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے چہیتے  Enlightened Moderateکو آئین شکنی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس ملک میں ’’لبرل‘‘ سوچ کو تحفظ فراہم کرنے کے جرم میں سختیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتا۔ مگر سیاست میں Perceptionکو حقیقت سے کہیں زیادہ موثر سمجھا جاتا ہے۔ پروفیسر ابراہیم کے بیان کے بعد تو اکثر لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ شاید نواز شریف صاحب اب دل سے جنرل مشرف کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتے ہیں مگر ’’ہم‘‘ کے خوف سے ایسا کرنہیں پا رہے۔ یہ تاثر پھیلتے پھیلتے بالآخر اس نتیجے پر لے جائے گا کہ پروفیسر ابراہیم کا ’’ہم‘‘ پاکستان کے معاشرے اور اس کے ہر ادارے پر خواہ وہ بڑی مشکلوں سے آزاد ہوئی عدلیہ ہی کیوں نہ ہو اپنی سوچ مسلط کرنا چاہتا ہے۔

ہوسکتا ہے پروفیسر ابراہیم نے ’’ہم‘‘ کا صیغہ صرف اپنی جماعت کے لیے استعمال کیا ہو۔ مگر ایسا کرتے ہوئے ان جیسے ’’صالح‘‘ سیاست دان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے تھا کہ ایک زمانے میں ان کی جماعت متحدہ مجلسِ عمل نامی ایک اتحاد میں شامل تھی۔ دین کے نام پر سیاست کرنے والی مختلف النوع جماعتیں اس اتحاد میں یکجا ہوئیں اور 2002ء کے انتخابات میں اس اتحاد نے اس وقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں حیران کن کامیابی حاصل کی۔ میں آج بھی وہ شام نہیں بھول پایا جب 2002ء کے انتخابات کے مکمل نتائج آجانے کے بعد میں ایک بڑے ملک کے قومی دن کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے شامیانے کے اندر داخل ہوا تو میری صورت دیکھتے ہی ان دنوں اسلام آباد میں مقیم امریکی سفیر نینسی پائول لپک کر میرے پاس آگئیں۔

1988ء میں وہ امریکی سفارت خانے کے پاکستان کے سیاسی امور پر نگاہ رکھنے والے شعبے کی نگران ہوا کرتی تھیں۔ اسی بدولت ان سے میری پرانی شناسائی تھی۔ نینسی پائول واضح طورپر بہت پریشان دِکھ رہی تھیں۔ انھیں یہ فکر لاحق تھی کہ صدر بش کے Tight Buddyیعنی جنرل مشرف انتخابات کروا کر مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ افغانستان کے پڑوسی دو صوبوں کی حکومتیں وہ ایم ایم اے کے ’’انتہاء پسندوں‘‘ کے حوالے کردیں تو واشنگٹن میں ان کی ’’اصل نیت‘‘ پر سوال اٹھائے جائیں گے۔ ایم ایم اے کو حکومتیں نہ دی گئی تو نئے انتخابات کروانا ہوں گے۔

ایمان داری کی بات ہے میں نے نینسی پائول کی فکر مندی کو کچھ طنزیہ فقروں کے ذریعے اور گہرا کردیا۔ ان فقروں کے ذریعے محترمہ کو صرف یاد دلاتا رہا کہ امریکا تو دنیا میں جمہوریت پھیلانے کا اپنے تئیں سب سے بڑا چیمپئن بنا بیٹھا ہے۔ اگر جنرل مشرف نے انتخابات کروادیے ہیں تو ان کے نتائج کو قبول بھی کرنا ہوگا۔ موصوفہ کو میرا طنزیہ رویہ پسند نہ آیا۔ مایوس ہوکر دوسرے مہمانوں کی طرف چلی گئیں۔

بعدازاں مجھے انتہائی بااعتماد سفارتی ذرایع سے یہ خبر ملی کہ اسلام آباد میں متعین دو اہم برطانوی سفارتی نمایندوں نے کئی گھنٹوں کی بحث کے بعد امریکا اور دیگر یورپی ممالک کے سفارت کاروں کو بالآخر سمجھادیا کہ ’’ایم ایم اے‘‘ کی جیت سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے لوگوں کو اقتدار ملا تو کافی Pragmaticہوجائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن بھی ایک کائیاں سیاستدان ہوتے ہوئے 2002ء کے انتخابات کے نتائج آجانے کے بعد اسلام آباد میں جم کر بیٹھ گئے۔ غیر ملکی صحافیوں کو انھوں نے مسلسل انٹرویو دیے اور برطانوی سفارت کاروں سے گہرا تعلق بھی برقرار رکھا۔ بالآخر بنوں کے درانی صاحب صوبائی وزیر اعلیٰ بن گئے اور بلوچستان کی صوبائی حکومت میں JUIکو اپنے سیاسی جثے سے بھی بڑا حصہ مل گیا۔ بات صرف صوبائی حکومتوں کے قیام تک ہی محدود نہ رہی۔

2002ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی واحد اکثریتی جماعت بن کر اُبھری تھی مگر اس کے اراکین میں سے Patriots نکل کر میر ظفر اللہ خان جمالی کو ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم بنوا دیا گیا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف بننے کا حق مخدوم امین فہیم کو حاصل تھا مگر یہ اعزاز مولانا فضل الرحمن کو نصیب ہوا اور اسی اعزاز کی بدولت پروفیسر ابراہیم صاحب کی جماعت سمیت متحدہ مجلسِ عمل نے ’’دیندار‘‘ اراکین پارلیمان کے ووٹوں کے ذریعے 12 اکتوبر1999ء کے فوجی اقدام کو آئینی تحفظ فراہم کیا۔ پیپلز پارٹی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے نمایندے پورا ایک سال ڈیسک بجاتے اور No-NOکرتے رہ گئے۔ جنرل مشرف کے حوالے سے اب نواز شریف کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کو تیار پروفیسر ابراہیم صاحب کو نجانے یہ سب کیوں بھول گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔