ذرائع ابلاغ کے لیے لمحہ فکریہ

مقتدا منصور  جمعرات 1 مئ 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میرا ارادہ تھا کہ 4 مئی1886ء کو شکاگو کی Haymarket کے باہر ہونے والے محنت کشوں کے قتلِ عام کے ردِ عمل میںعالمی سطح پر منائے جانے والے یوم مئی پر اظہارِ خیال کروں۔مگر 19اپریل کوایک سینئر صحافی پرہونے والے قاتلانہ حملے، اس کے بھائی کی جانب سے ایک خفیہ ایجنسی اور اس کے سربراہ کوموردِ الزام ٹہرائے جانے اور متعلقہ چینل کا اس خبر کو مسلسل کئی گھنٹے تک چلانے جیسے واقعات نے انتہائی نازک اور حساس صورتحال پیدا کردی۔ اس لیے وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ اس نئی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو صحافت اور صحافیوں کے لیے نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صحافی پر ہونے والا حملہ پس پشت چلاگیا ہے اور دیگر معاملات ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔اس معاملے نے ایک نئے تنازع کی شکل اختیار کرلی ہے اور پورے معاشرے میں دو بیانیےNarratives ابھرکرسامنے آئے ہیں ۔ایک طرف وہ نقطہ نظر ہے جو سمجھتا ہے کہ کوئی بھی ادارہ تنقید سے بالاتر نہیں ہے جب کہ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ میڈیا کو ایڈونچر ازم سے گریز کرتے ہوئے ہر صورت میں ضابطہ اخلاق ذرایع ابلاغ  پر عملدرآمد کرنا چاہیے ۔

نتیجتاً ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان تنائو کی موجودہ صورتحال نے صحافتی تحفظ(Media Safety)کے ساتھ آزادیِ اظہار کو بھی نئے خدشات لاحق ہوگئے ہیں ۔ لیکن حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ دو انتہائی سوچوں کے درمیان ایک درمیانی سوچ  نے بھی جگہ بنانا شروع کردی ہے۔ چنانچہ صحافیوں کا ایک بہت بڑا حلقہ جہاں ایک طرف متذکرہ چینل کے ایڈونچرازم کو صحافتی ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی سمجھتے ہوئے اس کی مذمت کر رہاہے، وہیں وہ سینئر صحافی پر قاتلانہ حملہ کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے آوازبھی اٹھا رہا ہے ۔

اس تناظرمیں حامد میر پر ہونے والا قاتلانہ حملہ پاکستان کے مختلف ریاستی اداروں کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن گیا ہے۔ جس نے ذرایع ابلاغ سمیت مختلف شراکت داروں کے لیے غور وفکر  کے نئے زاویے کھولے ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کا کوئی بھی ادارہ آئین سے بالاتر نہیں ہے ۔ مسائل اس لیے پیدا ہورہے ہیں،کیونکہ فوج ہو یا پارلیمان ، عدلیہ ہو یا ذرایع ابلاغ سبھی اپنی متعین حدود سے تجاوز کرتے رہے ہیں اور آج تک کر رہے ہیں۔

اگر شعوری طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے کہ ہمیں آئین کے متعین کردہ دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہے، تو شاید اس قسم کے تنائو، تصادم اور ٹکرائو کا ماحول پیدا نہ ہو۔ اس لیے صحافیوں اور صحافتی شعبہ جات سے وابستہ دیگر افراد کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ادارہ جاتی رویوں، رجحانات اور طریقہ کار کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیں اور اپنے کردارکا محاسبہ کرتے رہیں ۔ یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ 12 برسوں کے دوران ان سے کیا غلطیاں، کوتاہیاں اور کمزوریاں سرزد ہوئیں اور ان سے بچنے کے کیا ممکنہ راستے ہوسکتے ہیں؟

ذرایع ابلاغ کا اصل کام اپنے نام کی مناسبت سے اطلاعات و معلومات کی فراہمی ہے ۔ اس سلسلے میں کلیدی کردار شعبہ خبر کا ہوتا ہے ۔ جو عوام الناس کو گردو پیش میں رونماء ہونے والے واقعات، حادثات و سانحات سے باخبر رکھتا ہے ۔ یہ دو طریقوں سے خبر کا سراغ لگاتے اور اس کی تہہ تک پہنچتے ہیں ۔اول ، کسی واقعہ کی ابتدائی اطلاع دینا اوراس کا Follow-upکرنا۔ دوئم، واقعہ کی تہہ تک پہنچنے اور قارئین/ناظرین/سامعین تک صحیح معلومات کی فراہمی کے لیے تفتیشی عمل کا اختیار کیا جانا ہے۔

یہ عمل تفتیشی صحافت(Investigative Journalism)کہلاتا ہے۔ اس کے بعد تجزیہ نگاری کا مرحلہ آتا ہے ۔ اس عمل میں خبر کے مختلف پہلوئوں کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا جاتا ہے ۔ مگر کسی بھی مرحلہ پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا جاتا۔ بلکہ جو معلومات اور جائزے سامنے آتے ہیں، وہ عوام کے سامنے رکھ دیے جاتے ہیں ، تاکہ وہ خود اس واقعے کی نوعیت اور صحت کے بارے میں فیصلہ کرسکیں۔

اب دوسری طرف آئیے۔ اینکر انگریزی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی پانی کے جہازکا لنگر ہے ۔ یہ اصطلاح جدید دنیا میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھنے اور ٹاک شوز کی میزبانی کرنے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جس طرح لنگر(Anchor)جہاز کو کسی مخصوص جگہ  پر روکے رکھتا ہے، اسی طرح ٹاک شوز اور مذاکروں کی میزبانی کرنے والے افراد کوشش کرتے ہیں کہ مذاکرے کو موضوع سے ہٹنے نہ دیا جائے ۔ عالمی میڈیا بالخصوص مغربی دنیا کے میڈیا کا مطالعہ کرنے کے بعد چند چیزیں سامنے آتی ہیں۔

اول ، ان تمام ممالک میں خبریں پڑھنے والے (یعنی نیوز اینکرز) پختہ عمر کے وہ تجربہ کار صحافی ہوتے ہیں ، جنھیں رپورٹنگ اور ڈیسک پر کام کرنے کا وسیع تجربہ ہو ۔ وہاں تصور یہ ہے کہ ایک منجھا ہوا صحافی ہی خبرکی خبریت اور اہمیت سے آگاہ ہوتا ہے ۔ دوسرے خبر کی معتبریت کے لیے بھی پختہ کار ہونا ضروری ہے ۔ اسی طرح دنیا کے تمام بڑے چینلز پر ٹاک شوز اور مذاکروں میں میزبان (اینکر) اپنے سوالات، بدن بولی یا اندازِ تخاطب سے کبھی کسی جماعت کی طرف جھکائو کا خفیف سا گمان بھی نہیں ہونے دیتا۔

اس کے برعکس ہمارے یہاں دونوں شعبوں میں ان تصورات اور روایات کے برعکس عمل ہو رہا ہے ۔ یعنی ہمارے الیکٹرونک میڈیا کے شعبہ خبر میں نیوز اینکر کے لیے خبر کی اہمیت (News Value) کے بارے میں آگہی کے بجائے اس کا خوش شکل اور اسمارٹ ہونا ضروری ہوتا ہے۔یہی سبب ہے کہ بیشتر نیوز اینکرز کو نہ تو فیلڈ میں کام کرنے کا تجربہ ہے اور نہ ہی انھیں ڈیسک پر خبریں ترتیب دینے کے فن کے بارے میں آگہی ہے۔ یہی کچھ معاملہ ٹاک شوز کے میزبانوں (اینکروں) کا ہے۔

ان میں سے بیشتر تاریخ، سیاست اور عمرانیات کی باریک بینیوں سے قطعی نا آشنا ہیں ۔ جو چند لوگ صحافت سے اس جانب آئے ہیں ، وہ سیاست کے نشیب وفراز کے بارے میں توضرور آگہی رکھتے ہیں، لیکن مقبولیت کے گھمنڈ میں جج بننے کی خواہش انھیں شرکاء کے منہ میں اپنی بات ڈالنے پر مجبور کردیتی ہے جس کی وجہ سے مذاکرہ یا ٹاک شو کسی موضوع پر ایک سنجیدہ مباحثہ کو آگے بڑھانے کے بجائے محض تفریحی پروگرام بن جاتا ۔ اسی طرح خبروں کے دوران پس پردہ گانے چلانے کے فیشن نے خبروں کی خبریت اور ان کی معتبریت کو بری طرح متاثرکیا ہے ۔ لہٰذا الیکٹرونک میڈیا کے شعبہ خبر اور Current Affairsمیں خبریں اور مذاکرے ابلاغ عامہ کا ذریعہ بننے کے بجائے تماشا بن کر رہ گئے ہیں جس پر توجہ دے کر اس میں اصلاح لانے کی ضرورت ہے ۔

دوسری اہم بات یہ کہ خبروں اور جائزوں کے معیار کو جانچنے کے لیے عالمی سطح پر 6بنیادی اصول طے کیے گئے ہیں۔اول ، حسبِ قواعد(Fairness)، غیر جانبداری (Impartiality)۔ سوئم، درستی (Accuracy)۔ چہارم، توازن(Balance) ۔پنجم ، صیغہِ راز (Privacy)۔ششم ، کثرتیت(Pluralism)۔  پاکستان کے پرنٹ میڈیا میں ان اصولوں کی خاصی حد تک پاسداری کی جاتی ہے۔ لیکن الیکٹرونک میڈیا میں ان پر زیادہ توجہ نہیں دی جارہی۔ جس کی وجہ سے اکثروبیشتر مختلف نوعیت کی فاش غلطیاں سامنے آتی رہتی ہیں ، جس سے ذرایع ابلاغ کی غیر جانبداری متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر الیکٹرونک میڈیا چینلوں پر کوئی ایڈیٹوریل پالیسی طے نہیں ہے۔ جہاں ہے، وہاں صحیح طور پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ۔ تیسری بنیادی خامی یہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا میں پرنٹ میڈیا کی طرح خبر کو فلٹر کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے،جس کی وجہ سے اکثر بے بنیاد خبریں بھی نشر ہوجاتی ہیں۔

اس سلسلے میں چند اقدامات ضروری ہوگئے ہیں ۔ اول، CPNE،APNS،PFUJاور PBAسنجیدگی کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایک مشترک اور وسیع البنیاد ضابطہ اخلاق (Code of Conduct) تیار کرکے تمام میڈیا ہائوسز کو اس کا پابند بنائیں ۔ دوئم ، حکومت PEMRA کی تشکیل نو کرے اور پارلیمان کی منظوری سے ایک نیا بورڈ تشکیل دے تاکہ اس کی ساخت پر کسی کو اس پر اعتراض نہ ہو۔

سوئم ، PEMRA الیکٹرونک میڈیا کو ماورائے آئین جانے سے روکے اور کسی میڈیا ہائوس کے خلاف آنے والی شکایت کی غیر جانبداری کے ساتھ تحقیق کرے اور مناسب ایکشن لے ۔ چہارم، ذرایع ابلاغ  کے تمام شراکت داروں پر مشتمل ایک میڈیا کمیشن تشکیل دیا جائے، جو تمام میڈیاہائوسز کی مانیٹرنگ کرے اورخلاف ورزی کرنے پر سزا دے ۔ لہٰذا موجودہ صورتحال ذرایع ابلاغ کے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی اصلاح پر توجہ دیں اور روایتی طرزِعمل سے جان چھڑائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔