نئی بھارتی اشرافیہ کی نفسیات اور ترجیحات

نصرت جاوید  جمعـء 2 مئ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بھارت میں ان دنوں ہونے والے انتخابات کو میں اس ملک کا اہم ترین واقعہ قرار دینے پر مُصِّر ہوں۔ اسی لیے بہت دُکھ سے شکایت کرتا رہا کہ ہمارا مستعد اور چوکس بنا میڈیا ان پر کماحقہ توجہ نہیں دے رہا۔ یہ جان کر البتہ بڑی خوشی ہوئی کہ کم از کم اخبارات میں چھپے کالموں کو غور سے پڑھنے والے پاکستانیوں کی اکثریت ان انتخابات کے بارے میں اتنی لاتعلق نہیں جیسے میں تصورکیے بیٹھا تھا۔ نریندر مودی کے بارے میں میرا کالم چھپا تو بے تحاشہ ای میلوں کے اور ٹویٹر پیغامات کے ذریعے بھرپور فیڈ بیک ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ تعریفی کلمات سے کہیں زیادہ طعنے اس بات پر ملے کہ میں نریندر مودی کا ہٹلر سے تقابل کرتے ہوئے بھول گیا ہم 1930ء میں نہیں 2014ء میں رہ رہے ہیں۔

پھر بڑی حقارت سے مجھے یہ ’’اطلاع‘‘ بھی دی گئی کہ امریکا بہادر پاکستان اور بھارت میں اب کوئی جنگ نہیں ہونے دے گا۔ مودی کو بالآخر واجپائی کی طرح پاکستان کے ساتھ دیرپا امن کے قیام کے لیے کوئی نہ کوئی پیش قدمی کرنا پڑے گی۔ شاید اسی پیش قدمی کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے نریندر مودی کے چند نمایندے بڑی خاموشی سے چند روز پہلے اسلام آباد آئے تھے۔ انھوں نے نواز حکومت کے چند سرکردہ لوگوں سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور مستقبل کے امکانات کا بڑی سنجیدگی سے جائزہ لیا۔ چند قارئین نے مجھے یہ بات بھی یاد دلائی کہ مودی کے کچھ لوگوں نے سرینگر میں سخت گیر کہلائے جانے والے حریت پسند رہنما سید علی گیلانی سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔

’’فکر کی کوئی بات نہیں‘‘ والی تسلیاں دینے والوں کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ مجھے مودی کے چند قاصدوں کی اسلام آباد اور سرینگر میں خفیہ رکھی گئی ملاقاتوں کی کافی خبر ہے۔ پھر بھی دل ہے کہ مانتا نہیں۔ اس بات پر بضد ہوں کہ اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد کے چند مہینوں میں نریندر مودی پاکستان کے بارے میں Soft کے بجائے Hard رویّہ یا سفارت کاری کی زبان میں جسے Posturing کہا جاتا ہے اختیار کرے گا۔

کبھی کبھارایسی Posturing مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے بھی اختیار کی جاتی ہے۔ مگر بھارت اور پاکستان کے باہمی معاملات بڑے گھمبیر ہیں۔ ان دونوں کی ریاستی اشرافیہ کے درمیان شدید بدگمانیاں گہری سے گہری ہوتی چلی گئی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ Posturing کو محض Posturing جان کر نظر انداز کر دیا جائے۔ خاص طور پر اس وقت جب کہ دونوں ملکوں میں ٹی وی اسکرینوں پر سرخی پائوڈر لگائے اینکر حضرات خود کو خارجہ امور جیسے پیچیدہ معاملات کے بارے میں بھی عقلِ کُل اور حتمی فیصلہ ساز متصورکیے چیخ و پکار میں مصروف ہوں۔

پاکستان اور بھارت میں ٹی وی اسکرینوں پر حق و باطل کے معرکے برپا کرنے والے تو ابھی ’’نواں آیاں ایں سوہنیا‘‘ مارکہ ہیں۔ مگر امریکا میں یہ جنس 1960ء میں نمودار ہو گئی تھی۔ ان دنوں اس ملک کا صدر اوبامہ ہے جو انتہائی ’’بکری‘‘ بنا ہوا اپنے ملک کو عراق اور افغانستان جیسے ملکوں میں رچائی پھنے خانیوں سے بچائے ہوئے ہے۔ حال ہی میں اس نے مشرق بعید کے چند ممالک کا دورہ کیا۔ اس دورے کے اختتام پر اس نے منیلا میں ایک طویل پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

اس پریس کانفرنس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے بتایا ہے کہ امریکی صدر رپورٹروں کے سوالوں سے بہت اداس اور پھر جھلاکر بار بار کہتا رہا کہ اس کا اندازِ حکومت عراق اور افغانستان پر جنگیں مسلط کرنے والے صدر کی طرح ’’ڈرامائی‘‘ نہیں۔ مگر اسے اس کے بارے میں کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ وہ ایک ’’خاموش مزدور کی مانند‘‘ امریکا کی بہتری اور استحکام کی خاطر بنائی ترجیحات کے تعاقب میں مصروف ہے۔ ایک موقعہ پر اسی پریس کانفرنس میں تنگ آ کر اسے بالآخر یہ بھی کہنا پڑا کہ اس کی خارجہ پالیسی ناقدین کو شاید بہت Sexy نہ نظر آتی ہو۔ اس کے حمایتی ٹی وی ٹاک شوز میں اسے بھرپور دلائل سے درست بھی ثابت نہ کر سکتے ہوں ۔ مگر وہ اس کے بارے میں ہر گز شرمندہ اور معذرت خواہ نہیں کیونکہ اس کی پالیسی نے امریکا کو عراق اور افغانستان جیسی جنگوں سے پیدا ہونے والی تباہیوں سے بچا رکھا ہے۔

مودی اوبامہ جیسا ٹھنڈا اور بردبار نہیں۔ RSS کا سیوک ہے۔ زبان درازی سے اپنے ووٹروں کے دل گرماتا ہے۔ انتہائی غریب آدمی اور چھوٹی ذات والے کا بیٹا تھا۔ اسے جنون ہے کہ بھارتی عوام یوپی کی کشمیری پنڈت اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے جواہرلال نہرو اور اس کی Dynasty کو بھول جائیں۔ کسی طرح اعتبار کر لیں کہ ’’مرد کا بچہ‘‘ تو اب ان کا وزیر اعظم بنا ہے۔ آئیڈیل اس کا ولبھ بھائی پٹیل ہے جو آزادی کے فوری بعد کے سالوں میں نہرو کا وزیر داخلہ ہوا کرتا تھا اور گاندھی اور نہرو کی پاکستان کے بارے میں ’’بزدلانہ پالیسیوں‘‘ پر ہمیشہ چراغ پا۔ بھارت کا وزیر اعظم بن جانے کے بعد مودی پٹیل سے بھی ایک قدم آگے جاتا نظر آنا چاہے گا۔

میں نے جب ہٹلر سے اس کی چند مماثلتوں کا ذکر کیا تو پوری طرح جانتے ہوئے کہا کہ ہم 1930ء میں نہیں 2014ء  میں رہ رہے ہیں۔ مجھے یہ خدشہ بھی ہرگز لاحق نہیں کہ مودی کے وزیر اعظم بن جانے کے چند ہی عرصے بعد پاکستان اور بھارت کسی ’’حتمی جنگ‘‘ کی تیاریوں میں مصروف ہو جائیں گے۔ مجھے عرض صرف یہ کرنا ہے کہ مودی کا انتخاب نہ صرف بھارت بلکہ اس پورے خطے میں بڑی ہلچل مچائے گا۔ ہلچل ایک بار شروع ہو جائے تو End Game کے بارے میں اعتماد کے ساتھ پیش گوئیاں طوطوں کے ذریعے فال نکلوا کر مستقبل کا حال بتانے والے تو ضرور فرما سکتے ہیں مگر میرے جیسے مسکین صحافی نہیں۔

ہمارا کافی بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں خارجہ امور اور خاص طور پر پاک۔بھارت معاملات کے بارے میں اپنے تئیں سقراط بنے خواتین و حضرات صرف اس بھارت سے واقف ہیں جو ان علاقوں پر مشتمل ہیں جو کبھی متحدہ پنجاب یا 1947ء سے پہلے والے متحدہِ صوبجاتِ وادیٔ گنگ و جمن کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ 1980ء کی دہائی تک دلی پر حاوی اشرافیہ کا تعلق بھی ان ہی حصوں سے رہا ہے۔ مرار جی ڈیسائی اور دیوی گوڑا کے علاوہ سارے بھارتی وزیر اعظم ان ہی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

کمپیوٹر سے جڑے صنعتی، علمی اور اطلاعاتی انقلاب کے بعد اب بھارتی اشرافیہ کی اکثریت جنوبی ہند اور گجرات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس اشرافیہ کی سوچ شمالی بھارت یا جسے نام نہاد Cow Belt کہا جاتا ہے سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔یہ اشرافیہ پوری دنیا کو ایک Global Village میں سکڑا ہوا تو مانتی ہے مگر مسلمانوں کو اس Village میں ’’گڑبڑ پھیلانے والا سب سے بڑا عنصر‘‘۔ ان لوگوں کے دل و دماغ میں وہ گداز نہیں جو آپ کو جہلم سے بھارت گئے گلزار کی شاعری میں یک دم محسوس ہو جاتا ہے۔ اس نئی اشرافیہ کی نفسیات اور ترجیحات کو پوری طرح سمجھے بغیر ہم مودی کی سیاست کو ہرگز سمجھ نہیں پائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔