کوئٹہ، پانی کی شدید قلت

شاہ حسین ترین  جمعـء 2 مئ 2014
’’واسا‘‘ بدترین مالی بحران سے دوچار۔  فوٹو: نسیم جیمس

’’واسا‘‘ بدترین مالی بحران سے دوچار۔ فوٹو: نسیم جیمس

کوئٹہ میں ان دنو ں پانی کی شدید قلت ہے۔ یہ کوئٹہ کے باسیوں کا دیرینہ مسئلہ ہے۔

سرکاری اور نجی طور پر بے تحاشا ٹیوب ویلز لگائے جانے کے باعث کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے گرگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت کوئٹہ میں ٹیوب ویلز کے ذریعہ ایک ہزار فٹ نیچے سے پانی نکالا جا رہا ہے۔ کوئٹہ میں پانی کی تقسیم کا ذمہ دار محکمہ وا سا ہے، جو ان دنوں شدید مالی بحران سے دوچار ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے واسا کے لیے غیر ترقیاتی فنڈز کی بندش کے بعد بحران میں شدت آ گئی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وا سا کے گریڈ ایک سے 20 تک 1760 ملازمین کے لیے تن خواہوں کی رقم بھی موجود نہیں اور ان ملازمین کو ہر مہینے احتجاج اور ہڑتال کرنی پڑتی ہے۔ اب تو واسا ملازمین تن خواہوں کی بندش کے خلاف شہریوں کو پانی کی سپلائی بھی روک دیتے ہیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق واسا کا مالی بحران لاکھوں کی تعداد میں پانی کے غیر قانونی کنکشنز اور صارفین کی جا نب سے بلوں کی عدم ادا ئی کی وجہ سے ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں پانی کے غیر قانونی کنکشنز کی تعداد 4 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ شہر میں واسا کے70 ہزار صارفین نے قانونی طور پر تو کنکشنز حاصل کیے ہیں، مگر ان میں سے میں صرف 10 ہزار صارفین بلز ادا کرتے ہیں۔ وا سا کوئٹہ نے گھریلو صارفین کے لیے 125 روپے ماہوار فیس مقرر کی ہو ئی ہے۔ 4 لاکھ غیر قانونی صارفین کے ذمہ ماہوار 5 کروڑ رو پے کے واجبات بنتے ہیں، جس سے واسا محروم رہتا ہے۔ جب کہ 70 ہزار قانونی صارفین کے ذمہ بھی ماہوار 87 لاکھ  سے زاید کی رقم بنتی ہے، جس میں سے واسا کو صرف 12 لاکھ روپے ادا کیے جاتے ہیں جب کہ دوسری جانب واسا کے ماہانہ اخراجات کروڑوں میں ہیں۔

اس وقت محکمہ واسا پر بجلی کے بلوں کی مد میں کیسکو کے 10 کروڑ روپے سے زاید کے بقایاجات واجب الادا ہیں۔ محکمہ واسا پر کرپشن کے الزامات بھی عام ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق واسا کے ٹیوب ویلز سے افسران کی ملی بھگت سے جرمنی سے درآمد شدہ معیاری سمر سیبل نکال کر اس کی جگہ چائنا کے غیر معیاری سمر سیبل ڈالنے اور جرمن ساختہ سمر سیبل اور دوسری مشینری پرائیویٹ واٹر سپلائی سکیمز کے مالکان کو فروخت کرنے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں کھڑی ہوئی ناکارہ گاڑیوں کے نام پر روزانہ کی بنیاد پر فیول بھی محکمے سے جاری کروایا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں بلوچستان کے صوبائی وزیر برائے واسا اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نواب ایاز خان جوگیزئی نے گذشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پانی کی قلت سے متعلق ایک قرارداد پر بحث کے دوران کہا کہ واسا کو مہلک امراض لگ گئے ہیں، اور ان کے علاج کے لیے رقم درکار ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ واسا کے ٹیوب ویلز سے جرمن ساختہ سمر سیبل نکال کر اس کی جگہ چائنا ساختہ سمر سیبل ڈالنے کا جب انکشاف ہوا تو انہوں نے تمام ٹیوب ویلز کے سمر سیبل چیک کرنے کا فیصلہ کیا، ایسے میں محکمہ واسا کے افسران نے راتوں رات سمر سیبل نکالنے والی کرین خراب کر ڈالی۔ کوئٹہ میں مختلف ادوار میں ایم پی ایز کی جانب سے تعمیر کروائے گئے 500 ٹیوب ویلز میں سے 350 میں مٹی اور ریت بھری ہوئی ہے۔

کوئٹہ پروجیکٹ میں مانگی اور ہلک ڈیمز کی تعمیر کے منصوبے بنائے گئے تھے، جن کی تعمیر سے کوئٹہ میں پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔ مگر سابقہ حکومت اور بیورو کریسی نے اُلٹا کام کرکے ڈیمز تعمیر کرنے سے قبل 1500 کلو میٹر پائپ لائن کوئٹہ کے اندر بچھا کر پیسے ضائع کر دیے۔ اُنہوں نے کہا کہ واسا کے افسران نے کرپشن کی اور جب ہم نے ان پر ہاتھ ڈالا تو اب وہ بھاگنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ واسا کے معاملات کو درست کر نے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف واسا ایمپلائیز یونین کے مطابق وعدوں کے باوجود ملا زمین کی تن خواہوں کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کر نے کے لیے تاحال سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے، اس لیے واسا ملازمین دوبارہ اوزار چھوڑ ہڑتال کر کے شہر کو پانی کی سپلائی معطل کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت واسا میں کرپشن کی تحقیقات کرائے یونین ہر قسم کا تعاون کرے گی۔ یونین کے راہ نماؤں کا کہنا تھا کہ محکمہ کے سمر سیبل اور دوسری مشینری فروخت کر نے کی ہم خود نشان دہی کر تے آرہے ہیں۔

شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کوئٹہ میں پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کر نے کے فوری اور سنجیدہ اقدامات اٹھائے اور شہر میں پانی کی تقسیم کا طریقہ بھی درست کیا جائے تاکہ آنے والے دنوں میں پانی کی قلت پر قابو پایا جاسکے۔ ماہرین کے مطابق اگر کوئٹہ میں پانی کی قلت پر قابو پانے، زیر زمین پانی کی گرتی سطح کو مزید گرنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ بارش کے پانی کو ضایع ہو نے سے بچانے کے لیے ڈیمز تعمیر نہ کیے گئے تو مستقبل قریب میں لوگ کوئٹہ سے ہجرت کر نے پر مجبور ہوجائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔