پاک امریکا تعلقات سنگین حد تک خراب ہوچکے ہیں، جیمز جونز

آن لائن / ایکسپریس ڈیسک  جمعـء 2 مئ 2014
دونوں ممالک میں اعتمادکی کمی ہے،تعلقات کا مستقبل غیریقینی صورتحال سے دوچارہے،جیمزجونز فوٹو: فائل

دونوں ممالک میں اعتمادکی کمی ہے،تعلقات کا مستقبل غیریقینی صورتحال سے دوچارہے،جیمزجونز فوٹو: فائل

واشنگٹن: اوباما انتظامیہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز نے کہاہے کہ پاک امریکاتعلقات سنگین حد تک خراب ہوچکے ہیں ، افغان بحران کے حل کیلیے اسلام آباد کا کردار انتہائی اہم ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی کانگریس میں افغانستان کے بارے میں سماعت کے موقع پرسابق  قومی سلامتی کے مشیر جیمزجونزنے کہا کہ پاکستان اورامریکا کے درمیان باہمی  اعتماد کی کمی ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سنگین حدتک خراب ہوچکے ہیں،دونوں ممالک کے تعلقات کامستقبل اس وقت غیر  یقینی صورتحال سے دو چارہے ،دونوں ممالک مشترکہ تجارتی،اقتصادی ، سماجی اورسیکیورٹی مفادات رکھتے ہیں ، پاکستان افغانستان میں بحران کے حل کیلیے اہم کردار ادا کرسکتا ہے ، دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ، ڈیورنڈ لائن سمیت تمام متنازعہ ایشوز کو پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دینی چاہیے.

افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کو دہشتگردی اور انتہا پسندی کے مشترکہ چیلنجز کا سامناہے اور دونوں ممالک کو ان چیلنجزسے نمٹنے کیلیے مشترکہ اقدامات اور پیش رفت کرنی چاہیے ،ترکمانستان افغانستان پاکستان پائپ لائن پروجیکٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمیں اس پروجیکٹ کی تفصیلات کے بارے میں آگاہی چاہیے تاکہ کہاجاسکے کہ ہم اس پروجیکٹ میں کس طرح کی معاونت فراہم کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی خبررساں ادارے کے مطابق افغانستان اورپاکستان کیلیے امریکی خصوصی نمائندے جیمزڈوبنز نے کہاکہ بھارت مسئلہ کشمیرکے حل کیلیے کسی تیسرے فریق کی ثالثی مسلسل مسترد کررہاہے اور اس کامؤقف ہے کہ یہ ایسامسئلہ ہے جس کیلیے وہ کسی فریق کو درمیان میں ڈالے بغیربراہ راست دوطرفہ بات چیت سے حل کرنے کو ترجیح دے گا،یہی وجہ ہے کہ امریکااس مسئلے کے حل کیلیے تیسرا فریق بننے سے گریز کرے گا،ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلیے تمام ایشوز پر مذاکرات تجارت سمیت تمام شعبوں میں تعاون کے فروغ کے حامی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بھارت میں انتخابات کے بعدآنے والی حکومت کوبھی پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام کیلیے مذاکرات کوترجیح دینی چاہیے۔امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیاہے کہ پاکستان کے مدارس افغانستان میں حملوں کاسبب بن رہے ہیں جو ایک سنگین مسئلہ ہے۔افغانستان کے مستحکم مستقبل اورسیکیورٹی سے متعلق شائع ہونیوالی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹااور صوبہ بلوچستان میں موجود مدارس کی جانب سے افغانستان میں حملے کیے جارہے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی الزام عائد کیاگیاکہ پاکستان، افغانستان اور بھارت میں حملے کرنے والے ان انتہاپسندوں کیخلاف مناسب اقدامات نہیں کررہا،پاکستان افغانستان کیساتھ تعلقات میں گرمجوشی چاہتاہے مگر کابل اوراسلام آباد کے درمیان شکوک وشبہات کی فضا برقرار ہے۔ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے دہشتگردی کے حوالے اپنی سالانہ رپورٹ میں الزام عائد کیاکہ جن پاکستانی تنظیموں کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دے رکھاہے وہ پاکستان میں بے حد آسانی سے اپنے نام بدل کر پابندیوں سے بچ نکلتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں پر پابندیاں لگانے کیلیے پاکستان نے کارروائی توکی ہے لیکن بین الاقوامی قانون کے تحت دہشت گرد تنظیموں کے اثاثے ضبط کرنے کی مہم سست رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیاکہ حکومت پاکستان دہشت گردی کیخلاف کئی نئے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دہشت گردی اور دوسرے جرائم کیخلاف عدلیہ کی کارروائی انتہائی سست ہے۔رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے مقدمات کیلیے بنی عدالتوں میں گواہوں، وکلا،ججوں اور پولیس کو شدت پسندوں کی طرف سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جس کی وجہ سے عدالت کی رفتار سست ہے اورمبینہ دہشت گرد اکثر بری ہو جاتے ہیں ۔رپورٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو اب بھی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہ حاصل ہے اور ان کیخلاف پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے کوئی خاص فوجی یاقانونی کارروائی نہیں کی۔

پاکستانی فوج نے تحریکِ طالبان اور لشکر جھنگوی جیسے گروہوں کیخلاف مہم جاری رکھی ہوئی ہے لیکن لشکر طیبہ کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی،لشکر طیبہ پاکستان میں کھلے عام تربیتی کیمپ چلا رہی ہے اور جلوس نکال رہی ہے،لشکر طیبہ پاکستان میں تو پیسہ اکٹھاکر ہی رہی ہے لیکن اس کے علاوہ خلیج اورمشرقِ وسطیٰ کے ممالک اور یورپ سے بھی اسے مالی مدد مل رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں 2013 کے دوران1025 عام شہری اور 475 سیکیورٹی اہلکار دہشت گرد حملوں میں نشانہ بنے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا میں دہشت گردی کا چہرہ تبدیل ہو رہاہے کیونکہ القاعدہ اور اس سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اب زیادہ تشدد کی حمایت کرتی ہیں اور ساتھ ہی شام میں دہشت گردوں کی ایک نئی نسل سامنے آ رہی ہے،نئے جنگجو اب سینٹرل کمانڈ کی بھی نہیں سنتے اور کئی ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جن میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کے حکم کو بھی نظر انداز کیا گیاہے۔

این این آئی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیاکہ اگرچہ القاعدہ کمزور ہوئی ہے تاہم یہ اور اس سے وابستہ شاخیں اب بھی امریکااور اتحادیوں کیلیے شدید خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں،پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کی اعلیٰ کی قیادت نے نیٹ ورک کو دھڑوں میں بانٹنے کا عمل تیز کردیاہے،اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یمن، شام، عراق، شمال مغربی افریقہ اور صومالیہ میں یہ دھڑے زیادہ فعال و خودمختار اورزیادہ جارحانہ بن کر ابھرے ہیں، ایران دہشت گردی کا اہم سرپرست بنا ہوا ہے اوراسے ان مطالبات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کے جوہری عزائم پرامن مقاصد کیلیے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ دنیامیں دہشت گردی کے حوالے سے ہرسال رپورٹ کانگریس میں پیش کرتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔