’’منی برازیل‘‘ میں ورلڈ کپ کا منظر نامہ

نادر شاہ عادل  جمعـء 2 مئ 2014

فیفا ورلڈ کپ 2014عہد حاضر کے نامور سیاہ فام فٹ بالر ’’پیلے‘‘ کے ملک برازیل میں منعقد ہورہا ہے۔ 12جون سے ابتدائی مقابلے شروع ہونگے ۔ دنیا بھر کے براعظموں سے فٹبال کے چنیدہ ، باکمال اور بازیگر و جادوگر wizard فٹ بالر میدان میں ایک ایک کرکے اتریں گے ۔ وہ فٹبالر سال بھر اپنی قومی ٹیم سے جڑے رہنے کے باوجود یورپ،اٹلی، اسپین،لاطینی امریکا ،مشرق وسطی ٰاور ایشیا کے مختلف کلبوں کی طرف سے ان کے پریمئیر لیگ اور چیمپیئن شپ میں اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں ، ان کا کھیل ان کے ملک وقوم کے پرچم کی شناخت اور وقار سے منسلک ہوتا ہے۔

فیفا نے کھیل میں ایسا نظم و ضبط قائم کیا ہے جسے ہم اپنی قومی زندگی اور سیاست میں دیکھنے کو ترستے ہیں، ریفری کو اتنے وسیع اختیارات اور مقام و احترام دیا ہے کہ بالے ٹولی جیسا بد دماغ، باغی اور جھگڑالو سپر اسٹار بھی گرائونڈ میں اس کے یلو اورسرخ کارڈ سے ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔دنیا کے تمام شائقین فٹ بال کو 12 جون کا انتظار ہے ،لیکن اہل لیاری کے دل بجھے بجھے سے ہیں ۔پھر بھی خدا کا شکر ہے کہ لیاری کو امن کا تحفہ مل گیا ہے، مرنے کی اب کوئی دعا نہیں مانگتا بلکہ جینے کی تمنا کا گلشن آباد ہونے لگا ہے ۔ چنانچہ ’’منی برازیل‘‘میں بچے، نوجوان مرد و زن ، بوڑھے ورلڈ فٹ بال کپ کے میچز اس حسرت و محرومی کے ساتھ بڑی اسکرین پر دیکھیں گے کہ ان کھلاڑیوں میں بیشتر سیاہ فام اور ڈاڈا لوگ لیاری والوں کے ہم شکل تو ہوں گے مگر اپنا کوئی بلیک ڈائمنڈ ان کو نظر نہیں آئیگا۔

ادھر آپ ساری انٹرنیشنل ٹیموں کو دیکھ لیں ان میں کوئی ٹیم بغیر سیاہ فام فٹ بالر کے مکمل ہوتی نظر نہیں آئیگی ۔یورپ ، اسپین ،فرانس اٹلی کسے باشد ، سب کی کہکشاں ان سیاہ فام اسٹرائیکر اور ڈیفنڈرز سے منور ہے۔ لیکن کیا ظلم ہے کہ پاکستان کے منی برازیل لیاری کے سیاہ فام نوجوان گینگ وار کی تاریک راہوں میں بھی قتل ہوئے اور فٹ بال کے عالمی میدان میں پاکستان کا پرچم اٹھانے کی سہولت اور مراعات سے بھی انھیں محروم رکھا گیا ۔ ہونہار کھلاڑیوں کی پوری بلیک فورس کچل دی گئی۔ بظاہر سراسیمہ لیاری میں خوفناک سناٹے کا زور ٹوٹا ہے، پہلی بار شادی بیاہ کی تقریبات میں خوف و دہشت کی کوئی زنجیر دلہا دلہن اور ان کے اہل محلہ کے پائوں میں نظر نہیں آتی، حیرانی ہے کہ اب فائرنگ کا شور نہیں اٹھتا۔

کیا واقعی لیاری کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے ، جی ہاں ۔ تقریباً سارے جان ریمبو اور ٹرمینیٹر غائب ہوگئے ہیں، رینجرز اور پولیس کا گشت بڑھ گیا ہے ، بے دریغ ہلاکتوں اور بے نام بربادیوں کے بعد اب یوں محسوس ہونے لگا ہے شاید کہ بہار آئی ۔مگر کسی کو ابراہیم ڈاڈا اور ابراہیم لچک یاد نہیں آتے ، ایک اﷲ کو پیارا ہوگیا دوسرا نیم جاں اور گوشہ گمنامی میںہے۔ کیا غضب کے ڈانسر تھے، لاہور فلم انڈسٹری کے ڈانس ڈائریکٹر حمید چوہدری تو کم عمر لال محمد کو اس کے خوبصورت ڈانس کے باعث لاہور لے جانا چاہتے تھے تاکہ غربت کی دلدل سے نکلے ۔ شہنشاہ غزل مہدی حسن کو لیاری سے محبت تھی ، وہ میوزک اکیڈمی کی محفلوں میں شریک ہوکر نئے گلوکاروں کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔

صحافی سحر بلوچ کے مطابق استاد فتح محمد نظر کی یادوں کے حافظے میںلیاری میں کلاسیکی موسیقی کی ایک مکمل تاریخ موجود ہے۔ کامریڈ حسن مجتبیٰ کا یہ استدلال کہ لیاری اصل کراچی ہے ان کی تحقیق کا وہ استعارہ ہے جو امر جلیل کی عروس البلاد کراچی کی اصلیت کے سوال سے جڑا ہوا ہے ۔ لیاری سے کس نے محبت نہیں کی ، لوک گلوکار سائیں سلیمان شاہ اندرون سندھ سے سیدھا لیاری آئے اور 1965 میں اپنے فن سے کراچی والوں کے دل موہ لیے، سندھی موسیقار فیروز گل پی پی کی فطری ووٹر برادری سنگھارا، موندرہ ، سومرہ اور ہنگورہ کے علاقے سے نکلتے اور بلوچ اہل ذوق کے درمیان سے سب کو جھک کر سلام کرتے ہوئے گزرتے۔

اسی برادری کو ، جسے کاٹ کر لیاری سے اگر الگ کردیں تو لیاری کی تاریخ ادھوری رہ جائے گی ، بلوچوں سے لڑوا کر عیار و موقع پرست سیاسی شکاریوں نے گینگ وار کے انسانیت سوز نام پر برادر کشی کا وہ گھنائونا کھیل کھیلا کہ باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی ۔ اسی لیاری میں ایشیا کے سب سے نرالے ، انوکھے اور خوبصورت دھنوں کے خالق سیاہ فام بینجو نواز بلاول بیلجیئم نے ریڈیو پاکستان میں اپنا لوہا منوایا ۔ استاد ادرو ڈاڈا ہو بہو بلاول بلجیم کے ہم شکل تھا، اس نے لسبیلہ سے نقل مکانی کی ، لیاری آ بسا، پھر تقسیم سے قبل انڈیا میں استاد عاشق علی خان کے ہمراہ طبلے پر سنگت کی اور 70 ء کی دہائی میں لیاری کی ایک پر امن اور بے آشوب شب موسیقی میں ’’ ہمیں کوئی غم نہیں تھا غم عاشقی سے پہلے‘‘ کلاسیکل انداز میں سنا کر محفل لوٹ لی۔

اس وقت ادرو ڈاڈا کے سارے دانت جھڑ چکے تھے ، وہ ہڈیوں کا ڈھانچا تھے۔ کسے وہ مرد قلندر یاد ہے ، ریڈیو کے ارباب اختیار تو بلاول بیلجیئم اور ادرو کا باب ہمیشہ کیلیے بند کر بیٹھے ۔بلاول بینجو مغرب میں جنم لیتا تو اس کا بینجو کروڑوں ڈالر میں نیلام ہوتا ۔ہاں اب افق پر لیاری کی نوجوان نسل وڈیو انڈسٹری کو پروان چڑھاتے نظر آ رہی ہے، لیاری کی ڈاکومنٹریز انعامات سے نوازی جا رہی ہیں، شہر کے تخلیقی ذہن لیاری کے خرابے اور اس کے اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی ڈھونڈنے آرہے ہیں ۔

وومن ڈیولپمنٹ فائونڈیشن ، کراچی یوتھ اور عوامی آواز اخبار کے تحت گزشتہ دنوں امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا کانفرنس میں مقررین نے مشترکہ طور پر کہا کہ قیام امن کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں، کانفرنس میں سینئر صحافی جبار خٹک ،ڈاکٹر فوزیہ خان اور صبیحہ شاہ سمیت دیگر مقررین نے شرکائے تقریب کو آگاہ کیا کہ لیاری وہ علاقہ ہے جس نے جدید کراچی کو جنم دیا،اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ مختلف قوموں کا ایک گلدستہ ہے، یہاں رہنے والوں کی اکثریت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے، لیاری کے مکینوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔

ایک سازش کے تحت لیاری کو بدنام کرکے اس کا تشخص خراب کیا گیا۔ امن کانفرنس کاانعقاد اس اعتبار سے خوش آیند ہے کہ اس میں گینگ وار کے امکانی خاتمے کے پس منظر میں کئی سماجی معاشی ، نفسیاتی مسائل اور تضادات کا اعادہ کیا گیا اورصوبائی حکومت سے اپیل کی گئی کہ وہ لیاری میں تعمیر نو اور بحالی کے عظیم تر آزمائش میں پیش رفت کرے اور وہ کام جو ایک ’’راضی نامہ‘‘ کے طفیل جنگ بندی پر منتج ہوا ہے اس ادھورے مگر بے حد اہم ایجنڈے کی تکمیل میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے ۔

لیاری کو کئی زخم لگے اورظلمتوں کے تیر روح و جگر کے پاراترے ہیں ، ایک عشرے تک خاک و خون میں لتھڑی لیاری کو بدامنی کے سوداگروں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ، لب بستہ اور سہمے ہوئے گھرانے واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، خوں ریزی ، بدامنی،اور غیر انسانی صورتحال رفتہ رفتہ قصہ ماضی بنتی نظر آرہی ہے۔ اس ام البلادکو امن،انصاف ، خوش حالی اور معاشی آسودگی درکار ہے۔ جو قیامت اس علاقے پر گزری سو گزری مگر بقول فیض صاحب ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے ۔ یاد کیجیے یہ 1950 تا 2001 کا عرصہ حیات ہے۔

عہد حاضر کے میڈیا کودادل ، شیرو ، بیکل، نبی بخش عرف کالا ناگ بابو اقبال کے صرف تذکرے یاد ہیں،ان کے بارے میں کوئی ٹھوس تحقیق سامنے نہیں آئی، یہ اپنے وقت کے سلطانہ ڈاکواور رابن ہڈ تھے، دنیا بھر کے ڈرگ اسمگلروں اور جرائم پیشہ عناصر کی طرح یہ بھی کشتۂ جور و جفا تھے ۔ لیاری سے اسٹیبلشمنٹ اور کراچی ایڈمنسٹریشن کے انتظامی ، سیاسی ،سماجی اور بد تر معاشی سلوک نے اسے تنہا ہجوم Lonely Crowd بنا دیا۔

اربن کلچر اور سول سوسائٹی کا حصہ رہتے ہوئے بھی لیاری کے مظلوم بلیک فورس کی تخلیقی اہمیت اور قدرو قیمت کوکمرشل حیثیت کے قابل نہیں سمجھا گیا اور منی برازیل جیسی لیاری سے فٹ بال کا جنازہ اٹھ گیا۔ ہائے ہائے۔۔۔گھوڑا ڑے گھوڑا۔۔۔ سماجی جبر ، معاشی محرومی، بنیادی تعلیمی سہولتوں کے حوالے سے ایک مشہور امریکی ادیب و شاعرکا کہنا ہے کہ ناخواندگی کے خاتمے کی جدوجہد اتنی ہی اہم ہے جتنی امریکی تاریخ میں غلامی کا خاتمہ۔جارج آر ویل نے کیا فکر انگیز بات کی ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب معاشرے میں جہالتوں کے پروردہ لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جنگ امن ہے، آزادی غلامی اور جہالت و لاعلمی طاقت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔