یوم مزدور اور اجرت

ایم آئی خلیل  جمعـء 2 مئ 2014
   ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں سرکاری سطح پر یکم مئی یوم مزدور منانے کا آغاز 1973 سے کیا گیا۔ اس دن سے پورے ملک میں یکم مئی کی چھٹی ہوتی ہے۔ یکم مئی 1973 جب سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کیا اس کے ساتھ ہی اس روز ملک بھر کے چھوٹے بڑے سیکڑوں شہروں میں جلوس نکالے گئے۔ جلسے منعقد کیے گئے۔ وزرا مشیران اور پیپلزپارٹی کے رہنما اور عہدیداران اپنے علاقوں میں جلوس کی قیادت کرتے نظر آئے۔ جلوس کے اختتام پر دھوئیں دھار تقریریں کی گئیں۔

مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد اور حقوق دلانے کے لیے حکومت کی طرف سے مکمل حمایت کا یقین دلایا گیا مزدوروں کو یہ سبق ازبر کرا دیا گیا تھا کہ اب جلد ہی ان کے حقوق ادا کردیے جائیں گے۔ ان کی تنخواہیں اتنی کردی جائیں گی جس سے وہ اپنے کنبے کی باآسانی گزر بسر کرسکیں گے۔ ان کے بچوں کی تعلیم کی مکمل ذمے داری حکومت وقت پر ہے اور عنقریب حکومت اپنے فرائض تن دہی کے ساتھ انجام دینے والی ہے۔ بہرحال 1973 سے آج تک ہر سال مزدور اس یقین کے ساتھ جلسے جلوس نکالتے رہتے ہیں کہ اب ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن مزدوروں کے مسائل حل ہونے کے بجائے اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔

یکم مئی ایک تاریخی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یکم مئی 1886 کو شکاگو کے مزدوروں نے اپنے وقت کے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کے خلاف ایک زبردست مظاہرہ کیا۔ اوقات کار میں تخفیف اور اجرتوں کا مطالبہ کرنے والے مزدور جوکہ طلوع آفتاب سے لے کر سورج ڈھلے تک اپنا پسینہ بہایا کرتے تھے۔ لیکن اتنی قلیل مزدوری میسر آتی کہ سورج ڈھلنے کے بعد رات کے اندھیرے میں اتنی نان جویں بھی میسر نہ آتی کہ پیٹ کا کچھ حصہ بھر سکیں۔ تاکہ اگلے روز اس قابل ہوسکیں کہ چاک و چوبند ہوکر پھر سرمایہ داروں کے حکم کی تابع داری کرسکیں۔

1886 میں شکاگو کے مزدوروں نے اپنے حقوق کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کردیا۔ مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس نے بلاوجہ گولی چلادی تھی جس سے سیکڑوں افراد کی جانیں قربان ہوگئیں۔ ان ہی مظاہرین نے اپنے مقتولین سے کپڑا خون آلود کرلیا اور اسے جھنڈے کی شکل دے کر لہرا دیا۔ اور آج تک یہی سرخ رنگ مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، محنت کشوں، محنت کاروں کا نشان امتیاز قرار پایا۔ اور اگلے سال پہلی برسی کے روز سے ہی دنیا بھر کے ملکوں میں یہ دن یوم مئی مزدور۔ محنت کشوں کا عالمی دن کے نام سے منایا جاتا ہے۔ یکم مئی ہر سال پاکستان میں اور دنیا بھر میں محنت کشوں مزدوروں سے یک جہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔

1973 کا آئین مزدوروں محنت کشوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اس بات کی یاد دہانی یہ قانون کراتا ہے کہ محنت کشوں کو تمام تر سہولیات اور مراعات بہم پہنچانا چاہیے۔ انھیں کام کا ایسا ماحول مہیا کیا جانا چاہیے جہاں ان کے لیے خطرات نہ منڈلا رہے ہوں۔ جہاں کام کرکے وہ اپنی صحت کو داؤ پر نہ لگا رہے ہوں۔ جہاں کام کے دوران زخمی ہونے یا جان کا خطرہ نہ ہو۔ ملک میں اگرچہ محنت کشوں کے حوالے سے کئی محکمے اور ادارے کام کر رہے ہیں۔

لیکن تاحال مزدوروں کے حالات میں بہتری نہیں ہو رہی ہے۔ ملک میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے محنت کشوں کو کام کے بہتر حالات بھی میسر نہیں اور ان کے کام کے اوقات میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ان کی آمدن میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ مزدوروں اور محنت کشوں کی آمدنی میں اس وقت اضافہ ہوگا جب فیکٹریاں اور کارخانے اپنی بھرپور پیداواری گنجائش کے مطابق کام کر رہے ہوں گے۔ یہاں صورتحال ایسی ہے کہ لوڈشیڈنگ توانائی بحران کے باعث کارخانے اور فیکٹریاں محض چند گھنٹے پیداواری عمل جاری رکھ پاتے ہیں۔

کہیں گیس کا بحران موجود ہے کہ مزدور تو حاضر ہیں لیکن گیس کی عدم فراہمی کے باعث لیبر کام کرنے سے قاصر ہیں۔ یہاں پر حقوق کی ادائیگی ایک طرف مزدوروں کو سہولیات کی فراہمی ایک طرف مزدوروں کے لیے مراعات کا مہیا کیا جانا ایک طرف یہاں تو مزدوروں کے لیے کام کے مواقعے ہی میسر نہیں آرہے ہیں کہ وہ اپنے اوقات کو پیداواری عمل میں صرف کرکے اس کا معاوضہ حاصل کریں۔ لہٰذا یکم مئی کے موقعے پر حکومت کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کارخانوں فیکٹریوں کو اتنی بجلی گیس وغیرہ مہیا کردی جائے جس سے پیداواری عمل میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ نیز ملک کے تمام صنعتی اداروں میں قانون کے مطابق تمام تر سہولیات اور کام کرنے کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات کو نتائج خیز بنانے کی ضرورت ہے۔

اس وقت ملک کے اکثر صنعتی اداروں میں ٹھیکیداری سسٹم نافذ کیا جاچکا ہے۔ جس کے باعث ڈیلی ویجز پر مزدور کام پر رکھے جاتے ہیں۔ انھیں کم تنخواہ کے ساتھ دیگر مراعات اور سہولیات بھی میسر نہیں ہوتی ہیں۔ ایسے مزدوروں کو کھڑے کھڑے کام سے نکالنے کے اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسے مزدور چونکہ مستقل نہیں ہوتے لہٰذا قانونی چارہ جوئی سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی چائلڈ لیبر کا مسئلہ بھی سنگین نوعیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ حالانکہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ 16 سال تک کے عمر کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔ اگر کوئی بچہ 14 سال کی عمر میں میٹرک کر جاتا ہے تو ریاست کی ذمے داری ہونا چاہیے کہ اس کے لیے کالج کے تعلیمی اخراجات بھی اٹھائے بصورت دیگر عموماً 15 یا 16 سال کی عمر تک میٹرک کرلیا جاتا ہے، لہٰذا حکومت میٹرک تک تمام تعلیمی سہولیات فراہم کرے۔

بچوں کے حوالے سے عالمی قوانین کے مطابق 18 سال کی عمر کو پہنچنے والوں سے کام لیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں 5 سال کی عمر سے ہی بچہ کام کرتا ہوا نظر آئے گا۔ اس کے لیے جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ والدین غریب ہیں لہٰذا ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے بچے کو کام پر لگادیا جاتا ہے تاکہ وہ کچھ کما کر لاسکیں جس سے گھر کا خرچ چل سکے۔ اگر حکومت اپنی ذمے داریوں پر پوری طرح عمل کرے اور ان بچوں کو کام کی جگہ تعلیم پر لگایا جائے ان کے تعلیمی اخراجات حکومت پورے کرے تو غریب والدین کا یہ بہانہ کارگر نہ ہوسکے گا کہ بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بچوں سے کارخانوں اور فیکٹریوں میں ان شعبوں یا ایسے کام لیے جاتے ہیں جوکہ کسی حادثے کا سبب بن سکتا ہے جس کی وجہ سے زخمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے یا بچے کو کسی قسم کی بیماری لگنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔

وہ بالغ افراد جوکہ کوئی بھی ادارے میں محنت کا کام کرتے ہیں ان کے حقوق کی پاسبانی کے لیے 100 سے زائد قوانین موجود ہیں۔ لیکن عملاً کتنے قوانین پر عملدرآمد کیا جاتا ہے؟ مزدوروں کو ملازمت دیتے وقت عموماً کسی قسم کا جاب لیٹر فراہم نہیں کیا جاتا۔ تحریری طور پر کسی قسم کی شرائط اس کے حقوق اس کے لیے مراعات اور سہولیات سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ تاکہ وہ اپنے لیے کسی حق کا دعویٰ نہ کرسکے۔ اسی طرح سے مزدوروں اور چائلڈ لیبر سے جتنا کام لیا جاتا ہے اس کے مطابق پوری تنخواہ بھی نہیں ملتی۔

عموماً کئی جگہوں پر تنخواہوں کی ادائیگی بھی قسطوں میں کی جاتی ہے جس سے مزدور سسک سسک کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ محدود آمدنی والے ملازم طبقہ کے بھی بے شمار مسائل ہیں۔ مہنگائی میں چاہے کتنا ہی اضافہ کیوں نہ ہوجائے ان لوگوں کی تنخواہوں میں سالہا سال سے کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا۔ نجی اداروں دفتروں میں کام کرنے والے محنت کاروں کے حقوق کی طرف کسی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ سارا معاملہ سیٹھ کے رحم و کرم پر ہی ہوتا ہے۔ جنھیں اس بات پر قائل کرنا ناممکن ہوتا ہے کہ اب پہلے سے بھی زیادہ مہنگائی ہوگئی ہے۔ جہاں پہلے ہزار روپے خرچ ہوتے تھے وہاں پر اب 5 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔

سیٹھ صاحبان اپنی جگہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ملازم بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتے کیوں کہ انھیں معلوم ہے کہ یہاں سے نکلے تو دوسری جگہ ملازمت حاصل کرنے کے لیے نہ جانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑیں۔ لہٰذا کتنی ہی ہمت پیدا کرنے کے بعد سیٹھ صاحب سے فریاد کناں ہوتے ہیں کہ سیٹھ صاحب! میری تنخواہ میں اضافہ کریں۔ ورنہ !! سیٹھ بھی غصے سے پوچھتا ہے کہ ورنہ۔۔۔۔ورنہ کیا؟ ملازم بے چارہ لجاجت کے ساتھ گویا ہوتا ہے کہ ورنہ اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔