ٍکیوبا کا بند حقہ پانی کب کھلے گا؟

انوار فطرت  اتوار 4 مئ 2014
امریکا اپنے آمرانہ، سرمایہ دارانہ نظام کی برتری کو ثابت کرنے کے لیے نظریاتی جنگ لڑنے سے ہمیشہ گریز کرتا ہے فوٹو : فائل

امریکا اپنے آمرانہ، سرمایہ دارانہ نظام کی برتری کو ثابت کرنے کے لیے نظریاتی جنگ لڑنے سے ہمیشہ گریز کرتا ہے فوٹو : فائل

انکل سام بین الاقوامی سماج کا سرپنچ ہے، جس سے ناراض ہو جائے اس کا حقہ پانی بند کرا دیتا ہے اور کوئی ایسا نہیں جو اس کے فرمان سے سرِمو انحراف کرے، کوئی کرے تو اس کا بھی حقہ پانی بند۔

یہ عالمی سماجی مقاطعہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی اس کے حضور سیس نہیں نوا دیتا۔ کیوبا کے خلاف یہ فرمان 1960 کے اوائل میں اس وقت جاری ہوا تھا جب فیدل کاسترو نے سرتابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکل کے ٹھونسے ہوئے اقتصادی نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ فرمان آج بھی اپنے بھرپور جبروت کے ساتھ لاگو ہے اور غالباً اس وقت تک اس کے لاگو رہنے کا اندیشہ ہے جب تک کیوبا، کاسترو خاندان کی انگوٹھی کا نگینہ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ’’نافرمان‘‘ پھر بھی ڈٹا رہے، ایسا ہوا تو پنڈلی پر کٹوائے گا کیوں کہ انکل غصے میں اپنی جون بدلتے دیر نہیں کرتا۔

کیوبا پر پابندی کا عرصہ جدید تاریخ کا طویل ترین دورانیہ ہے حال آں کہ اب نہ اس کا مربی سوویت یونین باقی رہا اور نہ سرد جنگ لیکن کیا کیا جائے کہ اس بے سروسامانی کے عالم میں بھی وہاں کیوبا کی طرز کا کیمیون ازم جاری و ساری ہے۔ سو انکل کی چھاتی پر مونگ دلی جاتی رہے گی تو ہم سایہ کاہے کو سوتا رہے گا؟ وہ جو دور دراز کے چین کی طرف ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے آ رہے ہیں، کم بخت اس کا بھی مزا کرکرا کیے دیتا ہے۔

امریکا اپنے آمرانہ، سرمایہ دارانہ نظام کی برتری کو ثابت کرنے کے لیے نظریاتی جنگ لڑنے سے ہمیشہ گریز کرتا ہے کیوں کہ اس میں شکست ۔۔۔ لامحالہ شکست کا پہلو بہت واضح ہے۔ وہ اس کے لیے اپنا معروف ہتھیار ’’غربت‘‘ استعمال کرتا ہے۔ جہاں اس کا کسی سے پالا پڑ جاتا ہے، وہ وہاں غربت کا اسلحہ اور غربت کی روٹیاں بانٹنا شروع کر دیتا ہے اور یہ سب یوں دام ہم فرنگِ زمیں کی طرز پر کرتا ہے کہ شکار کو بہت تاخیر سے پتا چلتا ہے کہ وہ گرفتار ہو چکا ہے۔ پھر انکل سام پنچایت میں وہ فرمان جاری کرتا ہے جو اس کے سگے بھتیجوں اور چیلوں چانٹوں کے دل کو بہت عزیز ہے۔

کیمیونسٹ یا سوشلسٹ ملکوں کے خلاف جب وہ یہ ہتھیار کام یابی سے استعمال کر لیتا ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل ہو جاتے ہیں تو ساری سرمایہ دار دنیا کے ذرائع ابلاغ پھٹ پڑتے ہیں کہ ہم نہ کہتے تھے یہ ایک ناکام اور ناقابلِ عمل نظریہ ہے، حال آں کہ نظریاتی جنگ تو لڑی ہی نہیں گئی۔ یہ ذرائع ابلاغ ثبوت کے طور پر اپنے ہاں پناہ گزیں بھگوڑوں کو پیش کرتے ہیں یا پھر دانش فروشوں کے فرمودات پیش کرتے ہیں، جو انسان کش پابندیوں کو مزید سخت کرنے پر زور دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر مغربی فلوریڈا کی جامعہ کے پروفیسر الفریڈ کیوزان ایک بھگوڑے کیوبائی کے اس مطالبے کی شد و مد سے حمایت کرتے ہیں کہ کیوبا کو ’’راہ راست‘‘ پر لانے کے لیے امریکا کو ہر حربہ استعمال کرنا چاہیے (زور، ہر حربے، پر ہے)۔ ان کا کہنا ہے کہ کیوبا کے خلاف امریکی پابندیاں کچھ جنوں پریوں کی کہانی کی سی ہے۔ ہوانا کو کینیڈا اور یورپی ممالک سے بہت کچھ مل رہا ہے (حال آںکہ ابھی تک اس نے کیوبا کی سرزمین پر واقع امریکی اثاثے واگذار نہیں کیے) اس نے انکل کو یاد دلایا ہے کہ وینزوئلا، چین، سپین اور برازیل کے بعد کیوبا کا پانچواں سب سے بڑا تجارتی حصہ دار امریکا خود ہے، وہ کینیڈا اور میکسیکو کی نسبت واشنگٹن سے زیادہ مصنوعات حاصل کرتا ہے حال آں کہ پابندیاں بہ دستور لاگو ہیں۔

واضح رہے کہ یہ مصنوعات کیوبا نقد ادائی کرکے حاصل کرتا ہے لیکن جواباً امریکا، ہوانا سے کچھ بھی نہیں خریدتا۔ بدترین صورت یہ ہے کہ امریکیوں کو قانوناً کیوبا جانے سے باز رکھا جاتا ہے اور انہیں سختی سے اس امر کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ کیوبا کی بنی ہوئی کوئی چیز نہیں خریدیں گے البتہ صحافیوں کو استثنیٰ حاصل ہے، وہ بھی اس لیے کہ وہ کیوبا جائیں اور وہ مواد لائیں جو وہاں کی تضحیک کے لیے استعمال کیا جا سکے یا پھر چند ایک ٹریول ایجنٹس ہیں جو People to People ٹور کراتے ہیں، انہیں اس مقصد کے لیے خصوصی لائسنس جاری کیے گئے ہیں لیکن یہ ٹور اتنے منہگے ہوتے ہیں کہ عام امریکی کیوبا جانے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ تیسرے وہ لوگ کیوبا جاتے ہیں جو میکسیکو کے راستے غیر قانونی طور پر کیوبا میں داخل ہوتے ہیں تاہم واپسی پر اگر ان سے ہوانا کے سگار یا کیوبا کی رم (RUM) برآمد ہو جائے تو اس کا جرمانہ انہیں نانی یاد دلانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ کیوبا پر پابندیاں امریکا نے عاید نہیں کیں بل کہ خود فیدل کاسترو نے ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کا رویہ اپنایا تھا کیوں کہ اس نے اپنے تعلقات واشنگٹن سے یک بہ یک قطع کر لیے اور سوویت ماسکو سے استوار کر لیے تھے۔ سچ تو یہ ہی ہے لیکن پروفیسر صاحب گریز کرتے ہیں، یہ نکتہ اٹھانے سے، کہ جب انکل نے کیوبا کو روس سے ملتا جلتا نظام اپنانے پر تڑی پار ہونے کا حکم دے ہی دیا تھا تو وہ روس کا رخ نہ کرتا تو اور کیا کرتا۔ آخر کم زور کو کہیں سے تو سہارا درکار تھا، روس مناسب لگا اور اس نے سواگتم کہا تو اسی طرف رخ کر لیا اور پھر سوویت یونین نے مربی ہونے کا حق بھی تو ادا کیا۔

لیکن… اب کیا ہے، سوویت یونین تو نہیں رہا۔ کیوبا اب بھی کیوں سر نہیں جھکا رہا حال آں کہ وہاں پر شہری ایک دشوار زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ جان کر شاید قاری کو حیرت ہوکہ وہاں ملازم کی تنخواہ 20 ڈالر ماہانہ ہے البتہ راشن کے لیے انہیں ایک کارڈ جاری کیا جاتا ہے جس پر انہیں چاول، کیلے، روٹی ،انڈے، گھی اور ماہانہ دو بار مرغی کا گوشت ملتا ہے۔ اس سے قبل کپڑے دھونے اور نہانے کا صابن بھی ملا کرتا تھا۔ صحت کی سہولت ہر شہری کو مفت حاصل ہے۔ ایسا نہیں کہ فیدل کاسترو یا کسی اور حکومتی رکن کو علاج معالجے کے لیے بیرون ملک جانے کی سہولت حاصل ہو، اس وقت کاسترو زندگی کے آخری اور سخت لمحات سے دوچار ہے لیکن اس کا علاج بیرونِ ملک نہیں ہورہا بل کہ وہی مقامی معالج اسے وہی مقامی ادویات دے رہے ہیں جو عام شہری کو میسر ہیں، ہم جیسے ملکوں کی طرح نہیں کہ ٹخنہ اترا تو چڑھوانے کو دوڑے یورپ کے مہنگے ترین اسپتالوں کی طرف۔ کیوبا میں اینٹی بائیوٹک دوائیں کم از کم دست یاب ہیں اور وہاں ان کا استعمال بھی حتی المقدور کم کیا جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ایک بیمار کو بعض اوقات اپنی بیڈ شیٹ اسپتال میں خود لے کر جانا پڑتی ہے۔ صابن کی خاص طور پر قلت ہے۔ زرعی پیداوار بھی کم ہے حال آں کہ کیوبا کی مٹی بہت زرخیز ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کیوبا پر بوڑھوں کی حکم رانی ہے، یہ طعنہ جب روا ہوتا جب امریکا اور یورپ پر لڑکے حکم ران ہوتے۔ پھر کہتے ہیں کہ بوڑھے لوگ روایت پرست ہوتے ہیں، وہ تبدیلیوں اور نئے نظریات کو پسند نہیں کرتے بل کہ ان سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ ان کا اشارہ کمیون ازم اور سوشل ازم کی طرف ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کیوبا کے بوڑھے حکم ران 1960 کی دہائی سے چلے آ رہے طرز حکومت سے دست بردار ہونے سے ڈرتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مغربی طرز جمہوریت ایک قدیم تر روایت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے، جس میں یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ دو سو گدھوں کا مغز ملا کر ایک انسانی دماغ کے برابر کارکردگی حاصل کی جا سکتی ہے۔

کسی نے ان دانش فروشوں کے ذہن میں بٹھا دیا ہے کہ کمیون ازم یا سوشل ازم ایک جامد نظریہ ہے اور بلیک ہول کی طرح اپنی توانائی کو خود ہی کھاتا رہتا ہے لیکن نظریات کبھی جامد نہیں ہوتے، ان کے اندر لچک ہوتی ہے اور وہ وقت اور ماحول کے مطابق تبدیلیوں کو قبول کرتے رہتے ہیں البتہ ان کی بنیادی کیمسٹری بہ ہرحال قائم رہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ دانش ور میتھیو آرنلڈ کا بہت ہر دل عزیز قول ہے ’’کیوبا میں ایک دنیا مر چکی ہے اور دوسری پیدا ہونے کی جدوجہد میں ہے‘‘ اور اس کا ثبوت وہ اس سے لاتے ہیں کہ کیوبا نے میریئل پورٹ کو فری زون بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس علاقے میں اس نے حجاموں کی حد تک نجی سیلون بنانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ سیاحت کے شعبے میں بھی بعض تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں، ٹیکسی ڈرائیوروں کو، سیاحوں کی طرف دی جانے والی بخشیش بھی قبول کر لینے کی اجازت دی ہوئی ہے۔

بہ ہرحال کیوبا اور اس کے نظام کی تضحیک کی بنیاد اس کی غربت پر رکھی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان، بھارت، تو ایک طرف، کیا سعودی عرب جیسے ممالک میں بھی غربت موجود نہیں۔ اٹلی اور یونان میں روزانہ کی بنیادوں پر بے گھر ہو کر سڑکوں پر بسیرا کرنے والی بوڑھی عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کیا کمیون ازم اور سوشل ازم کی پیدا کردہ ہے، سپین میں بے روزگار نوجوانوں کے غول کے غول کیا کیوبا اور شمالی کوریا نے پیدا کیے ہیں، خود امریکا میں بڑھتی ہوئی غربت کا ذمہ دار کون ہے؟۔

سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریاں دنیا بھر کو متاثر کر رہی ہیں۔ دنیا بھر کی دولت پر صرف ایک فی صد کا قبضہ ہے، باقی دنیا دانے دانے کو ترس رہی ہے۔ افریقہ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں غربت کے ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ روح تک لرز جاتی ہے اور انسان کو اپنے انسان ہونے پر شرم آنے لگتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ ہی نام نہاد یورپی اور امریکی جمہوریت نہیں۔ شمالی کوریا اور کیوبا میں کم از کم اتنا تو ہے کہ بچوں کے فیڈر بھرے رہتے ہیں اور کوئی رات کو بھوکا نہیں سوتا اور اگر انکل سام ان ممالک پر عاید پابندیاں اٹھا دے تو وہاں زندگی مزید آسان ہو سکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنے سامنے کسی ایسی مثال کو پنپنے نہیں دیتا جس سے اس کا پول کھل جائے۔

یہ درست ہے کہ بدقسمتی سے ان ممالک میں اظہار رائے کی کھلی اجازت نہیں ہے جسے بہ جا طور پر حقوق انسانی کی پامالی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو ان کی زبان ملنی چاہیے، انہیں اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہہ سکیں لیکن مغربی اظہار آزادی کا تصور یہ ہے کہ کسی ملک کا باشندہ اپنے ملک کی بنیاد ہی اکھاڑنے پر تیار ہو جائے، حال آں کہ خود یورپ میں جو لوگ ’’ہولوکاسٹ‘‘ کی حقیقت سے آگاہ ہیں ان کو بولنے کی اجازت نہیں مل رہی جو بولتا ہے اس کی زبان کاٹ دی جاتی ہے، صہیونی جان تک لے لیتے ہیں۔

ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا معاشی ترقی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ چین میں آج بھی اس کی اجازت نہیں دی جا رہی لیکن چین کی معاشی ترقی نے انکل سام کی ٹانگوں کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔