- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
آئینہ کیوں نہ دوں؟
اسلام آباد میں کتاب کے قومی دن کے حوالے سے 24 اپریل کو دوسرا سیشن ’’بک ایمبیسڈر کانفرنس‘‘ کا تھا۔ جس کی صدارت جناب انتظار حسین فرما رہے تھے۔ بچوں اور نوجوان نسل کو مطالعے کی طرف راغب کرنے کی تجاویز کے دوران صدر محترم نے اچانک مسکرا کر کہا ’’ارے بھائی! وہ ایک مولوی اسمٰعیل میرٹھی بھی تو تھے۔ جنھوں نے ایک نظم لکھی تھی:
ایک لڑکی بگھارتی تھی دال
دال کرتی تھی عرض یوں احوال
توبھئی! انھیں بھی تو یاد کرو کہ لڑکیاں اب دال پکانا اور دال بگھارنا بھول گئی ہیں۔ بات تو ان کی سو فیصد درست بھی تھی۔ اور اپنے اندر ایک لطیف بلاغت بھی رکھتی تھی کہ آج طلاقوں کی بڑھتی ہوئی تشویشناک صورتحال کی ایک بڑی وجہ گھریلو کاموں سے عدم واقفیت اور باورچی خانے کو ممنوعہ علاقہ سمجھنا بھی ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر جب ہم سب باہر آئے تو کئی مہمان خواتین جو اپنے بچوں کے ہمراہ میلہ دیکھنے آئی تھیں، ہمیں روک کر باتیں کرنے لگیں۔ یہ خواتین پنڈی اور اسلام آباد کی رہائشی تھیں۔ باتیں ختم کر کے جوں ہی ہم آگے بڑھے تو ان ہی خواتین میں سے ایک نے ہمیں آواز دے کر روکا اور قریب آ کر بولیں ’’چند منٹ آپ سے اکیلے میں بات کر سکتی ہوں، اگر آپ کے پاس وقت ہو تو‘‘۔ جی ہاں ضرور۔ میں نے کہا اور پھر انھیں ساتھ لے کر ہم ایک کمرے میں بیٹھ گئے۔ ’’جی فرمایے‘‘ ہم نے کہا۔ تب وہ خاصی ہچکچاہٹ کے بعد بولیں۔ آپ نے اپنے کالموں میں جو آپ نے لڑکیوں کے حوالے سے لکھے ہیں۔
وہ سب میں نے پڑھے ہیں۔ آپ نے گھریلو کاموں کی تربیت، خاندانی مراسم، شادی کے بعد لڑکی کی ذمے داریاں خصوصاً سسرال والوں سے ہتک آمیز رویہ اور شوہر کو اس کے والدین سے بدظن کرنے والے تمام غلط رویوں کا ذمے دار لڑکی کی ماں کو ٹھہرایا ہے‘‘۔ ’’جی ہاں! بالکل ایسا ہی ہے۔ کیونکہ بیٹی ماں کا عکس ہوتی ہے۔ جو زیادتیاں وہ اپنی ساس اور سسر سے کرتی ہیں، اس کی پوری ٹریننگ لڑکی کی ماں رشتہ طے ہوتے ہی شروع کر دیتی ہے۔ خاص کر وہ لڑکیاں اس مشن میں زیادہ کامیاب رہتی ہیں، جنھوں نے اپنے شوہر کے کان بھر کر اسے والدین سے جدا کیا۔ یہ سب لڑکی کے ماں، باپ اور بہن بھائی سب مل کر ایک غول بیابانی کی طرح اس معصوم اکلوتے بیٹے کو گھیر لیتے ہیں۔ جسے اپنی ماں کا نام لینے کی بھی اجازت نہیں‘‘۔
’’بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ لیکن یہ سو فیصد سچ نہیں ہے۔ وہی میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں۔ اور یہ بھی کہ لڑکیوں کی شادیاں نہ ہونے کی وجہ صرف والدین کا بلند معیار نہیں بلکہ وجہ کچھ اور بھی ہے‘‘۔ انھوں نے شائستگی سے کہا۔
’’تو پھر بتائیے۔ پورا سچ کیا ہے؟‘‘
وہ یوں گویا ہوئیں۔ میں نے پولیٹیکل سائنس میں ایم۔ اے کیا ہے۔ شادی سے پہلے میری والدہ نے مجھے گھریلو امور میں بھی طاق کیا تھا کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کا دارومدار سگھڑاپے، خوش اخلاقی اور محبت میں پوشیدہ ہے۔ میری ساس، نند اور سسر سب تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ میں نے کبھی اپنی ساس کا دل نہیں دکھایا۔ میرے شوہر دفتر سے گھر آ کر پہلے والدین کو سلام کرتے تھے اور پھر واش روم جاتے تھے۔ میری دو پھوپھیاں اور خالائیں اکثر مجھ سے کہتیں کہ میں اپنے شوہر کو الگ رہنے کے لیے مجبور کروں۔ اکثر میرے والدین بھی یہ راہ دکھاتے۔ بعض سہیلیاں بھی یہی ترغیب دیتیں۔ کبھی کبھی میں سوچتی بھی کہ خودمختار زندگی کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ جب کہ میری ساس اور سسر کسی بھی معاملے میں رکاوٹ نہیں تھے۔ ایک دن میں نے جب اپنی شادی کی دوسری سالگرہ پہ شوہر سے الگ گھر کی فرمائش کی تو ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ اس وقت تو خاموش ہو گئے۔
مہمانوں کے جانے کے بعد وہ ہمارے ایک سالہ بیٹے عمر کو لے کر کمرے میں آئے اور بولے۔ یہ بتاؤ اگر ہمارا بیٹا کسی موقعے پہ ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلا جائے تو کیا تم اس کی جدائی سہہ سکو گی؟ میں نے کہا۔ ہر گز ایسی باتیں نہ کیجیے۔ میں اپنے بیٹے کے بغیر مر جاؤں گی‘‘۔ ’’تو کیا میری ماں اور بابا میرے بغیر زندہ رہ پائیں گے؟‘‘ انھوں نے غصے اور افسردگی سے عمر کو میری گود میں دیتے ہوئے کہا۔ اور اٹھ کر کمرے سے باہر جانے لگے۔ لیکن جاتے جاتے اتنا کہہ گئے۔ ’’آیندہ ایسی بات منہ سے بھی نہ نکالنا۔ میں جیتے جی ماں باپ کو نہیں چھوڑ سکتا۔ جس ماں کی بدولت آج ایک اعلیٰ افسر ہوں۔ جو تمہیں صرف پیار کرتی ہے۔ تم اپنے میکے والوں اور سہیلیوں کے کہنے میں آ کر اگر الگ گھر میں رہنا چاہتی ہو۔ تو میرے اور تمہارے راستے جدا ہیں۔ میں تمہیں الگ گھر لے دوں گا جو یقینا تمہاری ماں کی مرضی سے لیا جائے گا۔ لیکن میں اپنے والدین کے ساتھ ہی رہوں گا۔ فیصلہ تم پر منحصر ہے‘‘۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا۔
مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ میں نے اپنی ساس کی جگہ خود کو دیکھا۔ اور اپنے بیٹے کی شکل دیکھی۔ تو پھر ایک فیصلہ کیا کہ میکے جانا کم کر دیا۔ اور انھیں سختی سے منع کر دیا کہ وہ لوگ میرے گھریلو معاملات میں دخل نہ دیں۔ آج میں ماشا اللہ تین بچوں کی ماں ہوں، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ یہ ہے وہ مکمل سچ کہ صرف بہو اور اس کے میکے والے ہی بیٹے کو والدین سے جدا کرنے کے ذمے دار نہیں ہیں بلکہ لڑکا خود بھی ہے۔ اگر ہر لڑکا شادی کے بعد بجائے ’’غلام‘‘ بننے کے یہ بات بیوی کے دماغ میں اچھی طرح بٹھا دے کہ وہ والدین کے خلاف کوئی بات نہ سنے گا۔
نہ ہی بیوی الگ گھر کا مطالبہ بلاجواز کرے گی۔ تو کسی لڑکی کی مجال نہیں کہ شوہر کو والدین کے خلاف کر سکے۔ چھوٹی موٹی اختلافی باتیں ہر گھر میں ہوتی ہیں۔ جنھیں باہمی صلاح مشورے سے نمٹایا جا سکتا ہے۔ لیکن جو لڑکے بیوی کی شکل دیکھتے ہی والدین خصوصاً ماں کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ اور دوسرا مکمل سچ۔ وہ بھی کہہ ڈالیے۔ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
’’دوسرا سچ یہ ہے کہ اب لڑکیاں بہت ماڈرن اور خودمختار اور ہٹ دھرم ہو چکی ہیں۔ انتظار حسین صاحب کو تو صرف دال نہ پکانے کا گلہ ہے۔ یہاں تو وہ چائے تک بنانے کی روادار نہیں۔ جب کہ میں نے بیٹیوں کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن بڑی بیٹی ہر رشتے کو ٹھکرا دیتی ہے۔ ہر وقت انٹرنیٹ، موبائل فون اور نہ جانے کیا الا بلا۔ اچھے سے اچھے رشتے میں کوئی نہ کوئی خامی نکال دیتی ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کم از کم MBA۔ کسی بڑے عہدے پر فائز، ذاتی گھر، گاڑی اور مال دار اسامی ہونے کے ساتھ ساتھ کینیڈا یا برطانیہ کی شہریت کا حامل۔ میں نے اسے بہت سمجھایا۔ اور بتایا کہ جب میری شادی ہوئی تھی تو اس کے ابا ایک سرکاری محکمے میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ بعد میں ترقیاں پاتے گئے۔
میرے والدین نے ان کا انتخاب ان کے اعلیٰ خاندان شرافت اور ذہانت کی بنا پر کیا تھا۔ تو وہ کہتی ہے۔ آپ کی سوچ آؤٹ آف ڈیٹ ہے۔ تیس سال کی ہو گئی ہے۔ لیکن شادی کے لیے ہاں نہیں کرتی۔ اس کی دیکھا دیکھی چھوٹی نے بھی پر پرزے نکال لیے ہیں۔ وہ تو بڑی ڈھٹائی سے کہتی ہے کہ۔ اماں آپ فکر نہ کریں، مجھے جب اپنے مطلب کا کوئی ملے گا تو بتا دوں گی۔ اب بتایے کہ والدین کہاں تک قصور وار ہیں اس تمام صورتحال کے؟‘‘
چار بج چکے تھے۔ اختتامی تقریب کے لیے سب آڈیٹوریم کی طرف جا رہے تھے میں نے بھی ان سے اجازت لی۔ انھوں نے مجھے اپنے فون نمبر دیے اور میرا موبائل نمبر بھی لیا تا کہ بعد میں مزید تفصیلی بات ہو سکے۔ بہرحال میں شکر گزار ہوں ان خاتون کی جنھوں نے مجھ پر بھروسہ کر کے کئی مسائل سے آگاہ کیا۔ پورا سچ یہی ہے کہ والدین کو تنہا اور لاوارث چھوڑنے کا ذمے دار بیٹا بھی ہے۔ کہ اس نے بیوی کی ہرزہ سرائی ماں کے بارے میں سن کیسے لی؟
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔