چھوٹا سا تجربہ

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 4 مئ 2014

عظیم صوفی شاعر بھگت کبیر کہتا ہے ۔

ماٹی کہے کمہار سے تو کیا روندے موئے

ایک دن ایسا آئے گا میں روندوں گی توئے

آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کرکے دیکھیے کہ پاکستان کے کسی بھی بڑے سیاست دان ، بیورو کریٹس ،  بزنس مین یا بڑے جاگیردار کے پر تعیش ڈرائنگ روم یا آفس میں بیٹھ کر ان سے یہ سوال پوچھیے کہ محترم آپ کی ساری عیاشیاں ، سارے مز ے ، سارے عیش وآرام سارے عہدے عوام کے دم ہی سے قائم ہیں لیکن آپ تو انہیں ہی مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگیاں جہنم سے بھی بدتر بنانے میں مصروف ہیں ۔ان کے مسائل توحل کرنا دور کی بات ہے آپ ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں پھر آپ کو ایک حیرت انگیز جواب سننے کو ملے گا کہ چھوڑو یار کن لوگوں کی بات کرتے ہو ان کی حیثیت کیڑے مکوڑے سے زیادہ کیا ہے۔

ہم اپنا قیمتی وقت ان کے بارے میں بات کرکے کیوں ضایع کریں جب بھی میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں کراہت آنے لگتی ہے، یہ گندے میلے کچیلے فقیر حقیر بیمار لوگ جو قریب سے بھی گذر جائیں تو ان کی بد بو ختم ہونے میں گھنٹوں لگتے ہیں۔ ہاتھ ملالیں تو ان کے جراثیم ہم پر حملہ کردیتے ہیں اگر ہم نے ان لوگوں کے مسئلے حل کر دیے تو پھر وہ ہمارے آگے پیچھے کیوں گھومیں گے وہ ہمارے آفسوں کے دھکے کیوں کھائیں گے وہ ہمیں ووٹ کیوں دیں گے وہ ہمارے سامنے کیوں گڑگڑائیں گے اور التجا کریں گے۔ یہ جو عوام ہیں دراصل اول درجے کے احسان فراموش ہیں، یہ پیدا ہی ذلیل وخوار ہونے اور محنت و مشقت اور ہماری جی حضوری و خدمت کے لیے ہیں ۔

جب وہ صاحب عوام کو برا بھلا کہنا ختم کرچکیں تو آپ فوراً ان سے دوسرا سوال کرلیجیے کہ جناب اعلیٰ اگر بظاہرکمزور،منقسم، لاغر نظر آنے والے یہ عوام آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو؟ آپ کا سوال ختم ہونے سے پہلے ہی وہ حضرت غصے سے لال پیلے ہوچکے ہونگے اور آپ کو قہر بھری آنکھوں سے گھورتے ہوئے جواب میں کہیں گے۔ کیا واہیات سوال کرتے ہو جو لوگ 66 سالوں سے ہمارے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور اس کے باوجود 66سالوں سے بت بنے ہوئے ہوں، بے حس بنے ہوں، یہ فقیر حقیر کیڑے مکوڑے ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی نہ تو ہمت رکھتے ہیں اور نہ ہی سکت ۔ ہم نے ان سب کی اس طرح سے گردن دبوچ رکھی ہے کہ یہ ٹس سے مس نہیں ہوسکتے اٹھ کھڑے ہونا تو دور کی بات ہے، یہ خواب میں بھی ہمارے خلاف بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔

آپ تو اچھے خاصے عقل مند نظر آتے ہیں احمقوں جیسے سوالات کرکے میرا انتہائی قیمتی وقت کیوں ضایع کر رہے ہیں اورآخر میں آپ سے اتنا فرمائیں گے کہ اگر کوئی فائد ے کی بات ہو تو کریں ورنہ معاف کیجیے گا مجھے ایک بہت ہی ضروری میٹنگ میں جانا ہے ۔ دراصل یہ ہی وہ سوچ ،رویہ اور ذہنیت ہے جس کی وجہ سے آج تک پاکستان کے عوام ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، پاکستان کے عوام کو ان کے نصیب یا قسمت نے نہیں مارا بلکہ اسی سوچ اور ذہنیت نے مارا ہے ۔ یہ زمینی خدا پاکستان اور عوام کو اپنی جاگیر سمجھے بیٹھے ہیں اور اپنے علاوہ کسی دوسر ے کو انسان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

عزرائیل یا ابلیس بہت عبادت گذار تھا، کہتے ہیں کہ کائنات کا کوئی ایسا چپہ نہیں تھا جہاں اس نے سجدہ نہ کیا ہو اسی عبادت گذاری کی وجہ سے وہ فرشتوں کے ساتھ کام کرتا تھا لیکن اس نے آدم کی قدر نہ کی اس کی طرف سجدے سے انکار کردیا۔ آدم کی عزت نہ کرنے کی وجہ سے اللہ کی بارگاہ میں دھتکار دیاگیا تمام عزتیں اس سے چھین لی گئیں مردودکہلایا، آج جو آدم کی تحقیرکرتا ہے وہ یاد رکھے کہ آدم کی تحقیر ابلیس کو کہاں سے کہاں لے گئی عبادات ضایع گئیں، مرتبہ چھین لیا گیا لعنت کا سزاوار ٹہرا ،انسان کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والوں اس کی بے قدری تو خالق کو بھی پسند نہیں ہے ۔

یہ ہی سب سے بڑا سچ ہے ، یہ ہی بات جتنی جلدی ہمارے زمینی خدا سمجھ جائیں ان کے لیے بہتر ہے ، شیکسپیئر اپنے ڈرامے شاہ لیئر میں دکھاتا ہے کہ جب تک شاہ لیئر پاگل نہیں ہو جاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہو جاتا ۔ دنیا میں موجود تمام لعنتوں میں سب سے بڑی لعنت بھوک ہے اسی بھوک کی وجہ سے انسان خود اپنا پجاری بن جاتا ہے۔ ہماری اشرافیہ انا پرست دیوانوں کا ایسا غول اور ہجوم ہے جس میں ہر ایک خود کو دیوتا سمجھا بیٹھا ہے، وہی لوگ آزاد کہے جا سکتے ہیں جو عقل کے تابع ہیں اور وہ لوگ جو اپنی خواہشوں وجذبات کے تابع ہیں انہیں آزاد نہیں کہا جا سکتا وہ اپنے آپ کے قیدی ہیں۔ ایشلے لکھتا ہے کہ انسان بننے کے لیے رونا پڑتا ہے تمام حیوانات میں صرف انسان ہی وہ قسم ہے جو روتا ہے۔

پاکستانیوں نے انسان بننے کی بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے، روتے روتے ان کی عمر بیت گئی ہے۔ یہاں پر ایک بنیادی نکتہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانیوں کے پاس رونے کے سوا کوئی اور راستہ موجود ہے۔ جی ہاں بالکل دوسرا راستہ موجود ہے انسان کے پاس ہمیشہ ہر وقت دوسرا راستہ موجود ہوتا ہے، یہ پاکستانیوں کا صبر کہیں معصومیت یا سادگی جس کی وجہ سے سرکس کے شیر بھی جنگل کے شیر بنے ہوئے ہیں ۔عظیم فلسفی سقراط نے تقریر کرتے ہوئے کہا لوگو! تم نے پرندوں کو پرواز کرتے دیکھا ہے، کئی آوازیں بلند ہوئیں ہاں دیکھا ہے۔

سقراط نے پھر پوچھا ان کے کتنے پر ہوتے ہیں کئی آوازیں آئیں، دو ۔ سقراط نے خو ش ہوکر تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا اسی طرح ترقی کے بھی دو پر ہوتے ہیں ان پروں کے بغیر ترقی کی پرواز ممکن نہیں ۔ کسی نے پریشان ہو کر سوال کیا کہ وہ دو پر کون کون سے ہیں ۔سقراط نے جواب دیا ایک پر تو تمہیں اپنی لیاقت کا عطا کردہ ہوتا ہے اور دوسرا پر لوگ اپنی حماقت سے فراہم کرتے ہیں ۔ جس کو یہ دو پر میسر ہیں اس کی ترقی ابدی اور لازمی ہوتی ہے ۔ جی ہاں پاکستانیوں نے بھی اپنی حماقت سے اشرافیہ کو دوسرا پر مہیا کر رکھا ہے اگر عوام حماقت نہ کرتے توعوام اس طرف ہوتے جہاں اشرافیہ ہے اور اشرافیہ وہاں ہوتی جہاں عوام ہیں۔

یقین کرو کبھی دیر نہیں ہوتی ہے، پاکستان کے عوام کو اپنی عظمت کا احساس اور شخصیت کے لا محدو د امکانات کا علم اب ہوجانا چاہیے۔ انسان اپنی ذات میں سمٹ کر اور نفس کی پنہائیوں میں کھوکر ہی کائنات کے رازوں کا امین بن سکتا ہے اور نور باطن اور فکر و وجدان ہی وہ مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں چل کر وہ اس مسرت لازوال کو پا سکتا ہے جس کی جستجو وہ ازل سے کرتا آیا ہے۔ سقراط کی بھی یہ ہی تعلیم تھی  ’’خود کو پہچان ‘‘  لہذا اب ہمیں بھی خود اپنی آگ میں جلنے رونے اور خود اپنا تماشا بنانے کے بجائے خود کو پہچاننا ہوگا۔

فتح و شکست کا فیصلہ میدان میں نہیں ذہن میں ہوتا ہے ، بظاہر جو کامیابی آج ہمیں اشرافیہ کی نظر آرہی ہے وہ دراصل اشرافیہ کی شکست ہے کیونکہ دھوکے ، فراڈ سے حاصل شدہ کامیابی ہمیشہ عارضی ہوتی ہے ۔ اب وہ دن دور نہیں ہے جب اس ملک اور اس کے وسائل کے مالک اسی کے حقیقی وارث یعنی عوام ہونگے ۔اور ایک دن ایسا آئے گا لٹیروں اور ڈاکوئوں کے لیے بقول کبیر کے ماٹی انہیں  ایسا روندے گی جیسا انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔