چیری کا درخت سائنس دانوں کے لیے معمّا بن گیا

ندیم سبحان  منگل 6 مئ 2014
خلا میں بھیجے گئے بیج سے اُگنے والے درخت پر وقت سے کئی برس پہلے پُھول نکل آئے۔  فوٹو : فائل

خلا میں بھیجے گئے بیج سے اُگنے والے درخت پر وقت سے کئی برس پہلے پُھول نکل آئے۔ فوٹو : فائل

جاپان میں شاہ دانے ( چیری ) کا ایک درخت سائنس دانوں کے لیے معمّا بن گیا ہے۔ اس درخت میں چیری کے عام درختوں کی نسبت چھے سال پہلے پھول کھل اٹھے ہیں۔

چیری کے درخت عام طور پر دس برس کی عمر میں پھل دیتے ہیں مگر اس درخت پر چار برس ہی کی عمر میں پھول کھلنے لگے ہیں۔  قصہ دراصل یہ ہے کہ چیری کا یہ درخت چار سال قبل ایک ایسے بیج میں سے پھوٹا تھا جسے پانچ برس پہلے خلائی شٹل کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پہنچایا گیا تھا۔ یہ بیج آٹھ ماہ تک خلا میں ’ مہمان ‘ رہا تھا۔یہ درخت وسطی جاپان میں قائم بودھوں کی قدیم عبادت گاہ ’’گنجوجی مندر ‘‘ کے صحن میں اُگا ہوا ہے۔ اس درخت کے بڑھنے کی رفتار نے مندر کے بڑے پروہت گیفو کو بھی حیران کردیا ہے۔ اس کا کہنا ہے،’’ خلا سے آیا ہوا درخت چیری کے عام درختوں کے مقابلے میں بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔‘‘ دل چسپ بات یہ ہے کہ جس بیج سے یہ درخت پھوٹا  ہے وہ بیج 1250  برس قدیم ایک درخت کا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ اس سے پہلے اُس قدیم درخت کے بیج کبھی بارآور ثابت نہیں ہوئے۔ یہ پہلا درخت ہے جو اس قدیم درخت کے بیج سے پھوٹا ہے۔

جاپانی خلانورد کوئچی واکاٹا نومبر 2008ء میں چیری کی مختلف اقسام  کے بیج اپنے ہمراہ خلا میں لے گئے تھے۔ آٹھ ماہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ’ قیام ‘ کے بعد ان بیجوں کو اگلے برس جولائی میں واپس زمین پرلایا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ بیج تجربات کے لیے لیبارٹریوں کے حوالے کردیے گئے۔ کچھ بیج انھی جگہوں پر واپس بھیج دیے گئے جہاں سے حاصل کیے گئے تھے۔ جب کہ کچھ منتخب کردہ بیجوں کو گنجوجی کے مندر کے قریب واقع پودوں کی نرسریوں میں بوَ دیا گیا۔

اپریل کے اختتام تک ’’ اسپیس چیری ٹری ‘‘ کی اونچائی تیرہ فٹ تک پہنچ گئی تھی۔ سائنس داں بھی قدیم درخت کے بیج سے پھوٹنے والے پودے پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ یہ درخت بھی چیری کے عام درختوں کی طرح دس برس کا ہونے کے بعد پھل دے گا۔ مگر چند روز پہلے وہ اس درخت پر پھول کِھلے ہوئے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ ان پھولوں میں سے ہر ایک کی پانچ پتّیاں تھیں، جب کہ اُس قدیم درخت پر کھلنے والے پھولوں  میں پتّیوں کی تعداد 30 ہوتی ہے۔

خلا میں بیجوں کی روانگی دراصل ایک پروجیکٹ کا حصہ تھی، جس کے تحت بچوں کو یہ دکھانا مقصود تھا کہ خلا میں کچھ وقت گزار کر زمین پرواپس لائے جانے والے بیج  کیسے درختوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور کیسے زندہ رہتے ہیں۔ جاپانی خلائی ادارہ Japan Manned Space Systems (JAMSS) اس پروجیکٹ کا نگران تھا۔ مذکورہ ادارے کی ترجمان کہتی ہیں،’’ ہمیں توقع تھی اس بیج سے پھوٹنے والے پودے میں دس برس کے بعد پہلی بار پھول آئیں گے، مگر حیرت انگیز طور پر یہ وقت سے بہت پہلے پھل دینے کے لیے تیار ہوگیا ہے۔‘‘

ٹسوکوبا یونی ورسٹی کی محقق Kaori Tomita-Yokotani اس پروجیکٹ میں شریک تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اس درخت کے غیرمعمولی رویے میں خلائی ماحول کے اثرات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ اس درخت کی غیرمعمولی بڑھوتری اور اس پر قبل از وقت  پھول نمودار ہوجانے کے بارے میں ماہر نباتیات کا کہنا ہے کہ اس کا موازنہ اور تقابل کرنے کے لیے اس جیسے دوسرے درختوں کا موجود نہ ہونا بھی اس کے طرز عمل کی وضاحت میں رکاوٹ ہے۔ علاوہ ازیں اس ضمن میں دوسرے پودوں کے ساتھ  مخلوط باروری ( cross-pollination ) کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔

سائنس دانوں کے مطابق اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ بیج کا کائناتی شعاعوں  کی زد میں رہنا بھی اس سے پھوٹنے والے پودے کی تیزرفتار نمو کا سبب ہو۔ تاہم فی الوقت وہ اس کا حتمی سبب بتانے سے قاصر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔