بھوک، انصاف کی باتیں

فریدہ فرحت آغازئی  پير 5 مئ 2014

کہانی کہاں سے شروع ہو ، بستی کے حالات سے جہاں بھوک نے افراد کی عقلوں کو سلب کر رکھا ہے جہاں نہ تعلیم اور تربیت جیسی عیاشی کی طرف لے جانے والے عوامل ہیں اور نہ بھوکے اجسام میں اتنی قوت کہ وہ اپنے آپ کو اس طرف مائل کرسکیں۔ تو ایسے بھوک گزیدہ لوگوں کے لیے مرحلہ جو سب سے پہلے درپیش ہوا وہ اسی بھوک کو مٹانے کے لیے سدباب کا اہم ٹھہرا، تو پھر بھوک کو مٹانے کے لیے جس سے جو ہوسکا وہ کیا گیا،کوئی محنت کرکے کما لایا اور پیٹ بھرا گیا کسی نے بھیک مانگی، کسی نے چوری کی تو کسی نے جیب کاٹی، بھوک لگتی گئی بڑھتی گئی بڑھتے بڑھتے یہ ایک عفریت بن گئی ہر گھر، ہرگلی کوچے ہر ہر جگہ اس کے مہیب سائے تلے آسیب زدہ بنتے چلے گئے یہ بڑھتی گئی بڑھتی گئی مٹتی گئی پھر بڑھتی گئی اور پھر اسی بھوک کے عفریت نے باقی سب صلاحیتیں نگل لیں۔

علم اور شعور حاصل کرنے کی صلاحیتیں، کچھ بن جانے کی امنگ، کسی بھی اعلیٰ مقام کو پا لینے کی جستجو، کچھ کر دکھانے کا جذبہ، سب کچھ اس بھوک نے نگل لیا اور خود بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی کہ پھر اس کے آگے کچھ بھی مشکل نہ رہا۔ پہلے صرف چوریاں ہوا کرتی تھیں، پھر ڈاکے ڈلنے لگے، پہلے جیبیں کاٹنا آسان تھا، اب گلے کاٹنا بھی کوئی قبیح عمل نہ رہا اور بھی بہت کچھ زندگیوں سے کٹنے اور خارج ہونے والا ہے۔معصوموں کی معصومیت، رشتوں کا تقدس، انسانیت، ماں جیسے رشتے پر بہتان، اپنے ہی بچوں کی جان لے لینے کا، بیچ دینے کا، چھوڑ کر روتے بلکتے چھوڑ جانا تو پہلے بھی کرتی رہی ہے۔ حوا کی بیٹی اور ننگ انسانیت کہ اپنے ہی بھائی کا گوشت کھانے جیسا مکروہ فعل، کیا نہیں ہے جو ہوتا نہیں چلا گیا۔ بھوک، غربت و افلاس کے ستائے گھروں میں ناچتی رہی اور بھوک سے نڈھال کمزور بے بس لوگ، اپنی نہ جانے اورکون کون سی مجبوری کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہارے ہوئے لوگ یا تو حرام موت کو گلے لگاکر بظاہر اپنے وجود کو نجات دلاگئے۔ جب کہ اصل میں وہ اپنے پورے خاندان کو سولی پر ٹنگا، جھولتا چھوڑگئے کیونکہ پیچھے رہ جانے والے ہر فرد میں نہ تو اپنی جان خود لینے کا حوصلہ ہوتا ہے اور نہ وہ جینے کے قابل ہی رہ جاتے ہیں۔ یا پھر یہ بک جاتے ہیں جان ہتھیلی پر رکھ کر دوسروں کا خون بہاتے ہیں۔

ان سے ان کی خوشیاں چھینتے چھینتے ایک دن کسی اندھی گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ بھوک پھر بھی نہیں مٹتی یہ بڑھتی جاتی ہے اور ایسے میں کوئی کاروبار مشکل نہیں رہتا، پھر چاہے وہ منشیات فروشی ہو یا جسم فروشی، ناجائز اسلحے کی ترسیل یا پھر کسی بھی گھناؤنے کاروبار کی پشت پناہی ہو یا کچھ اور ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، اغوا برائے تاوان کچھ بھی کچھ بھی، بھوک مٹنی چاہیے پھر وہ چاہے کسی بھی طرح ہو اور جب کہ جائز ذرایع دسترس میں نہ ہوں تو بھوک بس مٹائی ہی جاتی ہے۔ اور کچھ اسی طرح مٹائی جا رہی ہے کہ حرام حلال غلط صحیح گناہ ثواب کسی میں کوئی فرق نہ رہا۔ سرطان کی طرح پھیلی ہوئی برائیاں اسی طرح لاعلاج سے لاعلاج تر ہوتی چلی گئیں۔ اقتدار اعلیٰ پر تسلط رکھنے والے افراد جو ایک الگ قسم کی بھوک میں مبتلا رہتے ہی ہیں۔ کرسی کی بھوک، طاقت کی بھوک، مال ومنال کو قارون کے خزانوں سے بھی بڑھانے چڑھانے کی بھوک۔ اگر ذرا جو انسانیت رکھتے گوکہ انسانیت کے علمبردار ہونے کے سب سے بڑے دعوے دار کہلاتے ہیں ذرا جو انسانیت ہوتی ان میں تو کچھ بھی کرتے اپنے مال و زر کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے مگر ایک در آگہی کا کھلا رکھتے۔

خود اپنے لیے بھی اور ان کے لیے بھی جو دور جہالت میں اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ علم و آگہی کا حصول ہر خاص و عام کے لیے اتنا آسان ہوتا تو وہ کچھ بھی برا کرنے سے پہلے یا ذلت کی انتہاؤں کو پہنچنے سے پہلے اپنا اچھا برا سوچنے کی صلاحیتوں کا استعمال تو کرسکتے تھے۔ مقتدر اعلیٰ میں سے ہر فرد جو کچھ چاہے برا کرنا مگر ایک ایک نیکی کا عہد تو کرکے آتا صرف ایک نیکی اور اس ایک نیکی کو مکمل جزئیات کے ساتھ اپنے دور میں رائج کرتا۔ اس طرح معاشرے میں سدھارکا کوئی روزن تو کھلتا، کوئی روشنی کی کرن اس گھور اندھیرے میں اجالا پھیلنے کا منبع بنتی۔اجالے کا منبع وہ تعلیم بھی بن سکتی تھی جو ان بھوک سے بلبلاتے ہوئے لوگوں کو میسر نہ تھی۔ آج ہم کسی معجزے کے کسی مسیحا کے منتظر ہیں کہ اس تعفن زدہ ماحول کی کثافت دور ہو اور ایک صاف ستھرا معاشرہ نکل کر دنیا کے سامنے آئے اور پوری دنیا میں اپنے وجود سے اجالا کردے۔ صحرائے تھر میں اسی بھوک نے کیا تباہی مچائی کہ ہر آنکھ اشکبار تھی ہر روح کانپ رہی تھی جب کہ مقتدر اعلیٰ کروڑوں بلکہ اربوں روپے فیسٹیول کے نام پر جھونک رہے تھے تب ان کو ازل سے سندھ کی دھرتی پر راج کرتی مفلسی اور بھوک نظر نہ آئی بھوک سے مرتے ہوئے یہ لوگ کیوں نظر آتے؟ پہلے کب نظر آئے تھے جو اب نظر آتے۔ وہ کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر لوگ، جن کے لیے آج تک کچھ نہ کیا گیا۔ تو اب یہ روایت شکنی کیسے ممکن تھی مگر وہ قدرت ہے کہ جس نے سندھ فیسٹیول منانیوالوں کو فوراً ہی آئینہ دکھا دیا مگر کیا اس کا ان پر کوئی اثر ہوا؟ نہیں ہرگز نہیں۔

اگر ہوا ہوتا تو کوئی تو اقدام ان بھوک سے بلبلاتے ہوئے اور تل تل مرتے ہوئے لوگوں کی بقا کے لیے اٹھایا گیا ہوتا وہ تو دور دیس کے باسی تھے وہیں جابسے۔ سندھ کی ہمیشہ یہ بدنصیبی رہی کہ یہاں جو بھی اقتدار میں آیا اس نے سندھ کی ترقی کے لیے کوئی کام نہ کرنا تھا شاید یہی حلف اٹھاکر آیا جو بھی آیا۔ حالانکہ پنجاب میں صورت حال مختلف ہے وہاں لوگ پڑھے لکھے پنجاب کی بات کرتے ہیں۔ تنزلی کی جانب گامزن قوم کی جان بالکل ہی نکل جاتی ہے جب صاحب علم افراد، ڈاکٹرز ، دینی علما کا بے دریغ قتل عام ہو رہا ہو ایسے کہ جیسے ٹھان لیا گیا ہو کہ اس ملک میں کوئی مسیحا نہ رہے اور رہبرکوئی نہ ہو۔ بدمعاشوں کی مستقل مزاجی اور معاشرے کے ناسوروں کا منظم نیٹ ورک اور ان کی پشت پناہ فورس جس کو عوام کا محافظ ہونا چاہیے۔ جو ہر قبیح فعل میں ملوث جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کو ہی اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ جوئے، سٹے، منشیات کے بازار گرم ہیں، جعلی آپریشن جو طاقت کے زعم میں کمزور کو نیست و نابود کرنے کے لیے کیے جائیں یا طاقت ورکو Protect کرنے کے لیے؟ ایسے میں انصاف کی بات کرنا تو چھوٹا منہ بڑی بات ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔