بدامنی کی آگ میں جلتے ہوئے شہری مسیحائی کے منتظر

عارف عزیز  بدھ 7 مئ 2014
پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ کے خدشات اور تحفظات دور کرسکے گی؟ فوٹو: فائل

پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ کے خدشات اور تحفظات دور کرسکے گی؟ فوٹو: فائل

کراچی: کراچی میں عوام سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی احتجاج، دھرنوں اور مظاہروں میں مصروف نظر آتی ہیں۔

کہیں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور قلتِ آب کے مسئلے پر حکومت اور مقامی انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے جارہے ہیں، تو کہیں تحفظِ پاکستان آرڈیننس کی مخالفت میں لوگ جمع ہیں۔ بدامنی، لاقانونیت اور ٹارگیٹ کلنگ اور اپنے کارکنان کی گرفتاریوں پر حکومت سندھ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ مختلف جماعتوں کے کارکنان احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی اس وقت بدترین بدامنی اور بدانتظامی کا شکار ہے۔ عوام دہشت گردوں، جرائم پیشہ عناصر اور لوٹ مار کرنے والوں کے ہاتھوں اپنی زندگی اور جمع پونجی سے محروم ہو رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کا علم ہونے کے باوجود حکومت سمیت متعلقہ ادارے اس کا حل نکالنے کے لیے بیانات اور ہدایات دینے سے آگے بڑھتے نظر نہیں آرہے۔

کراچی کے شہری عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہیں اور حکومت سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ پچھلے تین ماہ کے دوران کراچی میں سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے قتل کی روک تھام اور بدامنی کے خاتمے لیے حکومتی سطح پر اجلاس، سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطے، مشترکہ اجلاسوں میں قیامِ امن کے لیے تجاویز دینے کے ساتھ حکومت سے عملی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا، لیکن یہ سب بے سود ثابت ہوا۔ آج بھی کراچی میں روزانہ کئی افراد اپنی زندگی سے محروم ہو رہے ہیں۔ لوٹ مار کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور موجودہ صورتِ حال شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

پچھلے ہفتے شہر میں پاک فوج کی حمایت اور اظہارِ یک جہتی کے لیے ریلی نکالی گئی، بلوچ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن آزاد کی جانب سے لاپتا بلوچ افراد کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کیا گیا اور شیعہ سنی اتحاد کے لیے بھی ایک ریلی شہر کے مختلف علاقوں سے گزری۔ گذشتہ دنوں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اپنے کارکنان کی گرفتاریوں کے ساتھ مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے انہیں لاپتا کیے جانے اور ماورائے عدالت قتل پر احتجاج اور ہڑتال بھی کی گئی۔

چند دنوں قبل ملیر میں میمن گوٹھ سے چار افراد کی لاشیں ملی تھیں، جنہیں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی حیثیت سے شناخت کیا گیا۔ اس کے خلاف متحدہ کی طرف سے سندھ بھر میں یومِ سوگ کی اپیل کے ساتھ شہر میں تمام سرگرمیاں معطل ہوگئیں۔ جمعے کو ایم کیو ایم کے دوکارکنوں کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد شہر میں معمولات زندگی بحال ہو گئے۔ اس احتجاج کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے کارکنوں کے مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات، جبری حراست اور لاپتا کارکنان کی بازیابی کے لیے حکومت کو 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا۔ رابطہ کمیٹی کا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے مطالبہ سامنے آیا کہ کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی کی نگرانی میں کمیشن چار کارکنوں کے قتل کے حقائق منظر عام پر لائے۔

کہا گیا کہ کارکنان کی گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل میں سادہ لباس اہل کاروں کے ساتھ رینجرز اہل کار بھی شریک ہیں۔ رابطہ کمیٹی نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے بھی اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر  ڈاکٹر فاروق ستار، کنور نوید، حیدر عباس رضوی، امین الحق و دیگر موجود تھے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کی تنظیموں کو کارکنان کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف پٹیشن روانہ کرچکے ہیں اور ہائی کورٹ میں بھی پٹیشن داخل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ چار کارکنان گرفتار کیے گئے تھے۔ ان کارکنوںکے سروں اور سینے میں گولیاں ماری گئیں، جسم کو ڈرل کیاگیا اور داغا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایم کیوایم ایک ذمہ دارجماعت ہے اور کسی فرد یا ادارے پر الزام لگانے پر یقین نہیں رکھتے۔ جو تفصیلات ہمارے علم میں آئی ہیں اسے قوم کے سامنے لارہے ہیں۔ اگر وزیراعظم کی طرف سے عدالتی کمیشن اور کورکمانڈر کراچی کی نگرانی میں انکوائری کروائی گئی تو ہم تمام ثبوت اور حقائق ان کے سامنے پیش کریں گے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کی طرف سے اپنی حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے احتجاج اور الزامات پر اسے تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جسے ایم کیو ایم نے افسوس ناک قرار دیا۔ ایک مرتبہ پھر دونوں جماعتوں کے اراکین کے مابین تلخی بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی، لیکن دونوں جماعتوں کی قیادت نے معاملات کو سنبھال لیا۔ اس کے بعد سید قائم علی شاہ نے ایم کیو ایم سے کارکنوں کے قتل پر تعزیت کی، جب کہ مفاہمت کے عمل میں سرگرم رحمن ملک بھی میدان میں نظر آئے۔ انہوں نے متحدہ کے قائد الطاف حسین سے رابطہ کر کے تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت اس سلسلے میں کارروائی کرے گی اور قاتلوں کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔ اس سے قبل شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم حکومت کا حصہ ہے اور گورنر  اور ان کے وزراء بھی اس حکومت میں شامل ہیں۔ انہیں حکومت کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔

شرجیل میمن نے کہا کہ حکومت نے چار کارکنوں کی گرفتاری سے متعلق متعلقہ اداروں سے معلومات حاصل کیں، لیکن بتایا گیا کہ  ایسا نہیں ہوا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں دہشت گردوں نے اغوا اور پھر قتل کیا ہے۔ اسی طرح پی پی پی کے راہ نما سید اویس مظفر کا کہنا تھا کہ ہم ایم کیو ایم کے کارکنوں کے قتل کے  کی مذمت کرتے ہیں اور دکھ کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں۔ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے، جو کسی ایک جماعت کے خلاف نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کراچی کے امن کی بحالی میں مکمل سنجیدہ ہے اور اقدامات کر رہی ہے۔ پولیس اور دیگر ادارے دیانت داری سے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ادھر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان  مختلف ایشوز کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کے لیے چار رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی۔ اس کمیٹی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر سکندر میندھرو، رکن سندھ  اسمبلی سید سردار علی شاہ جب کہ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر صغیر احمد اور سید سردار احمد شامل ہیں۔ یہ کمیٹی اپنی تجاویز اور رپورٹ وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کرے گی۔

شہر کراچی کے حالات سدھارنے اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کے ساتھ عوام میں تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس وقت کراچی کا کوئی علاقہ، محلہ اور گلی دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ نظر نہیں۔ بم دھماکے، فائرنگ، بھتاخوری اور لوٹ مار کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے فوری اور اہم نوعیت کے فیصلے کرنا ہوں گے۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ کراچی میں سرگرم سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطہ کرکے بدامنی پر قابو پانے کا کوئی راستہ نکالے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے بھی کوشش کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔