اس وادیٔ پُرخوں سے اُٹھے گا دھواں کب تک

سید ابرار حسین  ہفتہ 5 اگست 2023

آج سے چار سال پہلے مودی حکومت نے تمام اخلاقی اور قانونی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ کشمیر جو پہلے ہی کئی عشروں سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کا جبر سہہ رہا تھا، جو پہلے بھی طرح طرح کے مظالم کا شکار تھا، جہاں ہزاروں معصوموں کو بے گناہی کے جُرم میں قتل کیا جاتا رہا، جہاں مظاہرہ کرنے کی سزا موت اور قید و بند سے کم نہ تھی،جہاں پیلٹ گنوں سے لوگوں کو نابینا کیا جاتا رہا، جہاں کسی عورت کا کشمیری ہونا اس بات کا جواز تھا کہ قابض بھارتی افواج اس کی عصمت دری کریں ۔

مگر ان سب مظالم کے باوجود کشمیری عوام کے دلوں میں ایک امید کی شمع روشن تھی کہ ایک نہ ایک دن اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہوگا، کبھی نہ کبھی ان سے اُن کی رائے پوچھی جائے گی۔ اور جب وہ دن آئے گا ، وہ روز کہ جس کا وعدہ ہے تو وہ بھارت سے الحاق کے خلاف ووٹ دے کر ہمیشہ کے لیے ان مظالم سے آزاد ہوجائیں گے۔

مگر 5اگست 2019 کو مودی حکومت کے سیاہ اقدامات نے اس امید کی شمع کو بجھانے کی سفاکانہ کوشش کی۔

اس دن بھارتی حکومت نے اپنے سارے وعدوں اور معاہدوں کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا اور یوں طاقت کے زور پر کشمیر کو باقاعدہ بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کردیا۔ یہ اقدام غیر قانونی اور یک طرفہ ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کی کُھلی خلاف ورزی تھی۔

بدقسمتی سے بھارت کے اس غیرمنصفانہ فیصلے کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میںظلم و ستم کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے اور ایک بار پھر یہ وادیِ جنت نظیر اپنے ہی باسیوں کے خون سے سُرخ ہوگئی ہے۔

5 اگست 2019 سے سال کے آخر تک یعنی صرف پانچ مہینے میں پندرہ ہزار کے لگ بھگ کشمیریوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ہر دین پسند کو مجرم تصور کیا جارہا ہے اور بغیر تحقیق و تفتیش گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل کے مطابق کشمیر میںہر سال اوسطاً دوسو سے زیادہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ گویا 5اگست 2019 کے بعد بھی مرنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔

روزنامہ سان ڈیاگو یونین ٹریبیون کے مطابق اس سال فروری میں بھارت نے کشمیر میںہزاروں نفوس پر مشتمل ایک سول ملیشیا فورس قائم کی ہے جس کا مقصد صرف وہاں موجود ہندوؤں کا تحفظ ہے۔

ان لوگوں کو اسلحہ اور تنخواہ حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے۔ اور مسلمانوں کو اس ملیشیا کا حصہ بننے کی اجازت نہیں ہے۔ گویا مقامی ہندوؤں کو مسلمانوں پر ظلم و ستم کا لائسنس دے کر مسلح کردیا گیا ہے اور وہ بھی سرکاری خرچ پر۔

یہ لامتناہی بھارتی مظالم بے مقصد نہیں ہیں۔ بھارت ایک منصوبے کے تحت کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس مقصد کے لیے بنایا جانے والا حدبندی کمیشن مودی حکومت کے مکروہ عزائم کا آئینہ دار ہے جس کے اقدامات کے نتیجے میں وہاں غیر کشمیریوں کوکشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ ملنا شروع ہوگئے۔

اُن کے لیے کشمیر میں نوکریوں کے حصول کو آسان بنایا گیا اور انھیں وہاں زمین خریدنے کی اجازت دی گئی۔یہی نہیں، کشمیریوں کو ان کی زمینوں اور جائیدادوں سے محروم کیا جارہا ہے اور اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں ضبط کی جاچکی ہیں۔ یہ سب اقدامات سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے نے کشمیر کی اقتصادی حالت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ حال ہی میں کشمیر لیگل فورم نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شایع کی ہے جس کے مطابق اس اقدام کے ذریعے کشمیریوں کو تقریباً پچاس ہزار نوکریوں سے محروم کردیا گیا ہے۔

کشمیری تاجروں کی ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا ہے کہ انھیں چالیس ہزار کروڑ روپے کے نقصانات کا سامنا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کا مقصد کشمیر کو لُوٹنا ہے۔

ایک اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے مطابق کشمیر کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔پچھلے مہینے نئی دہلی میں ہونے والی شنگھائی تعاون کی تنظیم کی سربراہی کانفرنس میں آن لائن خطاب کرتے ہوئے چین کے صدر زی جن پنگ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ خطے کی سیکیورٹی کے لیے ضروری ہے کہ عالمی اور علاقائی مسائل کو سیاسی طور پر حل کیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھی گزشتہ پچھتر سال سے سیاسی حل کے انتظار میں ہے، وہ سیاسی حل جو اقوام عالم نے اقوام متحدہ کے ذریعے پیش کیا تھا۔ مگر بھارت نہایت ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کشمیری عوام کی جدوجہد کو کچلنے میں مصروف ہے۔

باقی دنیا اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے پیشِ نظر ان بہیمانہ مظالم سے صرفِ نظر کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس صورتِ حال میں مظلوم کشمیری دُکھ، مجبوری اور بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں اور حبیب جالب کی زبان میں ضمیر اقوامِ عالم سے یہ سوال کررہے ہیں کہ:

اس وادیٔ پُرخوں سے اُٹھے گا دھواں کب تک

محرومیٔ گلشن پر روئے گا سماں کب تک

محرومِ نوا ہوگی غنچوں کی زباں کب تک

ہر پھول ہے فریادی آنکھوں میں لیے شبنم

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔