- ورلڈ کپ کی سیمی فائنلسٹ ٹیمیں کون ہوں گی؟ ہاشم آملہ نے بتادیا
- نواب شاہ ؛ بجلی چوری میں معاونت پر دو ایس ڈی اوز اور دو لائن مین معطل
- لوگ جسمانی صحت سے زیادہ ذہنی صحت کے لیے ورزش کرتے ہیں، سروے
- ٹِک ٹاک نے گوگل سرچ کی آزمائش شروع کر دی
- معلم کے تشدد سے زخمی ہونے والا زیرِعلاج لڑکا دم توڑ گیا
- اسلام آباد ایئرپورٹ کا مرکزی رن وے 5 دن کیلیے بند رہے گا
- بجلی چوروں کیخلاف کریک ڈاؤن جاری؛ 18 روز کے دوران 3674 مقدمات درج
- کالج سے بیدخلی کا چھپانے کیلیے ماں کو قتل کرنے والی طالبہ پر فرد جرم عائد
- کراچی میں طیاروں پر لیزر لائٹس مارنے کے واقعات میں پھر اضافہ
- الیکشن سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ دیکھ رہا ہوں، منظور وسان
- نواز شریف کی واپسی سے صرف آئین شکن پریشان ہیں، مریم نواز
- امریکا میں 62 سالہ بیوی نے قریب المرگ شوہر کو گولی ماردی
- لاہور چڑیا گھر، سفاری پارک کی اَپ گریڈیشن، سمری الیکشن کمیشن کو ارسال
- ہردیپ سنگھ کے قتل میں کینیڈین وزیراعظم کا بھارت مخالف واضح مؤقف قابل ستائش ہے، سکھ رہنما
- عمران خان کے بغیر کوئی بھی الیکشن غیرآئینی ہوگا، تحریک انصاف
- کوئٹہ پولیس کا بجلی چوری کا الزام لگا کر شہری پر بہیمانہ تشدد، ویڈیو وائرل
- خواجہ سراؤں کی مبینہ خرید و فروخت؟
- ایشین گیمز؛ پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کو سیمی فائنل میں سری لنکا کے ہاتھوں شکست
- نیوزی لینڈ کی طرز پر برطانیہ میں بھی سگریٹ پر پابندی کیلیے غور شروع
- کراچی میں فلیٹ میں گیس لیکیج کے دھماکے میں بہن بھائی جھلس کرزخمی
لمحہ فکریہ
وطنِ عزیز پاکستان کے مسائل کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں جب کہ اِس کے برعکس ہمارا ازلی دشمن پڑوسی برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی نئی نئی منازل طے کر رہا ہے۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
گستاخی معاف ہمارے اربابِ اختیار کو اپنے آپس کے لڑائی جھگڑوں سے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ ملک کے حال اور مستقبل کے بارے میں مل بیٹھیں اور سوچ بِچار کریں۔ سوال یہ ہے کہ اِس کی ذمے داری کس پر عائد کی جائے اور کس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اِس حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔
یوں کہلانے کو یہ ملک اسلامی جمہوریہ ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ کتنا اسلامی ہے اور کتنا جمہوریہ۔ جہاں تک اسلامی ہونے کا تعلق ہے تو یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں سودی کاروبار کھلے عام ہو رہا ہے۔ سود پر قرضے لیے جا رہے ہیں اور دیے جا رہے ہیں حالانکہ سود کا لین دین اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ ہے۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
جب صورتحال ایسی ہو تو پھر بھلا خیر و برکت کیسے ہوسکتی ہے؟ اِسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ:
مالِ حرام بود
بجائے حرام رفت
گویا چوری کا مال موری میں
معاف فرمائیے ہم نہ کوئی عالمِ دین ہیں اور نہ مفتی بس چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ رہی بات جمہوریہ ہونے کا تو سچ یہ ہے کہ نظامِ حکومت پر صرف جمہوریت کا لیبل لگا ہوا ہے۔ اِسی طرح جیسے کسی گھی فروش کی دکان پر یہ لیبل لگا ہوا ہو کہ یہاں 100 فیصد اصلی گھی ملتا ہے جب کہ معاملہ کچھ اور ہو۔
ہمارے اربابِ سیاست کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے چاہنے والے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ اُن کا مزاج بھی جمہوری نہیں ہے۔ صرف لے دے کر جماعتِ اسلامی وہ سیاسی جماعت ہے جس کی گھٹی میں جمہوریت ہے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں لیکن وہ بیچارے تو محض بھیڑوں کا ایک ریوڑ ہیں جدھر چاہے ہانک دیں۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ووٹوں اور نوٹوں کا کتنا گہرا تعلق ہے۔
وطنِ عزیز میں سیاسی شطرنج کی ایک بساط بچھی ہوئی ہے جس پر مہرے سجے ہوئے ہیں اور کسی بھی مہرہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے اِسی لیے کہا گیا ہے۔
بیچارہ پیادہ تو ہے اِک مُہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
ملک کے سیاسی حالات کا معاشی حالات سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ سیاسی ہلچل اور عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری بند ہوجاتی ہے کیونکہ غیر یقینی حالات کی وجہ سے کوئی بھی سرمایہ کار اپنے سرمایہ کو خطرہ میں ڈالنا نہیں چاہتا۔بدقسمتی سے ملک کے حالات سدھرنے کے بجائے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
عام انتخابات کے بار بار التوا نے عدم اعتماد کی فضا پیدا کردی ہے۔ توقع تھی کہ انتخابات بر وقت ہوجائیں گے اور ایک لیول پلیئنگ فیلڈ ہوگا جس میں تمام سیاسی جماعتیں برابری کی سطح پر کھل کر حصہ لے سکیں گی لیکن بدقسمتی سے اِس کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ۔
وطنِ عزیز میں عرصہ حیات تنگ سے تنگ ہو رہا ہے وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ۔ بیروزگاری نے ناک میں دم کر رکھا ہے جس کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ وطن چھوڑ چھوڑ کر بیرونی ممالک کا رخ کر رہے ہیں، جہاں انھیں معقول روزگار کے مواقع میسر آرہے ہیں اور اُن کا مستقبل روشن اور محفوظ ہے۔
اِن لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اِن میں زیادہ تر ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر ماہرین شامل ہیں۔ کسی شاعر نے کہا تھا:
سر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اُسے ملی جو وطن سے نکل گیا
سوال یہ ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب وطنِ عزیز جوہرِ قابل سے محروم ہوجائے گا۔ ماضی کی ’’ تبدیلی سرکار ‘‘ نے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ وطنِ عزیز میں روزگار کے ایک لاکھ مواقع فراہم کیے جائیں گے لیکن ہوا یہ کہ یہ مواقع تو بھلا کیا ملتے خود سرکار ہی تبدیل ہوگئی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔