- نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کا غیرقانونی مقیم تارکین وطن کیخلاف سخت کریک ڈاؤن کا حکم
- 54 سالہ گریگ فرگس کینیڈا کی تاریخ میں پہلے سیاہ فام اسپیکر بن گئے
- سائفر کیس کے جیل ٹرائل کیخلاف عمران خان کی درخواست دائر
- ہم پبلک پارکس اور پلے گراؤنڈز میں کمرشل کام نہیں ہونے دیں گے، سندھ ہائیکورٹ
- 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس : ضمانت خارج ہونے کیخلاف عمران خان کی درخواست سماعت کیلیے مقرر
- سائفرکیس کی ان کیمرا سماعت کی درخواست مسترد
- جوبائیڈن کی حمایت کا الزام؛ ٹرمپ کی جماعت نے اپنے اسپیکر کو ہٹادیا
- ملزم کو فرار کروانے پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن گرفتار
- اٹلی میں سیاحوں کی بس پل سے گر گئی؛ 21 افراد ہلاک
- بھارتی فوج کے 23 اہلکار سیلابی ریلے میں بہہ گئے
- خیبر پختونخوا؛ انتخابی مہم کی اجازت نہ دینے کیخلاف پی ٹی آئی کی عدالت میں درخواست
- عمران خان صدر مملکت سے بہت مایوس اور دکھی ہیں، علیمہ خان
- سائفر مقدمہ کچھ لوگوں کو بچانے کے لیے ہے، چیئرمین پی ٹی آئی
- لکی مروت؛ امتحان میں کم نمبر آنے پر نوجوان کی خودکشی
- انصاف ہاؤس کے باہر پولیس اہلکاروں پر نامعلوم افراد کا حملہ، وردیاں پھاڑ دیں
- فخر زمان کا کیچ تھامنے پر ڈیوڈ وارنر کا ’’پشپا راج‘‘ کے انداز میں جشن
- نسیم شاہ کی عدم موجودگی پاکستان کیلیے بہت بڑا دھچکا ہے، اسکاٹ اسٹائرس
- چین کیلیے پروپیگنڈے کے عوض رقم لینے کا الزام، صحافیوں کے گھروں پر چھاپے
- ایشین گیمز؛ باکسنگ میں میڈل کی پاکستانی امید دم توڑ گئی
- سائفر کیس کی اڈیالہ جیل میں پہلی سماعت، چالان نقول کی فراہمی مؤخر
ہندوستان میں مسلم کش فسادات
ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے جارحانہ اور دہشت گردانہ واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیشہ سے ہندوستان میں مسلمان حکومتی سر پرستی میں کام کرنے والی ہندو انتہا پسند جماعتوں اور دہشت گرد گروہوں کی کارروائیوں کا شکار رہے ہیں۔
حال ہی میں ایک مرتبہ پھر دارالحکومت دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ کے ضلع نوح کی سڑکوں پر مسلمانوں کا خون ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے بہایا جا رہا ہے۔ ہریانہ میں گزشتہ چار روز میں تین سو سے زائد ایسے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے ہیں، درجنوں مسلمان اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
مقامی ذرایع ابلاغ ہمیشہ کی طرح ہندو انتہا پسندوں کے دہشت گردانہ حملوں اور کارروائیوں کی پردہ پوشی کرنے کے لیے اس معاملہ کو فسادات کا رخ دے رہے ہیں، حالانکہ یہ فسادات نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی فرقہ وارانہ فسادات کی صورت ہے۔ یہاں صورتحال بہت واضح ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔
مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، لہٰذا میڈیا پر اس سارے معاملہ کو نہ تو ہندو مسلم فسادات سے تشبیہ دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فرقہ وارانہ فسادات بلکہ یہ کھلم کھلا مسلم کش دہشت گردی اور فساد ہے۔بی بی سی جیسا تنگ نظر ادارہ بھی اپنی رپورٹ میں اس بات کو حذف نہیں کر پایا کہ ضلع نوح کی سڑکوں پر مسلسل کئی دن تک ہندو انتہا پسند دہشت گردوں کا راج رہا، جن کے ہاتھوں میں بڑی بڑی تلواریں، لاٹھیاں اور جان لیوا ہتھیار تھے۔
اس موقع پر شہر میں جگہ جگہ مسلمان اپنی جان و مال اور ناموس کی حفاظت کے لیے پناہ تلاش کرتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شہر میں اتنے بڑے پیمانے پر یہ تشدد بھری کارروائیاں اچانک ہوئی ہیں؟ کیا یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے؟ کیا انتظامیہ اور علاقہ کی خفیہ ایجنسیاں اس طرح کے حالات سے باخبر تھیں؟ کیا حکومت کی جانب سے مسلمانوں کا تحفظ کیا جا سکتا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت ہریانہ میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد اذہان میں جنم لے رہے ہیں۔
ان تمام سوالات کا جواب حاصل کرنے سے پہلے یہاں پر بھارت میں حکومت کرنے والی جماعت بی جے پی سے متعلق حقائق بیان کرنا ضروری ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کا قیام 1919میں برصغیر میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس جماعت کے قیام کے ساتھ منشور کی اولین سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ برصغیر یا ہندوستان میں پہلے مسلمان کی آمد سے لے کر آخری مسلمان کی موجودگی تک مسلمانوں کو قتل کیا جائے گا اور ہندوستان سے نکال دیا جائے گا۔ اس طرح کا منشور رکھنے والی جماعت آج کل ہندوستان میں حکومت کر رہی ہے۔
موجودہ وزیراعظم نریندر مودی بھی اسی جماعت کے سرغنہ ہیں، بلکہ ماضی میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی قیادت بھی کر چکے ہیں اور سیکڑوں مسلمانوں کے قاتل ہیں ۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد سے ہندوستان اور دنیا بھر میں نریندر مودی کو ’’ گجرات کا قصائی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے جس طرح سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایریل شیرون کو صابرہ اور شاتیلا کے کیمپوں میں فلسطینیوں کا بے رحمانہ قتل عام کرنے پر قصائی کا لقب دیا گیا تھا۔
دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم کش فسادات کی ابتداء تو ہندوئوں کے مذہبی تہوار سے شروع ہوئی ہیں ، جس کے آغاز پر ہی مسلمانوں کے خلاف بیانات کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔ اس تمام تر مہم کی سرپرستی بی جے پی اور آر ایس ایس جیسے شدت پسند جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مسلم کش دہشت گرد عناصر کر رہے تھے۔
ہندوستان کے سیاسی حلقوں میں موجود معتدل سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں، لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ مذہبی تہوار کی آڑ میں کہ جب عبادت کی غرض سے اچھے خاصے ہندو عوام بھی جمع ہوجائیں گے، ایسے موقع پر مسلمان اکثریتی علاقوں میں دھاوا بولا جائے اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔
سیکیورٹی سے متعلق تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ دہلی میں کام کرنے والی خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کو پہلے سے ایسے واقعات کا علم تھا کیونکہ یاترا سے قبل ہی ایک متنازعہ وڈیو بیان سامنے آ چکا تھا جو مسلمانوں کے خلاف تھا اور پھر بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہریانہ اور گرد و نواح کے اضلاع میں مسلمانوں کی جان و مال خطرے میں ہے۔تمام تر سوالات کے جوابات سے زیادہ اہم سوال اس وقت یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں دیگر مذاہب کے لوگ محفوظ ہیں ؟
کیا مسلمانوں کے علاوہ ہندوستان میں بسنے والے عیسائی، سکھ اور اسی طرح دلت ان انتہا پسند عناصر سے محفوظ ہیں؟ بہت سے سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی رائے میں ہندوستان میں تمام اقلیتی مذاہب کو خطرات لا حق ہے اور یہ سب کچھ حکومتی جماعت کی سرپرستی میں انجام دیا جا رہا ہے۔ہندوستان جو دنیا بھر میں خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہتا ہے، اس کی جمہور کا عالم یہ ہے کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ہندوستانی حکومت کی اپنی حالت یہ ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہندوستان میں انجام دی جا رہی ہے۔ ہندوستان حکومت جو پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اب مسلم کش فسادات کی آڑ میں پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی سر پرستی میں ملوث ہے۔ عالمی برادری کا شرمناک کردار بھی قابل مذمت ہے کہ جس نے تاحال ہندوستان میں مسلم کش فسادات اور دہشت گردانہ کارروائیوں پر ہندوستان حکومت کی سرزنش نہیں کی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔