- پی آئی اے کا مالی بحران سنگین؛ پی ایس او نے جیٹ فول دینے سے انکار کردیا
- کراچی کے دشمنوں کی نیندیں اُڑا دیں گے، خالد مقبول صدیقی
- نگران وزیراعلی پنجاب کی طعبیت ناساز، سی ایم ایچ منتقل
- عالمی بنیک کا 50 ہزارسے کم کمانے والے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ
- سائفر کیس میں گرفتاری کے بعد پہلی بار عمران خان اور شاہ محمود کی ملاقات
- شعیب ملک پاکستان کرکٹ ٹیم کے حق میں بول پڑے
- حوالہ ہنڈی کے خلاف کریک ڈاؤن میں 557 ملزمان گرفتار، 3 ارب سے زائد کی کرنسی برآمد
- سمندر میں تیز ترین روؤنگ کا ریکارڈ سعودی خاتون ایتھلیٹ کے نام
- نسیم شاہ کی غنودگی میں اپنی مرحومہ والدہ کو پکارنے کی ویڈیو وائرل
- چین کے جوہری آبدوز حادثے میں 55 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے؛ برطانوی رپورٹ
- کتابوں کی آڑ میں بھارتی کرنسی نیپال اسمگل کرنے کی کوشش ناکام
- نگران حکومت عوام کی بجائے آئی ایم ایف کی ترجمان ہے، سراج الحق
- سابق گرل فرینڈ نے بچے سے ملنے کے لیے ایلون مسک پر مقدمہ کردیا
- خلائی فضلے پر پہلی بار کسی کمپنی پر جرمانہ عائد
- طلاق کے بچوں پر پڑنے والے انتہائی منفی اثرات
- شرح سود بڑھنے سے قرضوں میں 6 سو ارب روپے اضافہ
- جناح اسپتال کراچی میں روبوٹک سرجری کا آغاز، 34 سالہ مریض کا پتہ نکالا گیا
- شنگھائی الیکٹرک کی ایک بار پھر کے الیکٹرک کو خریدنے کی پیشکش
- جذبات ابھارنے والی گولیوں کی زائد مقدار سے خاتون ہلاک
- لاہور: مدرسے کے آٹھ سالہ طالبعلم پر تشدد کرنے والا استاد گرفتار
پرویز الٰہی کو کیوں بار بار گرفتار کیا جا رہا ہے؟ سپریم کورٹ

پتہ نہیں حکومت ایک ہی ملزم کو بار بار گرفتار کرکے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کو پرویز الٰہی کی عبوری ضمانت کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر 21 اگست تک فیصلہ کرنےکا حکم دے دیا۔
عدالت نے کہا اگر آئندہ سماعت تک ہائیکورٹ نے فیصلہ نہ کیا تو سنگل بنچ کا فیصلہ بحال ہو جائے گا
جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
پنجاب حکومت کی طرف سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل وکیل نے پیش ہو کر بتایا لاہور ہائیکورٹ کے سنگل رکنی بنچ کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بتائیں ہائیکورٹ میں آپکی انٹر کورٹ اپیل کیسے قابل سماعت ہے؟وکیل نے جواب دیا 21 اگست کو لاہور ہائی کورٹ کا دو رکنی بنچ درخواست کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر سماعت کرے گا،عدالت چاہے تو ہدایت جاری کردے کہ 21 اگست کو قابل سماعت ہونے کے معاملے پر فیصلہ کیا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ بازی اچھی روایت نہیں،عدالتوں کو ملوث کرنے کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کر بات چیت سے مسائل کو حل کریں،
پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، چوہدری پرویز الٰہی کی ایک مقدمے میں ضمانت منظور ہوتی ہے دوسرے مقدمے میں گرفتار کرلیا جاتا ہے،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ایک شخص مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے خود پیش ہورہا ہے، کیوں بار بار گرفتاری کی جا رہی ہے؟پتہ نہیں حکومت ایک ہی ملزم کو بار بار گرفتار کرکے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے،
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا لاہور ہائیکورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آپ کے پاس مقدمات پہ مقدمات درج کرنے کیلئے ازخود نوٹس کا اختیار حاصل ہے لیکن عدالتوں کے پاس نہیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے یہ کیس ایک شخص کی آزادی کا معاملہ ہے،کسی شہری کی آزادی سلب کرنا غیر آئینی ہے،ایک منٹ کیلئے بھی آزادی چھیننا آئین کی خلاف ورزی ہے،
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا پرویز الٰہی کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے لاہور ہائیکورٹ کو ہی فیصلہ کرنے دیں، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے،آپ جینوئن کیس میں ملزم کو سزا دلوادیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں،دیکھنا ہے کہ کیا ہائیکورٹ کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے؟
پرویز الٰہی کے وکیل نے جواب دیا اگر مقدمات پر مقدمات میں گرفتاری ہورہی ہوتو عدالتیں ایسے احکامات دیتی ہیں،10 سال پرانے مقدمات میں بھی پرویز الہٰی کو گرفتار کیا جا رہا ہے،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جب تک آپ خود کچھ نہیں کریں گے یہ تو چلتا رہے گا، یہ سب تو آپ لوگ کرتے رہتے ہو، بہتر ہوگا کہ ہم سب اپنا قبلہ درست کریں،
جسٹس شاہد وحید نے کہا پرویز الہٰی کو گرفتار نہ کرنے کے حکم کے خلاف پنجاب حکومت بطور تھرڈ پارٹی کیسے اپیل کرسکتی ہے،جس اپیل کا پنجاب حکومت کو اختیار نہیں تھا اس پر ہائیکورٹ نے حکم کیسے دیا،
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ہائیکورٹ نے 21 اگست کو فیصلہ نہ دیا تو پرویز الہیٰ کا سنگل بنچ کا فیصلہ بحال ہوجائے گا،عدالت نے پرویز الہٰی کا کیس واپس ہائیکورٹ بھجواتے ہوئے نمٹا دیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔