تاریخ اکثر خود کو دہرا دیا کرتی ہے

نصرت جاوید  جمعـء 9 مئ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

چٹ پٹا کالم لکھ کر آپ کا دل بہلانا چاہوں تو کام بہت آسان ہے۔ بدھ کو جب جاوید ہاشمی قومی اسمبلی میں تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو میں پریس گیلری میں بیٹھا تھا اور ان کی 42 منٹ لمبی تقریر کے اختتام تک بیٹھا رہا۔ موصوف بڑے خلوص سے اپنی تقریر کے ذریعے بنیادی طور پر دو باتوں پر زور دینا چاہ رہے تھے۔ پہلی یہ کہ 11 مئی سے شروع ہونے والی تحریک انصاف کی تحریک مڈ ٹرم انتخابات کے حصول کے لیے نہیں چلائی جا رہی۔

یہ تحریک چلانے کے لیے 11 مئی 2014ء کا دن ان کی جماعت نے بہت پہلے سے مقرر کر رکھا تھا۔ اس دن چلنے والی تحریک کا ان دنوں میڈیا میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والے شور و غوغا سے کوئی تعلق نہیں۔ جاوید ہاشمی اور ان کی جماعت غیر جمہوری قوتوں کے کبھی آلہ کار نہیں بنیں گے۔ ذاتی طور پر وہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک جمہوریت اور منتخب پارلیمان کی بقاء اور بالادستی کے لیے لڑتے رہیں گے۔

دوسرے نکتے کے ذریعے انھیں اصرار اس بات پر کرنا تھا کہ چند صحافیوں کے ہاتھوں پہنچائی جانے والی بے پناہ اذیتوں کے باوجود وہ اور ان کی جماعت کسی صحافتی ادارے کو بند نہیں کروانا چاہتے۔ ہاں اتنا ضرور چاہتے ہیں کہ ریاست اور معاشرے کے دوسرے ستونوں اور اداروں کی طرح صحافت بھی کسی متفقہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کرے۔

کوئی معقول آدمی ہاشمی صاحب کے ان دونوں نکات سے اختلاف نہیں کر سکتا۔ بہتر ہوتا وہ ان ہی نکات پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے۔ میں انھیں طالب علمی کے زمانے سے جانتا ہوں جب وہ ’’ایک بہادر آدمی‘‘ کہلایا کرتے تھے۔ اپنی سرشت میں ایک جذباتی انسان ہیں۔ بدھ کو بھی روانی تقریر میں کئی سمت غیر ضروری طور پر بھٹکتے رہے۔ ایسا کرتے ہوئے کردار کے اس ’’باغی‘‘ نے غازیانہ تحریر کے ایک جید کالم نگار کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اب ’’دنگل‘‘ دو جید پہلوانوں کے درمیان ہے۔ ’’جوابِ آں غزل‘‘ کا انتظار کیجیے اور مجھے ’’باجو کی گلی‘‘ سے نکل کر ایک اور موضوع کی طرف جانے دیجیے۔ پہلے مگر ایک وضاحت۔

پیپلز پارٹی کے جس اہم رہنما کے ایک تجزیے کا ذکر جو میں اب چھیڑنا چاہ رہا ہوں میری موجودگی میں بیان نہیں ہوا۔ میں نے اس تجزیے کی بابت سن کر تین مرتبہ اس رہنما سے رابطہ کرنے کی بھی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اسی لیے ان کا نام نہیں لکھ رہا۔ ویسے بھی شیکسپیئر نے تین صدیوں پہلے کہہ دیا تھا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ لہذا نام کو نظرانداز کیجیے اور مجھے رپورٹ کرنے دیں کہ مجھے چار سے زیادہ پارلیمانی رپورٹروں نے جن کی دیانت کے بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیں بتایا ہے کہ ان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں پیپلز پارٹی کے اس بہت ہی زیرک مانے جانے والے رہنما نے انھیں بتایا ہے کہ نواز شریف ان دنوں شدید سیاسی دبائو کا شکار ہیں۔

دبائو ان کی برداشت سے باہر ہوا تو شاید استعفیٰ دے دیں۔ مگر ان کا استعفیٰ نئے انتخابات کی طرف نہیں لے جائے گا۔ حالات کچھ اس طرح کے ’’بنائے جائیں گے‘‘ کہ موجودہ قومی اسمبلی ہی ان کے ہونہار برادرِ خورد یعنی شہباز شریف صاحب کو وزیر اعظم منتخب کر لے۔ حقیقت کو یہاں تک رپورٹ کرنے کے بعد مجھے یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ ذاتی طور پر میں اس تجزیے سے ہر گز اتفاق نہیں کرتا۔ اصل حیرت تو مجھے اس بہت ہی زیرک مانے جانے والے پیپلز پارٹی کے اس رہنما کی تجزیاتی صلاحیتوں پر ہو رہی ہے جو اس کہانی کو بڑی سنجیدگی سے پھیلا رہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے موصوف پتہ نہیں کیوں بھول گئے کہ نواز شریف کی جگہ شہباز والی کہانی بہت پرانی ہے اور کئی بار پٹ بھی چکی۔

1992ء کے وسط میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان لاہور سے آئے نواز شریف سے تنگ آنا شروع ہوگئے۔ میرا شمار پتہ نہیں کیوں ان دنوں ’’جیالا صحافیوں‘‘ میں ہوا کرتا تھا۔ اس شہرت یا بدنامی کی بدولت غلام اسحاق خان مرحوم کے کئی تگڑے وفادار مجھے ڈھونڈ ڈھانڈ کر سرگوشیوں میں ’’بابے‘‘ کے نواز شریف کے بارے میں جمع ہوتے غصے کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ میں اکثر انھیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا کرتا۔ مگر ایک روز چند صحافی دوستوں کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ساتھ چائے پر ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو سننے کا موقعہ ملا۔

کسی بھی نظر نہ آنے والی وجہ کے بغیر محترمہ نے اچانک اس ملاقات میں شہباز شریف کا ذکر چھیڑ دیا۔ کم از کم دو مرتبہ انگریزی میں یہ بھی کہا کہ برادرِ خورد اپنے بڑے بھائی سے زیادہ ’’خطرناک‘‘ ہیں۔ محترمہ کا بغیر کسی وجہ سے شہباز شریف کو گفتگو میں کھینچ کر انھیں ’’خطرناک‘‘ قرار دینا میرے لیے بڑی اچنبھے کی بات تھی۔ تجسس نے بے چین کر دیا اور میں کوئی تسلی بخش جواب پانے چوہدری الطاف حسین مرحوم کے اسلام آباد میں ان دنوں کے اراکینِ اسمبلی کے لیے بنے ہوسٹل کے ایک کمرے میں چلا گیا۔

چوہدری صاحب بڑے ٹھنڈے مگر اقتدار کے کھیل تماشوں کے ایک ماہر کھلاڑی تھے۔ پدرانہ شفقت کے ساتھ میرے تجسس پر طنز بھری مسکراہٹ نچھاور کرتے رہے۔ بالآخر انھوں نے جان لیا کہ میں کوئی واضح جواب ڈھونڈنے کو بے چین ہوں تو بڑی بے اعتنائی سے بولے کہ :’’بابا (غلام اسحاق خان) کی بڑی خواہش ہے کہ شہباز شریف وزیر اعظم بن جائیں۔ مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ بالآخر نواز شریف کو جانا ہے اور نئے انتخاب ہوں گے‘‘۔ چوہدری صاحب یاد رہے ان دنوں پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی تھے۔ اپنی جماعت کی غلام اسحاق خان سے شدید نفرت کے باوجود وہ اکثر ایوان صدر جا کر ان سے ملا کرتے۔ غلام اسحاق خان کے چہیتے شریف الدین پیرزادہ کے ساتھ بھی ان کی بہت دوستی تھی۔ اکثر وہ دونوں آئس کریم کھاتے اسلام آباد کے چند مشہور ریستورانوں میں اکٹھے بیٹھے پائے جاتے۔

میں ان کی بات کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور تھا۔ ان سے میری ملاقات کے چند ماہ بعد مجھے ایک انتہائی بااعتماد ذریعے سے پتہ چلا کہ ان دنوں کے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ میر افضل خان نے F-7 کے پنجاب ہائوس میں نواز شریف کی پہلی حکومت کے ایک قد آور وفاقی وزیر ملک نعیم خان سے ایک طویل ملاقات کی تھی اور انھیں اس بات پر قائل کرنا چاہا کہ وہ In House Coup کے ذریعے نواز شریف کی جگہ وزیر اعظم بن جائیں۔ ملک نعیم نواز شریف کے اندازِ حکمرانی سے بہت خوش نہ تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے انکار کر دیا۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ چوہدری الطاف مرحوم والی ’’بیل منڈھے‘‘ نہیں چڑھ پائی اور پھر اپریل 1993ء میں غلام اسحاق خان نے ایک اور قومی اسمبلی کو برطرف کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے اور تاریخ اکثر خود کو دہرا دیا کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔