فیورٹ ٹیمیں انجانے خدشات سے دوچار

حسنین انور  پير 17 ستمبر 2012
اس ٹورنامنٹ کے اب تک کھیلے گئے تینوں ایونٹس میں الگ الگ ٹیموں کو ٹائٹل جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا۔  فوٹو : ایکسپریس

اس ٹورنامنٹ کے اب تک کھیلے گئے تینوں ایونٹس میں الگ الگ ٹیموں کو ٹائٹل جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ فوٹو : ایکسپریس

ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان فیورٹ سائیڈز میں شامل اور ایک مرتبہ پھر چیمپئن کا اعزاز حاصل کرنے کو تیار ہے۔

مگر اس کے ساتھ دیگر ٹیمیں بھی پیچھے نہیں ہیں، کسی کو اپنی بیٹنگ قوت پر ناز تو کوئی اسپن کوالٹی پر شاداں ہے،کچھ کو اپنے انتہائی متوازن اسکواڈ سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ ایونٹ میں شریک تمام12 ٹیمیں آنکھوں میں ٹرافی اٹھانے کے سہانے خواب سجائے ہوئے ہیں مگر ان میں سے آدھی سائیڈز ٹائٹل کی حقیقی دعویدار ہیں۔

ان میں پاکستان کے ساتھ میزبان سری لنکا، بھارت، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز ، دفاعی چیمپئن انگلینڈ اور آسٹریلیا شامل ہیں، چھوٹی ٹیموں کو بھی اس فارمیٹ میں نظر انداز کرنا سب سے بڑی بیوقوفی ہوگی، بعض سائیڈز اپ سیٹ کرنے کی انتہائی شوقین ہیں، ان میں بنگلہ دیش اور آئرلینڈ سرفہرست ہیں دونوں بڑے ایونٹس میں مضبوط حریفوں کو شکست سے دوچار کرکے دنیا کو حیران کرسکتے ہیں۔

اس ٹورنامنٹ کے اب تک کھیلے گئے تینوں ایونٹس میں الگ الگ ٹیموں کو ٹائٹل جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا، پہلی ٹرافی بھارت دوسری پاکستان کے نام رہی،ویسٹ انڈیز میں کھیلے گئے ایونٹ میں انگلینڈ نے چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور اب ٹائٹل کا دفاع کرے گی،اسپن کنڈیشنز میں انگلش صلاحیتیں ہمیشہ شبہات کا شکار رہی ہیں۔

اسی طرح جنوبی افریقی سائیڈ انتہائی متوازن اورہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی ٹائٹل کے قریب پہنچ کر ہمت ہارجانے کی پرانی بیماری سے جان چھڑانے کا عزم کیے بیٹھی ہے، ٹیسٹ اور ون ڈے میں طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والا آسٹریلیا اب مختصر ترین فارمیٹ میں بھی اپنی بادشاہت کا جھنڈا گاڑنے کیلیے بے چین ہے۔

فیورٹ ہونے کے کچھ منفی اثرات بھی ہوتے ہیں خاص طور پر شائقین کی توقعات کا دبائو اکثر ٹیمیں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتا ہے، اس لیے یہ ٹیمیں اپنی صلاحیتوں پر نازاں ہونے کے ساتھ انجانے خدشات سے بھی دوچار ہیں۔ میگا ایونٹ میں شریک پاکستان کے علاوہ فیورٹ قرار پانے والی دیگر ٹیموں کی خاص باتیں کچھ اس طرح سے ہیں۔

سری لنکا
2009 کی رنر اپ سری لنکا کے لیے سب سے بڑا ایڈواٹیج ورلڈ کپ کا ان کے اپنے ملک میں انعقاد ہے، کھلاڑی ہوم کنڈیشنز سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کو بے چین ہیں، حال ہی میں کھیلی جانے والی پریمیئر لیگ سے تمام کھلاڑیوں کو مختصر ترین فارمیٹ کی شاندار پریکٹس حاصل ہوئی، بیٹنگ لائن کافی مضبوط اور اس میں کپتان مہیلا جے وردنے، تلکارتنے دلشان اور تین آئی سی سی ایوارڈ جیتنے والے کمارسنگاکارا موجود ہیں، اسی طرح بولنگ میں ان کو ایک مرتبہ پھر پراسرار بولر قرار پانے والے اجنتھا مینڈس اور یارکر ماسٹر لسیتھ مالنگا کی خدمات حاصل ہیں۔

بھارت
ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ میں مسلسل چوتھی مرتبہ بھارت کی قیادت مسٹرکول کے نام سے مشہور مہندرا سنگھ دھونی کے ہاتھوں میں ہے، انتہائی ٹھنڈا ذہن رکھنے والے دھونی بھارت کے بہترین قائد تصور کیے جاتے ہیں، صورتحال کتنی ہی گھمبیر کیوں نہ ہو وہ اکثر بروقت فیصلوں سے ہارے ہوئے میچ ٹیم کو جتواچکے ہیں۔

انتہائی بیدار ذہن کپتان ہونے کے ساتھ انتہائی چوکس وکٹ کیپر اور ہارڈ ہٹر بیٹسمین ہیں، دنیا کے خطرناک بولرز کے سامنے ان کا بیٹ چھکوں چوکوں سے باز نہیں رہتا۔ گذشتہ دو ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ ٹورنامنٹس سے انجری کے باعث غیرحاضر رہنے والے وریندر سہواگ ایک بار پھر ٹیم میں شامل ہوچکے ہیں۔ بھارت کی سب سے بڑی مضبوطی اس کی قابل بھروسہ بیٹنگ لائن ہے۔

جس میں دھونی اور سہواگ کے ساتھ گوتم گمبھیر، یوراج سنگھ ، ویرت کوہلی جیسے ہارڈ ہٹر موجود ہیں، یوراج کینسر کے کامیاب علاج کے بعد ٹیم میں واپس آئے ہیں، وہ گذشتہ برس کھیلے گئے ون ڈے ورلڈ کپ کے سب سے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے،بولنگ میں ٹیم کو تجربہ کار ہربھجن سنگھ اور عرفان پٹھان کا ساتھ حاصل ہے۔

جنوبی افریقہ
پروٹیز ٹیم کو ٹائٹل کے قریب پہنچ کر ہمت ہارنے کی وجہ سے ’’چوکرز‘‘ کہا جاتا ہے، ہر بار پروٹیز بڑے ایونٹس میں اس خطاب سے جان چھڑانے کا عزم لے کر میدان میں اترتے اور پھر اپنی اس عادت کا شکار ہوجاتے ہیں، اس مرتبہ کپتان ابراہم ڈی ویلیئرز نے بھی چوکر کے لیبل کو اتار پھینکنے اور ٹائٹل جیتنے کا یقین ظاہر کیا ہے۔ جنوبی افریقی ٹیم انتہائی متوازن ہے، خاص طور پر ٹاپ آرڈر میں ان فارم بیٹسمین ہاشم آملا کی موجودگی اور انتہائی فاسٹ اٹیک ان کے چانسز کو مضبوط بنا رہا ہے۔ جیک کیلس بھی آل رائونڈ پرفارمنس کیلیے بے چین ہیں۔

ویسٹ انڈیز
کافی عرصے بعد ویسٹ انڈین ٹیم کسی آئی سی سی ایونٹ میں فیورٹ کے طور پر میدان میں اتری ہے، مختصر ترین فارمیٹ کے اسپیشلسٹ کی موجودگی نے اسے دیگر ٹیموں سے منفرد بنا دیا،کپتانی انتہائی پُرسکون کرکٹر ڈیرن سیمی کے ہاتھوں میں ہے، بیٹنگ آرڈر میں ٹاپ پر آہنی دیوار کرس گیل کی موجودگی حریف بولرز کا دل دہلانے کیلیے کافی ہے، اسی طرح ٹیم کو آف اسپنر سنیل نارائن سے خاص طور پر توقعات وابستہ ہیں جو آئی پی ایل میں اپنی پراسرار بولنگ سے دنیا کے بڑے بڑے بیٹسمینوں کو اپنے سامنے پانی بھرنے پر مجبور کرچکے ہیں۔

انگلینڈ
انگلینڈ نے دوبرس قبل ویسٹ انڈیز میں آسٹریلیا کو شکست دے کر ٹوئنٹی 20 چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا مگر اب نہ تو اسے کپتان پال کولنگ ووڈ کا ساتھ حاصل ہے جنھوں نے ٹیم کی ٹائٹل تک کامیابی رہنمائی کی تھی، نہ ہی اسے آل رائونڈر کیون پیٹرسن کی خدمات حاصل ہیں جنھوں نے فتوحات میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے ایونٹ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ کولنگ ووڈ ریٹائر ہوچکے جبکہ پیٹرسن کو مختلف تنازعات کی وجہ سے انگلینڈ نے خود ہی ٹیم سے باہر کردیا ہے، ٹیم فاسٹ بولر اسٹورٹ براڈ کی قیادت میں ٹائٹل کی دفاعی مہم کا آغاز کرے گی۔

آسٹریلیا
ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں حکمرانی کرنے والے آسٹریلیا کیلیے سب سے بڑی شرمندگی کی بات یہ ہے کہ ٹوئنٹی 20 ورلڈ رینکنگ میں وہ نویں نمبر پر موجود ہے، بنگلہ دیشی جیسی ٹیم بھی ان سے آگے ہے۔

پاکستان سے سیریز کے ابتدائی دو میچز ہارنے کی وجہ سے کینگروز 10 ویں نمبر پر چلے گئے تھے مگر آخری میچ میں فتح سے آئرلینڈ سے آگے آنے کا موقع ملا۔ آسٹریلوی ٹیم انتہائی متوازن اور بیٹنگ آرڈر میں تجربہ کار مائیک ہسی کی موجودگی استحکام کا باعث بن رہی ہے، مچل اسٹارک، پیٹ کمنز اور کلنٹ میک کے پر مشتمل پیس اٹیک صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کو بیتاب ہے،کینگروز کو عمررسیدہ 41 سالہ اسپنر بریڈ ہوگ کا ساتھ بھی حاصل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔