ماں تو پھر ماں ہے

رئیس فاطمہ  ہفتہ 10 مئ 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آج ’’مدر ڈے‘‘ ہے۔ دنیا کی تمام ماؤں کا دن۔ ماں جو محبت کا نام ہے۔ یہ بھی شکر ہے کہ ہم مہذب اقوام کی بدولت بہت سے دن منا کر خود کو مہذب ثابت کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ جب کہ ہم تو بڑی کامیابی سے اور فخر سے زمانہ قبل از اسلام کی طرف گامزن ہیں۔ اور پولیو زدہ نسلیں پیدا کرنے میں، جہالت اور منافقت میں ہم دنیا میں اول نمبر ہیں۔ ہم کبھی ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں، کبھی خواتین کا عالمی دن اور کبھی ماں اور باپ کو بھی ان یوروپین اقوام کی بدولت یاد کرلیتے ہیں۔ لیکن یہ سب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پہ ہی نظر آتا ہے۔ یکم مئی ’’مزدوروں کا عالمی دن‘‘ تقریروں اور سیاسی پارٹیوں کے جلسے جلوسوں کی نذر ہو جاتا ہے۔

پاکستان کے محنت کش کے لیے اس دن سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ این جی اوز چلانے والے اور مزدوروں کے نام پر نعرے بازی کرنے والوں کی چاندی ضرور ہو جاتی ہے۔ اسی طرح آج کے دن کو لے لیجیے۔ کیا اس دن کی اہمیت سے متاثر ہو کر کوئی بچھڑا بیٹا اپنی اس ماں کو یاد کرے گا جس نے اسے جنم دیا۔ پروان چڑھایا۔ کامیاب انسان بنایا اور پھر جیسے آسیبی قوت، کوئی کالی آندھی بیٹے کو ماں سے جدا کر کے لے گئی؟ چلیے اس مدر ڈے پر ایک کہانی سناتی ہوں۔

ایک نہایت معزز گھرانے میں ایک بچہ جنم لیتا ہے۔ والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ مہذب اور امن پسند، ماں نے بیٹے کی پرورش ان ہی خطوط پر کی جن پر خود اس کی ہوئی تھی کہ لوگوں سے محبت کرو اور نفرتوں کا خاتمہ کرو۔ خدا نے انسان کو زمین پر فساد برپا کرنے کے لیے نہیں بھیجا اسی لیے اسے زمین پر اپنا نائب مقرر کیا ہے۔ بچہ ذہین، ہونہار اور سادہ دل تھا۔ اس نے اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انسانی اور اخلاقی اقدار کو بھی اپنے وجود کا حصہ بنا لیا۔ ہر امتحان میں A+ حاصل کیا۔

گولڈ میڈل کا حقدار بھی ٹھہرا۔ اس کی ماں نے بیٹے کی تربیت اخلاقی کہانیاں سنا کر کی۔ بڑوں کا ادب، کمزوروں اور ناداروں سے حسن سلوک اس کی گھٹی میں پڑا تھا۔ خاندان کے لوگ اس بچے پہ رشک کرتے تھے۔ لیکن زیادہ تر قریبی عزیز اس خاندان خصوصاً ماں سے حسد اور جلن کا شکار تھے۔ اس حسد اور رقابت کا شکار بچہ بھی ہوتا تھا، لیکن جب وہ اپنے کزن اور دیگر رشتے داروں کے تکلیف دہ سلوک کا اظہار ماں باپ سے کرتا تو دونوں اسے سمجھاتے۔ ماں کہتی کہ تم ان کے منفی رویوں پہ توجہ مت دو بلکہ صرف اس شعر کو اپنا نصب العین بنا لو:

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

والدین اور بیٹا تینوں موسیقی کے دلدادہ تھے۔ ایک دن ریڈیو پر ایک گلوکار کوئی گیت گا رہا تھا جس میں وہ قصہ بیان کیا گیا تھا جس میں ایک نوجوان اپنی محبوبہ سے شادی کی درخواست کرتا ہے، تو وہ بڑی منتوں کے بعد مان تو جاتی ہے، لیکن ایک شرط رکھتی ہے کہ وہ نوجوان سے اس وقت شادی کرے گی جب وہ اپنی ماں کا کلیجہ نکال کر لائے گا۔ کئی دن تک جب وہ عورت اپنی ضد پر اڑی رہی تو اس جدائی نے نوجوان کی آتش شوق کو مزید بھڑکا دیا۔ اس نے بازار سے خنجر خریدا اور جا کر چپ چاپ سوتی ہوئی ماں کے کلیجے میں گھونپ دیا اور ماں کا دل نوک خنجر سے نکال کر محبوبہ کے گھر چلا۔

تیز قدموں سے خوشی سے اچھلتا چلا جا رہا تھا کہ اب اس کی محبوبہ اور اس کے درمیان دور رہنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ لیکن ناگہانی ایک پتھر راستے میں آ گیا۔ نوجوان جس کے ہاتھوں میں اس کی ماں کا دل تھا جو وہ محبوبہ کے قدموں میں ڈال کر گوہر مقصود حاصل کرنا چاہتا تھا، ٹھوکر لگنے سے ماں کا دل زمین پر گر گیا۔ بیٹے نے لپک کر دل اٹھانا چاہا تو آواز آئی ’’بیٹا! کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟‘‘ گیت ختم ہوا تو ہونہار بیٹا ہنس پڑا اور ماں سے کہنے لگا ’’امی! کہیں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی محبوبہ کے کہنے پر اپنی ہی ماں کا دل نکال لے۔ یہ شاعر بھی ناں، بہت مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ ناقابل یقین بات ہے، ایسا تو کسی بھی طرح ممکن نہیں‘‘۔

ماں نے پیار سے بیٹے کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور کہا۔ ’’بے شک یہ شاعرانہ مبالغہ ہے لیکن اس میں جو بلاغت ہے وہ تم ابھی نہیں سمجھ سکتے۔ نوک خنجر سے دل نکالنا دراصل اس تکلیف دہ رویے کی طرف اشارہ ہے جو اکلوتے بیٹوں کی جدائی میں بد نصیب مائیں لمحہ لمحہ سہتی ہیں۔ اور پھر بھی بیٹے کی زندگی، صحت اور ترقی کی دعا کرتی ہیں۔‘‘

پانچ سال بعد جب وہ ہونہار بیٹا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ماں باپ سے جدا ہوا تو اس ماں نے محسوس کیا کہ کسی نے اس کے کلیجے میں بھی خنجر چبھو دیا ہو۔ ایک سال بعد عید سے تین دن قبل بیٹے نے ماں کو فون کر کے گھر آنے کی اطلاع دی۔ اپنی پسند کے کھانوں کی لسٹ بتائی۔ اگلے دن وہ والدین کے ساتھ تھا۔ روزہ کھلنے سے پہلے اس نے ایک چینل دیکھتے ہوئے، اچانک ماں کو آواز دی۔ ماں جو بیٹے کے لیے افطاری بنا رہی تھی، بیسن لگے ہاتھوں سمیت دوڑی دوڑی آئی اور پوچھا کیا ہوا؟

بیٹے نے پیار سے ماں کو اپنے ساتھ بٹھایا اور ٹی وی توجہ سے دیکھنے کو کہا۔ خود اٹھ کر ٹشو پیپر سے ماں کے ہاتھ صاف کیے اور ساتھ بیٹھ گیا۔ نجی چینل پہ وہ بدنصیب والدین اپنی کہانی بیان کر رہے تھے جنھیں ان کے بیٹے بیوی کے دباؤ میں آ کر کہیں چھوڑ گئے تھے۔ ان ہی بے سہارا اور تنہا عورتوں میں ایک ماں بھی تھی جسے اس کا اکلوتا بیٹا بیوی کی خوشنودی کی خاطر ایک پناہ گاہ میں چھوڑ گیا تھا۔ وجہ خاتون نے یہ بتائی کہ اسے اپنے بچوں کے لیے علیحدہ کمرے کی ضرورت تھی۔ بہو چاہتی تھی کہ ساس کمرہ خالی کر دے۔ سسر تو پہلے ہی دنیا سے اٹھ چکے تھے۔ پروگرام کے اینکر پرسن نے بڑی بی سے کچھ اور جاننا چاہا تو انھوں نے روتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں کچھ نہیں۔ میرا بیٹا بہت نیک اور اچھا ہے۔ وہ کیا کرتا۔ میں کتنے دن اور جی لوں گی۔ آخر کو تو میرے کمرے میں میرے پوتے ہی تو رہتے ہیں۔ خدا انھیں سلامت رکھے‘‘۔

اینکر پرسن نے پتہ لے کر بیٹے کا گھر ڈھونڈا، وہاں جا کر معلومات کیں تو بہو نے کہا کہ ساس مر چکی ہیں، بیٹے نے بھی تائید کی۔ پھر اس میزبان نے دونوں میاں بیوی کو اپنے پروگرام میں آنے کی دعوت دی۔ وجہ یہ بتائی کہ یہ پروگرام ان کے لیے ہے جن کے والدین انتقال کر چکے ہوں۔ ٹی وی چینل کی بات سن کر بہو بیگم فوراً تیار ہو کر میاں کے ساتھ پروگرام میں پہنچ گئیں۔ اسی اینکر نے بیٹے اور بہو سے دوبارہ کہلوایا کہ ماں مر چکی ہے۔ اسی دم پردہ ہٹا اور وہی خاتون سامنے تھیں۔ بیٹا اور بہو دونوں ہکا بکا ہونقوں کی طرح بڑی بی کو دیکھنے لگے۔ جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ تب اینکر پرسن نے ان سے پوچھا ’’آپ کے بیٹے اور بہو نے جو کہا وہ آپ نے اپنے کانوں سے سنا۔ اب آپ کیا کہتی ہیں؟‘‘ ماں نے کہا خدا اسے خوش رکھے اور آنسو پونچھ لیے۔

تب ماں نے اپنے پیارے بیٹے سے کہا ’’اب تمہیں یاد آیا کہ ماں کے دل نے بیٹے سے کیوں پوچھا تھا کہ ’’بیٹا! کہیں چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ اس ماں کا دل بیٹے اور بہو نے اپنے رویوں اور توہین آمیز جملوں سے زخمی کیا مگر ماں تو ماں ہے دعائیں ہی دے گی۔

بیٹے نے پھر بات ہنسی میں اڑادی ’’ارے یار امی! ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے ماں باپ کو ایک قانونی رشتے پہ قربان کر دے۔ بھلا کوئی اپنی ماں اپنے باپ کو بھی چھوڑ سکتا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ میں تو آپ لوگوں کے بغیر زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں کبھی نہیں بدل سکتا، بلکہ میں تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا‘‘۔ ماں ہنسی اور بولی خدا کرے ایسا ہی ہو۔ لیکن ایک کہاوت ہے کہ ’’نائی نائی بال کتنے؟ ججمان جی ابھی آگے آتے ہیں‘‘

اور پھر کچھ عرصے بعد جب بیٹے کے سر پہ سہرا بندھا تو ماں کی زندگی کے تمام چراغ بجھ گئے۔ صرف اندھیرے، تنہائی کا آسیب اس کے وجود کا حصہ بن گیا اور ایک انتظار۔

سو گئی راستہ تک تک کر ہر اک راہ گزر

اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ

گل کرو شمعیں‘ بڑھا دو مے و مینا ایاغ

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو

اب یہاں کوئی نہیں‘ کوئی نہیں آئے گا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔