اب تو حد ہوگئی

مقتدا منصور  پير 12 مئ 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ملتان میں حقوق انسانی کے سرگرم کارکن اور معروف وکیل راشد رحمان کے قتل نے پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت، جذباتیت اور دیوانگی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ یہ قتل کئی دہائیوں سے پروان چڑھنے والے ان رویوں اور رجحانات کا شاخسانہ ہیں، جن کے بارے میں ریاست اور ریاستی اداروں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی اور بیشتر مواقع پر ان تصورات کی پشت پناہی بھی کی۔

ان رویوں کے نتیجے میں شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی عفریت نے ملک میں مذہبی اقلیتوں اور مختلف مسالک کے ماننے والوں کے لیے مشکل حالات پیدا کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ ان وکلا، قلمکاروں، صحافیوں اور متوشش شہریوں کی زندگیاں بھی مسلسل خطرات میں گھر گئیں، جو شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں یا متاثرہ افراد کی دادرسی کرتے ہیں، یا وہ جو خلوصِ نیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کو اپنی عبادت گاہوں میں جانے اور اپنے عقائد و ثقافت کے مطابق آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔

اب دوسری طرف آئیے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے انتہائی پوش علاقے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی میں محض دو برس کے اندر دولت، طاقت اور فیوڈل کلچر کے نشے میں بدمست نوجوانوں نے اپنے ہی جیسے مراعات یافتہ تین گھرانوں کے چراغ گل کر دیے۔ حالیہ واقعے میں ایک اعلیٰ پولیس افسر کے فرزند نے بااثر فیوڈل کے فرزند کو پولیس اہلکاروں کی مدد سے پیوند خاک کر دیا۔ سابقہ دو واقعات کے ملزمان اپنی دولت اور اثر و نفوذ کے بل بوتے پر انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ گمان یہ ہے کہ آنے والے چند ماہ بعد پولیس افسر کے بیٹے کے ماتھے سے قتل کا یہ داغ دھل جائے گا اور وہ بھی دیگر مراعات یافتہ ملزموں کی طرح باعزت شہری بن جائے گا۔

غور طلب پہلو یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟ صورتحال کی ابتری اس مقام تک کیوں جا پہنچی ہے کہ کہیں عقیدے اور فرقہ کی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ کہیںمذہب اور عقیدے کے نام پر درجنوں افراد کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ کہیں جرائم پیشہ افراد کے حوصلے اتنے بلند ہو گئے ہیں کہ وہ معمولی سی رقم یا دو ٹکے کی شے کی خاطر ایک انسان کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ کہیں دولت کے نشے میں مخمور با اثر افراد کی بگڑی اولاد اپنی انا کی تسکین اور اپنی طاقت کے اظہار میں لوگوں کی جانیں لے رہی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وطن عزیز میں نہ کوئی قانون و ضابطہ ہے اور نہ کہیں حکومت ہے جو عوام کو تحفظ فراہم کر سکے۔ بلکہ فکری تشنج میں مبتلا ریاست اور اس کا اقتدار اعلیٰ یہ تمام کھیل بے بسی کے عالم میں ہوتا دیکھنے پر مجبور ہے یا مجبور بنا دیا گیا ہے۔

پھر عرض ہے کہ برٹش انڈیا نے جاتے ہوئے مختلف قوانین کے سیٹ اور گورننس کا پورا نظام ورثہ میں دیا تھا۔ اگر اس پر دیانتداری کے ساتھ عمل کر لیا جاتا تو ملک حکمرانی کے اس بحران کا شکار نہ ہوتا، جس میں کئی دہائیوں سے مبتلا چلا آ رہا ہے۔ دراصل نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ ذہنیت کی حامل قیادت نے مختلف حیلوں بہانوں سے فرسودہ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے سازشوں کا جال پھیلایا اور جمہوریت کے پودے کو اس کے ابتدائی ایام ہی میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کھیل کھیلا۔

یہی وہ ذہنیت تھی، جس نے ابتدائی نو برس تک آئین سازی کے عمل کو کھٹائی میں ڈالے رکھا اور سابقہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی حکومت کو چلنے نہیں دیا۔ فروری 1959ء کے عام انتخابات سے چار ماہ قبل ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے جمہوری عمل کو ہمیشہ کے لیے پا بہ زنجیر کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ مائنڈ سیٹ تھا جس نے 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہونے والی عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی میں روڑے اٹکا کر بنگلہ دیش بننے کی راہ ہموار کی۔

یہی وہ سوچ تھی، جس نے باقی ماندہ ملک کو ایک حقیقی وفاقی جمہوریہ نہیں بننے دیا۔ حالانکہ 1973ء کا آئین ہر لحاظ سے وفاقیت اور پارلیمانی طرز حکمرانی کا عکاس تھا اور آج بھی ہے۔ اسی سوچ نے بھٹو جیسے روشن خیال رہنما کے خلاف PNA کی تحریک منظم کر کے جنرل ضیاء کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی۔ اسی سوچ کے پروردہ عناصر نے عوام کی شدید ناپسندیدگی کے باوجود ضیاء کو حکمرانی کا جواز فراہم کیا اور افغانستان کے معاملے میں ٹانگ اڑانے پر اکسایا۔ اسی ذہنیت کے حامل لوگوں نے امریکی ڈالروں کے عوض امریکی مفاد کی جنگ کو جہاد قرار دے کر پاکستانی عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کیا اور ملک میں منشیات اور آتشیں اسلحہ کی فراوانی کو عام کیا۔

اپنے اہداف کے حصول کی خاطر پاکستان کا سیاسی و سماجی Fabric  دیدہ و دانستہ بگاڑا گیا۔ایک طرف اس ملک میں جمہوری نظم حکمرانی کی راہ میں ہمیشہ کانٹے بچھائے گئے اور جمہوریت اور جمہوری اداروں کو پنپنے نہیں دیا گیا، دوسری طرف نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرت کو قائم رکھنے کی سازشیں کی گئیں۔ عوام کو جاگیردارانہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنے کے لیے کبھی صنعتکاری پر قدغن عائد کیے گئے تو کبھی مذہبی شقوں کا سہارا لے کر زرعی اصلاحات کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح تعلیم اور سماجی ترقی کے شعبے کو تباہ کر کے فروغ علم اور سماجی شعور کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔

فوجی آمریتوں کی غلط حکمت عملیاں اپنی جگہ، سیاسی جماعتوں کا کردار بھی کچھ کم نہیں رہا ہے۔ وہ سیاسی عمل کو استحکام دینے اور نظم حکمرانی کو متعلقہ فورمز کے ذریعے بہتر بنانے کے بجائے نادیدہ قوتوں کے اشارے پر منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے پر آمادہ رہتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں خود ان کے اپنے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتا ہے اور انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کون سی سازش خود ان کی اپنی آستینوں میں پل رہی ہے۔آج ہم اس جگہ جا پہنچے ہیں، جہاں کوئی وکیل کسی ایسے ملزم کی دادرسی کے لیے اس کی وکالت نہیں کر سکتا جس پر کسی متنازع قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگا ہو۔ کوئی کالم نگار یا قلمکار کسی مذہبی اقلیت، فرقہ یا مسلک کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر قلم نہیں اٹھا سکتا، کیونکہ اس کی تحریر اس کے لیے موت کا پروانہ بن سکتی ہے۔

انسانی حقوق کا کوئی کارکن کسی مظلوم کا سہارا نہیں بن سکتا۔ حد تو یہ ہو گئی ہے کہ ناموں کو فرقوں اور مسالک کی شناخت کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ حالانکہ 20 سے 30 برس قبل تک لوگ برگزیدہ شخصیات سے عقیدت کی بنا پر اپنے بچوں کے نام ان کے ناموں پر رکھتے تھے، اس میں مسلک اور فرقہ وارانہ تقسیم کا کوئی تصور تک نہیں ہوتا تھا، مگر اب تو نام بھی موت کی علامت بن گئے ہیں۔ ناموں اور ان کے لاحقوں اور سابقوں کے باعث کئی نوجوان کسی مخصوص مسلک سے وابستگی کے شبہے میں مار دیے گئے۔

ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کی تکفیر کے علاوہ حب الوطنی پر انگشت نمائی ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ وہ افراد جنھیں نہ دین کا علم ہے اور نہ حب الوطنی کے مفہوم سے آگاہ ہیں، دھڑلے سے فتوے جاری کر رہے ہیں۔ جب کہ ریاست اور ریاست کے ادارے منہ میں گھنگنیاں ڈالے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جب معاشرہ اس حد تک تنگ نظری اور فکری بے راہ روی کا شکار ہو جائے تو پھر اس کے قائم رہنے کے امکان کم سے کمتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سنتے تھے کہ سرسید کو کرسٹان کا لقب دیا گیا تھا۔ علامہ اقبال منکر دین قرار پائے تھے۔ بابائے وطن کافر اعظم مشہور کیے گئے تھے۔

فیضؔ اور ساری زندگی غربت میں گزارنے والے حبیب جالبؔ کو روس اور بھارت کا ایجنٹ قرار دیا جاتا تھا۔ تو یہ سب کچھ فسانہ عجائب لگتا تھا، مگر اب اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن رہے ہیں کہ کفر اور غداری کے تمغے کس فراوانی سے تقسیم ہو رہے ہیں۔ جن عناصر نے راشد رحمان کو ختم کیا، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اس فکر اور اس نظریے کو ختم کر دیا، جس پر وہ تمام زندگی کاربند رہا۔ یاد رہے کہ نظریات کبھی فنا نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ لوگوں کے سینوں میں زندہ رہتے ہیں اور جب پوری توانائی اور شدت کے ساتھ منظر عام پر آتے ہیں تو غیر منطقی فرسودہ تصورات کو جائے پناہ تک نہیں ملتی۔

آج کی اس تبدیل ہوتی دنیا میں اگر دوام ہے تو فکری کثریت کو ہے۔ اگر قبولیت ہے تو انسانوں کی بلاتخصیص رنگ، نسل، عقیدہ اور لسان برابری کے تصور کو ہے۔ جبر کے ذریعے انھی افکار کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو اپنا منطقی جواز کھو بیٹھے ہوں اور ان میں دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی گنجائش ختم ہو چکی ہو۔ آج جن عناصر نے ایک راشد رحمان کو راہ سے ہٹایا ہے، انھیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں نہ جانے کتنے راشد رحمان جنم لے کر مظلوموں کی داد رسی کے لیے سینہ سپر ہو جائیں گے۔ کسی نے کیا درست کہا ہے کہ اب تو واقعی حد ہو گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔