قتل و غارت گری پر مائل مناسب تربیت سے محروم نوجوان

سید بابر علی  منگل 13 مئ 2014
عیش و عشرت میں پلنے والے، کیا دولت کا نشہ انہیں تباہ کر رہا ہے؟  فوٹو : فائل

عیش و عشرت میں پلنے والے، کیا دولت کا نشہ انہیں تباہ کر رہا ہے؟ فوٹو : فائل

ابھی شاہ زیب اور حمزہ کے قتل کا واقعہ ذہن سے محو نہیں ہوا تھا کہ ایک اور 19 سالہ نوجوان جھوٹی انا اور ضد کی بھینٹ چڑھ گیا، لیکن اس بار قاتل ایک سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) کا بیٹا، اور مقتول ایک بااثر شخصیت کا جگر گوشہ ہے، جب کہ شا ہ زیب قتل کیس میں معاملہ اس کے متضاد تھا۔

اُس میں مقتول ایک ڈی ایس پی کا بیٹا اور قاتل طاقت کے نشے میں چور ایک اثر و رسوخ رکھنے والے صنعت کار کا بیٹا تھا۔ شہر کے پوش اور ہر قسم کے ہنگاموں سے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے ڈیفنس میں 8 اور 9 مئی کی شب فائرنگ کی تڑتڑاہٹ سنائی دی اور لمحوں میں ایک نوجوان اپنی ہی دوست کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔

علاقہ مکینوں کے مطابق سلمان ابڑو اور مقتول سلیمان لاشاری کے گھر پر تعینات گارڈز کے مابین ہونے والی اس دو بدو لڑائی نے علاقے کو میدان جنگ میں بدل دیا تھا۔ ایک جانب اختیارات اور طاقت کا زعم تھا تو دوسری جانب دولت کا گھمنڈ۔ اس لڑائی کا اختتام دو لوگوں کی موت اور زخمیوں پر ہوا جس میں سے ایک زخمی ملزم سلمان ابڑو کلفٹن کے ایک نجی ہسپتال میں زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے: ’’اس لڑائی میں ایک طرف پولیس ٹریننگ کالج سکرنڈ کے پرنسپل ایس پی غلام سرور ابڑو کا بیٹا سلمان ابڑو تھا تو دوسری طرف سندھ کے بڑے جاگیرداروں میں سے ایک سردار غلام مصطفی لاشاری کا بیٹا سلیمان لاشاری۔‘‘

پولیس کے مطابق اس واقعے سے چند روز قبل اے لیول کے طالب علم مقتول سلیمان لاشاری کی کار ریس کے دوران اپنے دوست سلیمان ابڑو سے کسی بات پر بحث ہوئی تھی، جس پر سلمان ابڑو سخت مشتعل ہوگیا تھا اور وہ انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ جانے کب اس نے اپنے دوست کو اختلاف رائے کی سزا دینے کا منصوبہ ترتیب دیا اور پھر اس پر عمل کر ڈالا۔

ڈیفنس فیز 5 کے علاقے خیابان شمشیر پر واقع سلیمان کے گھر پر اپنے محافظوں کے ساتھ پہنچنے والے سلمان ابڑو کی اندھا دھند فائرنگ سے سلیمان لاشاری سر پر گولی لگنے کے نتیجے میں موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ فائرنگ کی آواز پر سلیمان لاشاری کے نجی محافظ نے جوابی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں سلمان ابڑو کا ایک محافظ اپنی جان سے گیا۔ اس کی شناخت بعدازاں پولیس اہل کار ظہیر کے نام سے ہوئی، جب کہ سلمان ابڑو ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگیا۔ اطلاع ملنے پر پولیس نے کلفٹن کے نجی اسپتال پر چھاپا مارا اور زخمی ملزم سلمان ابڑو کو حراست میں لے لیا۔ درخشاں پولیس نے اس سلسلے میں مزید کارروائی کرتے ہوئے چار پولیس اہل کاروں راشد، عمران، مقبول اور یاسین کو معطل کرکے گرفتار کرلیا، جب کہ ایک اہل کار تاحال مفرور ہے۔ خبروں کے مطابق ان پولیس اہل کاروں کو ایس پی غلام سرور ابڑو نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے اہل خانہ کی حفاظت کے لیے کراچی میں تعینات کر رکھا تھا۔

قتل کی اس اندوہ ناک واردات کے بعد آئی جی سندھ نے اختیارات سے تجاوز کرنے پر ایس پی سکرنڈ غلام سرور ابڑو کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کے لیے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ آئی جی سندھ نے ہلاک ہونے والے پولیس اہل کار محمد ظہیر اور دیگر کو ملزم قرار دے دیا ہے۔ پولیس ذرایع کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے دوران یہ پولیس اہل کار وردی میں نہیں تھے، لہٰذا مارے جانے والے ملزم اور پولیس اہل کار محمد ظہیر کو محکمے کے فنڈز سے بیس لاکھ روپے نہیں دیے جائیں گے، جو ڈیوٹی کے دوران کسی حادثے کا شکار ہونے پر ادا کیے جاتے ہیں۔

پولیس نے جائے وقوعہ سے ویگو جیپ، سرکاری ایس ایم جی کے26، نائن ایم ایم کے 8 اور رپیٹر کے دو خول بھی اپنی تحویل میں لیے ہیں۔ پولیس نے مقتول کے بھائی ذیشان مصطفٰی کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا ہے۔

یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ عیش وعشرت میں پلنے والے نوجوان، جو اپنے باپ کی دولت اور اثرورسوخ کی بنا پر طاقت کے نشے میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں، ذرا سی بات پر کسی کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ زورآور باپ کی دولت اور پوزیشن انھیں ہر سزا سے بچالے گی، چناں چہ وہ قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس طبقے کے نوجوانوں کی یہی سوچ ہے جس کے باعث ہمارے ہاں ایسے واقعات تواتر سے رونما ہورہے ہیں۔ ڈیفنس ہی کے علاقے میں گذشتہ سال مبینہ طور پر لڑکی کو چھیڑنے سے منع کرنے پر ایک بااثر شخصیت کے بیٹے کے کہنے پر اُس کے گارڈ نے نوجوان طالب علم حمزہ احمد کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا، جب کہ 2012 میں ڈیفنس ہی میں سندھ کی ایک بااثر شخصیت کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے شاہ زیب نامی نوجوان کو سرعام فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ یہ معاملہ شاہ زیب کی بہن کو مبینہ طور پر تنگ کرنے سے شروع ہوا تھا۔

یہ وہ واقعات ہیں جو میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے، لیکن اس سے پہلے بھی اس نوعیت کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

قتل کی ان تمام وارداتوں میں ایک چیز یکساں ہے کہ تینوں واقعات میں قاتل بااثر گھرانوں کے چشم و چراغ اور شہر کے بہترین تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھے۔ لیکن قصور اُن کا نہیں، اصل قصور تو اُنہیں میسر طاقت اور دولت کے نشے کا ہے۔ اعلیٰ تعلیم بھی ان نوجوانوں کے ذہن سے طاقت کا گھمنڈ ختم نہیں کر پائی اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ دوسروں پر حکم رانی اور اپنے مزارعوں کو پیروں تلے روندے والے طاقت کے نشے میں دُھت نوجوان خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ اُن کے لیے قانون اُن کے الفاظ ہیں۔ یہ نوجوان ہمارے اس جاگیردارانہ اور قبائلی سماج کی پیداوار ہیں، جہاں حکم عدولی یا اختلاف رائے پر لمحے بھر میں کسی کو بھوکے کتوں کے سامنے ڈال دیا جاتا ہے اور انتقام لینے کے لیے حوا کی بیٹی کو سرعام برہنہ کردیا جاتا ہے۔

جاگیردارانہ اور قبائلی پس منظر کے حامل بااثر خاندانوں اور ان کے نوجوان کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی اپنا چلن اپنائے رکھتے ہیں۔ دولت کے نشے میں چور ان افراد کے بہت سے کالے کرتوت اب بھی ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں، کیوں کہ بہت سے مظلوم اِن زمینی خداؤں سے ٹکر لینے کی ہمت نہیں رکھتے اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں نجی اور سرکاری محافظوں کے ساتھ گھومنے والے ان زورآوروں کے لیے کسی بھی انسان کو قتل کردینا کسی چیونٹی کو مسل دینے کے برابر ہے، کیوں کہ نہ انہیں قانون کا خوف ہے اور نہ کسی ماں کے دکھ کا احساس۔

اگر ہم گذشتہ دو سال میں ہونے والے اس نوعیت کے واقعات پر نظر ڈالیں تو 2012 میں شاہ زیب اور 2013 میں حمزہ قتل کیس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جو سوشل میڈیا یا سول سوسائٹی کی جدو جہد کی وجہ سے منظر عام پر آگئے، لیکن بااثر خاندانوں کے ان نوجوانوں کے ظلم کی کئی کہانیاں ان کہی ہیں۔ عوامی دباؤ اور سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے باوجود شاہ زیب اور حمزہ کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا نہیں مل سکی۔ ان ملزمان کو اگر عبرت ناک سزا دے دی جاتی تو شاید حمزہ یا سلیمان لاشاری کی ماؤں کی گود نہیں اُجڑتی۔ ملزمان کو قرار واقعی سزا نہ سے شاہ رخ جتوئی، شعیب نوید اور سلمان ابڑو جیسے نوجوانوں کے حوصلے اور بلند ہوگئے ہیں۔

گوکہ سلیمان لاشاری کے والد سردارغلام مصطفیٰ لاشاری نے چیف جسٹس سے اپنے بیٹے کے قتل کا ازخود نوٹس لے کر ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوانے کا مطالبہ کردیا ہے اور شاید انھیں انصاف مل جائے، لیکن اگر آنے والے وقت میں غریب اور متوسط طبقے کے افراد ایسے نوجوانوں کے ظلم کا شکار ہوئے تو کیا اپنی مجبوریوں اور قانون کی بے چارگی کے باعث وہ انصاف پاسکیں گے؟ اس سوال کا جواب ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے۔

٭سلمان ابڑو کا پس منظر
ڈیفنس میں اپنے ہی دوست کو قتل کرنے والا ایس پی سکرنڈ کا بیٹا سلمان ابڑو نجی اور سرکاری گارڈز کی پوری ’بٹالین‘ ساتھ لے کر چلتا تھا۔ سوشل میڈیا پر جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس سلمان ابڑو کی تصاویر اِس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ یہ سب کرنا اس کے لیے محض تفریح اور ہتھیار کسی کھلونے کی طرح ہیں۔

یہ صرف دو نوجوانوں کا جھگڑا نہیں بلکہ دیہاتی علاقوں میں پیسے، دھونس، دھمکی اور طاقت کے بل پر راج کرنے کا نشہ تھا، اور اسی نشے میں چور ہوکر اُس نے کراچی کے ڈیفنس، کلفٹن جیسے پوش علاقوں کو بھی ذاتی جاگیر سمجھ لیا۔ سلمان ابڑو باپ کی وردی کی طاقت پر خود کو کسی انڈر ورلڈ ڈان سے کم نہیں سمجھتا تھا۔

٭شاہ زیب قتل کیس
ڈی ایس پی اورنگزیب کا نوجوان بیٹا شاہ زیب اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ شاہ زیب کا قصور صرف اتنا تھا کہ اُس نے اپنی بہن پر نازیبا فقرے کسنے والے ’’بااثر‘‘ افراد کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ وقتی طور پر تو مفاہمت ہوگئی تھی لیکن دولت اور طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ملزمان نے 25 دسمبر 2012 کو ڈیفنس کے ہی علاقے میں شاہ زیب کو موت سے ہم کنار کردیا۔ دیدہ دلیری سے بھرے مجمع میں شاہ زیب کو قتل کی دھمکی دینے والے ملزمان شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور اور دیگر دو افراد نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ بھی پہنا دیا۔

قتل کے بعد شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہو گیا۔ گو کہ نوجوان شاہ زیب پولیس افسر کا بیٹا تھا، مگر پولیس نے ابتدا میں قتل میں ملوث با اثر شخصیات کو گرفتار کرنے سے کرنے سے گریز کیا، لیکن سول سوسائٹی کا احتجاج اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر عوام، خاص طور پر نوجوانوں نے شاہ زیب کے قتل کی پُرزور مذمت کی اور قاتلوں کی گرفتاری کے لیے تحریک چلائی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انصاف کے حصول کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال نہایت کارگر ثابت ہوا، جس ملک میں مقدمات کے فیصلوں کے لیے کئی کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ وہاں شدید عوامی دباؤ اور سوشل میڈیا کے فعال کردار کی وجہ سے اس مقدمے کا فیصلہ صرف چھے ماہ کی مدت میں سنادیا گیا۔

اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس کیس کا ازخود نوٹس لیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے شاہ رخ جتوئی کو دبئی سے گرفتار کرکے پاکستان واپس لایا گیا۔ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے مرکزی ملزمان بیس سالہ شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو موت جب کہ سراج تالپور کے بھائی سجاد تالپور اور ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری پر عمر قید کی فرد جرم عاید کی تھی۔ لیکن 2013 اسلام میں موجود قصاص کے قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جتوئی قبیلے کے ایک اہم فرد نے دونوں خاندانوں کے درمیان ’’صلح‘‘ کروائی اور دیت کی مد میں مقتول کے خاندان کو مبینہ طور پر بھاری رقم ادا کی گئی۔

صلح نامے کے بعد مقتول شاہ زیب کے اہل خانہ نے عدالت میں ملزمان کو معاف کرنے کے لیے بیان جمع کروایا۔ پیسے کے بل پر سزائے موت سے بچنے والے مجرموں نے احاطۂ عدالت میں مسکراتے ہوئے فتح کا نشان بنایا۔ قصاص کے قانون کے اس طرح استعمال پر چیف جسٹس افتخار چودھری نے برہمی کا اظہار بھی کیا۔

یاد رہے کہ مقتول شاہ زیب کے ورثا کی جانب سے معاف کیے جانے کے باوجود شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھی ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکا ہے جس کی ایک وجہ اس مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کا شامل ہونا بھی ہے۔

انسداد دہشت گردی کی دفعات کے خلاف مقدمے کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت چار ملزمان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ یہ قتل ذاتی جھگڑے کے نتیجے میں ہوا، اس لیے یہ انسدادِ دہشت گردی کے دائرۂ کار میں نہیں آتا۔ تاہم عدالت نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ قاتلوں کو معاف کرنے پر شاہ زیب کے ورثا کو سوشل میڈیا پر اور سول سوسائٹی کی جانب سے خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اس کیس کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے،’’مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت دو ملزمان کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت سزائے موت دی ہے۔ دفعہ 302 کے تحت سنائی جانے والی سزا ورثا قصاص و دیت کے تحت یا فی سبیل اﷲ معاف کر سکتے ہیں لیکن انسداد دہشت گردی ایکٹ کی سیکشن سات کے تحت سنائی جانے والی سزا معاف نہیں ہو سکتی۔ ’’انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت دی جانے والی سزا کا مطلب ہے کہ ملزمان نے ایسا جرم کیا ہے جس سے معاشرے یا عام لوگوں میں عدم تحفظ پھیلا ہے، اور اس کے تحت دی جانے والی سزا پر ورثا سمجھوتا نہیں کر سکتے ہیں اور صرف عدالت ہی اپیل پر سزا ختم کر سکتی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ شاہ زیب کے ورثاء کی جانب سے معاف کرنے باوجود ملزمان اب تک رہا نہیں ہوسکے ہیں۔

اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے شاہ زیب قتل سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے موقع پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر نے ملزم کو بیرون ملک فرار کروانے میں پی آئی اے کے پروٹوکول اسٹاف کے ملوث ہونے کا الزام عاید کیا تھا۔

اس کیس کے حوالے سے اپنے کمنٹس میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا تھا،’’اگر کسی عام شخص سے ایسا جرم سرزد ہوتا تو اسے فوری طور پر گرفتار کرلیا جاتا، لیکن یہ جُرم ایک بااثر شخصیت کے بیٹے نے کیا ہے، اس لیے متعلقہ حکام لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں۔‘‘

مقتول نوجوان شاہ زیب کی والدہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا،’’ہم نے یہ جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے کی ہے۔‘‘

تاہم صلح کے بعد مقتول کے ورثا نے مجرموں کے اہل خانہ سے قصاص اور دیت کی مد میں رقم لینے کے الزامات کی تردید کی تھی۔

٭حمزہ قتل کیس
27 مارچ 2013 کو او لیول کے طالب علم 16 سالہ نوجوان حمزہ کو درخشاں پولیس اسٹیشن کی حدود میں ایک ریسٹورینٹ کے باہر اُس وقت قتل کردیا گیا جب اُس (مقتول) نے ایک بااثر شخصیت کے طاقت کے نشے میں چُور بیٹے شعیب نوید کو اپنی دوست (ف) کو چھیڑنے سے منع کیا۔ حمزہ کی اس ’’جرأت‘‘ نے شعیب نوید کو مشتعل کردیا اور معمولی تلخ کلامی کے بعد اُس نے اپنے نجی محافظ کو حمزہ پر فائرنگ کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں حمزہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا، جب کہ شعیب نوید اپنے دوستوں اور نجی گارڈز کے ساتھ وہاں سے فرار ہوگیا۔ شاہ زیب کی طرح حمزہ کے قاتلوں کی گرفتاری میں بھی سول سوسائٹی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے اہم کردار ادا کیا اور بالآخر پولیس کو ملزمان گرفتار کرنا پڑے۔

اس واقعے کے بعد مقتول حمزہ کے والد نے میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان اور عدالتوں انصاف فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ جس کے بعد کراچی میں انسدادِدہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سلیم رضا بلوچ نے اس کیس کی سماعت شروع کی۔

سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر پولیس نے حمزہ قتل کیس کا ازسر نو تحقیقاتی چالان سلیم رضا بلوچ کے روبرو پیش کیا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ازسرنو تحقیقات کے دوران ایسے شواہد نہیں ملے جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ کیس کے مرکزی ملزم شعیب نوید نے اپنے گارڈ اور مفرور ملزم امل رحمٰن کو حمزہ پر فائرنگ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم ملزمان شعیب نوید ، ادریس اور مشتاق نے امل رحمن کو فرار کرانے میں مدد فراہم کی تھی۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر شخص دہشت گردوں، ٹارگیٹ کلرز، ڈاکوؤں اور راہ زنوں کے خوف میں مبتلا ہے، وہاں بااثرافراد کی اولادیں دہشت کی نئی علامت کے طور پر سامنے آرہی ہیں۔ یہ نوجوان اپنی طاقت کے سامنے قانون کو کوئی حیثیت نہیں دیتے، ان کے لیے کسی کی جان کی کوئی قیمت ہے نہ عزت کی۔ طاقت کا یہ عفریت یوں ہی لوگوں کی جانیں لیتا رہے گا یا ہمارا قانون کبھی اتنا طاقت ور ہوپائے گا کہ یہ زورآور اس سے خوف زدہ ہوجائیں؟

لواحقین نے ملزمان کو شناخت کرلیا
گذشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ ممتاز سولنگی کی عدالت میں سلیمان لاشاری قتل کیس کی سماعت ہوئی، اس موقع پر پولیس نے گرفتار اہل کاروں مقبول بروہی، عمران علی، راشدگجر اور یاسین کو پیش کیا تاہم مقدمے کے مرکزی ملزم سلمان ابڑو کو زخمی ہونے کی وجہ سے عدالت نہیں لایا جاسکا۔ شناختی پریڈ کے دوران مقتول کی والدہ ارم ناز، بھائی ذیشان لاشاری، ملازم ریاضت علی اور بہنوئی رحیم الدین نے چاروں ملزمان کو سلمان ابڑو کے ساتھ گھر میں گھس کر فائرنگ والوں کی حیثیت سے شناخت کرلیا۔

شناخت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ واقعے کی رات یہی چاروں اہل کار ملزم سلمان ابڑو کے ساتھ سیاہ رنگ کی گاڑی میں ان کے گھر آئے اور فائرنگ کی جب کہ مقتول کی والدہ نے بیان دیا کہ ان چاروں اہل کاروں نے ہی سلمان ابڑو کو کہا تھا کہ وہ سلیمان کو کسی صورت زندہ نہ چھوڑے جس کے بعد سلمان ابڑو نے ان کے بیٹے کو فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ شناختی پریڈ کے بعد پولیس نے چاروں ملزمان کو دوبارہ درخشاں پولیس اسٹیشن منتقل کردیا۔

دیت کا قانون اور ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمے میں ورثا کو قاتلوں سے راضی نامے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ تاہم فریقین میں راضی نامہ ہوجائے تو اعلیٰ عدالتیں نئی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرتی ہیں اور پھانسی کی سزا عمرقید میں بدل جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

قانونی مباحثے اور نکات اپنی جگہ، مگر ریمنڈ ڈیوس کے معاملے سے سرفراز شاہ کیس تک یہی ہوا ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سڑکوں پر نکلی ، مقتولین کے اہل خانہ کے شانے سے شانہ ملاکر قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے کمربستہ ہوئی، مگر پھر ایک روز اچانک معافی اور ’’تلافی‘‘ نے قاتلوں کے ہاتھ میں پروانۂ راہ داری تھما دیا۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو کیا پھر آئندہ کبھی کسی فرد پر ہونے والے ظلم کے خلاف لوگ مظلوم کا ساتھ دینے آگے آئیں گے؟ کیا بھری پْری سڑک پر کسی کی جان لے کر خوف پھیلانے والے قاتل صرف مقتول اور اس کے گھرانے کے مجرم ہیں یا سیکڑوں لوگوں کو براہ راست اور کروڑوں افراد کو بالواسطہ طور پر دہشت زدہ کر کے ریاست اور اس کے ہر شہری کے بھی مجرم قرار پاتے ہیں؟

کیا زر اور اثر ہمارے ہاں اتنے طاقت ور ہیں کہ عوام، عدالت اور میڈیا مل کر بھی ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں؟

اور ایک اہم سوال یہ کہ معاف کردینا نیکی اور بدلہ لینے سے افضل ہے، مگر کیا ایسی نیکی نیکی کہلانے کی مستحق ہے جو بدی کو طاقت ور کرے؟

ہمارے نظام انصاف میں اصلاحات کی ضرورت کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ یہاں طاقت ور کی جان بچانے کے ہزاروں راستے ہیں لیکن غریب کو ایک بھی موقع نہیں دیا جاتا۔ قتل کے عام مقدمے میں ورثاء کو معاف یا صلح نامے کا مکمل اختیار ہے جو اسے قانون اور شریعت دونوں طرف سے ملتا ہے، لیکن اگر کسی کیس میں دہشت گردی کی دفعات کو شامل کردیا جائے تو پھر اُس میں راضی نامہ نہیں ہوسکتا۔

یاد رہے کہ شاہ زیب کیس کے بعد سلیمان لاشاری کے کیس میں بھی انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں، لہذا مذکورہ کیس میں صلح نہیں ہو سکتی۔ دیت کے کیس میں اہم پہلو فساد فی الارض بھی ہے جس میں عدالت بااختیار ہے اور جرم کے مرتکب فرد کو راضی نامے کے بعد بھی 14 سال تک کی سزا سنا سکتی ہے۔

ضابطۂ فوج داری کے سیکشن 345 (2) کے تحت درخواست دے کر عدالت سے تصفیے کی اجازت لی جاتی ہے اور جب عدالت اجازت دے دیتی ہے، تو سیکشن 345 کی سب کلاز 6 کے تحت مفاہمت کی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ریاست اپنے مقتول شہری کے حقوق سے دست بردار ہوگئی ہے اور اب یہ مقتول کے ورثا پر ہے کہ وہ مفاہمت کریں یا نہ کریں۔ اس کے برعکس اگر کوئی قتل دہشت گردی کی تعریف کو پہنچتا ہے، تو قانونی وارثین کے علاوہ ملزم نے ریاست اور ریاست کے شہریوں کے خلاف جرم کیا ہوتا ہے، جو کہ نہ صرف ریاست کی رٹ کو متزلزل کرتا ہے، بل کہ یہ جرم ریاست کے شہریوں میں خوف وہراس اور عدم تحفظ کا سبب بھی بنتا ہے۔ یعنی یہ جرم ریاست کے خلاف ہوتا ہے۔ آئین کے تحت ریاست کو حق حاصل ہے کہ وہ ریاست کے خلاف ہونے والے جرائم کی سزا کو کسی بھی صورت معاف نہ کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔