نادرا میں غیر قانونی اور نامکمل دستاویزات پر شناختی کارڈ کی تیاری جاری

سید اشرف علی  منگل 13 مئ 2014
ایک شخص کے مختلف ناموں پر درجنوں شناختی کارڈ بنوادیئے جاتے تھے جس سے وہ با آسانی ہیرا پھیری کر سکتا تھا۔ فوٹو: فائل

ایک شخص کے مختلف ناموں پر درجنوں شناختی کارڈ بنوادیئے جاتے تھے جس سے وہ با آسانی ہیرا پھیری کر سکتا تھا۔ فوٹو: فائل

کراچی: نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی اور دیگر عوامل کے باعث کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔

یہاں بھی دیگراداروں کی طرح ایجنٹ سرگرم ہوگئے ہیں جو تارکین وطن کے شناختی کارڈ باآسانی بنوادیتے ہیں، نادرا کا جو عملہ غیرقانونی دستاویزات پر شناختی کارڈ بنانے سے انکار کرتا ہے اسے جسمانی ہراساں اور دھمکایا جاتا ہے،نادرا ویجلینس ٹیم کی شناختی کارڈ دفاتر کی نگرانی کے باعث ایجنٹ میزکرسی لگا کر دفاتر کے باہر نہیں بیٹھتے تاہم خفیہ طور پر نادرا رجسٹریشن سینٹرز کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں،یہ گماشتے سیاسی اور کالعدم تنظیموں کی سپورٹ پر ہر سینٹرز پر سرگرم عمل ہیںتاہم لیاری، اورنگی کورنگی، ملیر، بلدیہ اور عوامی مرکز میں قائم سینٹرز پر ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

لیاری سینٹر میں گینگ وار کی سرپرستی میںیہ گماشتے ان غیرقانونی دستاویزات پر بھی شناختی کارڈ بنوالیتے ہیں جن کو دیگر سینٹرز بنانے سے معذوری کا اظہار کردیتے ہیں، سابق چیئرمین طارق ملک کے دور میں ہزاروں افراد سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے جن کی نااہلیت سے اب یہ ادارہ بھی زوال پذیر ہورہا ہے، تفصیلات کے مطابق پاکستان میں شہریوں کے کوائف اکٹھا کرنے اور شناختی کارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کیلیے 2002 میں نادرا کا قیام عمل میں لایا گیا، قبل ازیں شناختی کارڈ مینوئل طریقے سے بنایا جاتا تھا اور اس کا دفتری اندراج بھی رجسٹروں میں کیا جاتا تھا جس سے باآسانی جعل سازی کرلی جاتی تھی، ماضی میں ایجنٹ میزکرسی ڈال کر شناختی کارڈ دفاتر کے باہر بیٹھتے تھے اور قانونی وغیرقانونی دستاویزات پر متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے شناختی کارڈ بنوایا کرتے تھے۔

ایک شخص کے مختلف ناموں پر درجنوں شناختی کارڈ بنوادیئے جاتے تھے جس سے وہ جائیداد، بیرون ملک سفراور کاروباری معاملات میں ہیرا پھیری کرلیا کرتا تھاتاہم پکڑے جانے کی صورت میں نہ صرف ملک کی بدنامی کا سبب بنتا بلکہ پاکستانی شناختی کارڈ کی اہمیت بھی ختم ہوجاتی، اس دور میں پاکستانی شہریوں کو بھی شناختی کارڈ بنوانے کیلئے ان گماشتوں سے رجوع کرنا پڑتا تھا کیوں کہ متعلقہ افسران بلاجواز اعتراضات لگا کر ان کے دستاویزات مسترد کردیتے یا تاخیری حربے استعمال کرتے، شناختی کارڈ مینوئل سسٹم دور میں لاکھوں تارکین وطن کے بھی شناختی کارڈ بنوائے گئے، وفاقی حکومت نے ان تمام خرابیوں کو ختم کرنے کیلئے 14سال قبل نادرا کو قائم کیا تاکہ ملکی شناختی علامت محض کاغذ کا ایک ٹکڑا نہ رہے بلکہ فخر کا نشان بنے، آغاز میں نادرا کی کارکردگی مثالی تھی۔

پورے سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کرکے ایک کارنامہ انجام دیا گیا، ایک آدمی کا درجنوں شناختی کارڈ بنانے کا سلسلہ رک گیا، ایجنٹ سسٹم کو ختم کیا گیا ہزاروں دہرے شناختی کارڈ منسوخ کیے گئے اور تارکین وطن کے جعلی شناختی کارڈز کی سختی سے جانچ پڑتال شروع کی گئی، بتدریج اس ادارے کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی، ذرائع کے مطابق سابق چیئرمین طارق ملک کے دور میں 8تا 9ہزار سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئی جس سے نادرا کا مثالی کام گہنا گیا تاہم ابھی بھی عام شہری بلارکاوٹ باآسانی اپنے شناختی کارڈ بنوالیتا ہے، ذرائع نے بتایا کہ مسائل وہاں جنم لے رہے ہیں جہاں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والا عملہ تعینات ہے ، سیاسی جماعتوں سے وابستہ نچلا عملہ رشوت خوری کیلئے عام شہریوں کو تنگ کرتا ہے اور مکمل دستاویزات کی موجودگی کے باوجود انہیں تارکین وطن قرار دینے کی کوشش کرتا ہے ۔

اعلیٰ حکام تک اگر شکایات پہنچ جائیں تو مسائل حل ہوجاتے ہیں بصورت دیگر شہری مہینوں دفاتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور ملکی شہریت منوانے میں پاپڑ بیلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ اصل مسائل لیاری، بلدیہ ، کورنگی، اورنگی ، ملیر اور دیگر چند سینٹرز میں ہورہے ہیں جو حساس علاقوں میں قائم ہیں، ان علاقوںمیںمسلح سیاسی وکالعدم تنظمیں کا اثرورسوخ ریاستی انتظامیہ سے زیادہ ہے جس کے باعث ان علاقوں میں ایجنٹ پانچ سال سے سرگرم ہیں جو 20 سے 25ہزار میں تارکین وطن کے شناختی کارڈ نادرا کے عملے کی ملی بھگت سے بنوالیتے ہیں۔

نادرا کا جو ایماندار افسر جعلی شناختی کارڈ بنانے سے انکار کرتا ہے اسے مارا پیٹا جاتا ہے ، ہوائی فائرنگ کرکے ہراساں کیا جاتا ہے، ان مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے نادرا کے کیماڑی، صفورا، لیمارکیٹ اور بلدیہ ٹاؤن پٹنی محلہ کے سینٹرز بند ہوچکے ہیں تاہم دیگر سینٹرز بالخصوص لیاری اورنگی، کورنگی اور ملیر وغیرہ میں ابھی بھی جعلی شناختی کارڈ کا اجراء جاری ہے، ذرائع نے بتایا کہ نادرا کے اعلیٰ حکام نے یہ نیٹ ورک توڑنے کے لیے حکومت سندھ سے مدد مانگی تھی اور درخواست کی تھی کہ حساس سینٹرز پر پولیس تعینات کردی جائے تاکہ ایجنٹ مافیا کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے تاہم صوبائی حکومت نے کوئی اقدام نہ اٹھایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔