پنجاب میں ہلچل جاری رہے گی

نصرت جاوید  بدھ 14 مئ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بالآخر عمران خان صاحب کا اسلام آباد والا جلسہ بھی ہوہی گیا۔ اس جلسے کے انعقاد سے قبل میں نے جان بوجھ کر کسی تبصرہ آرائی سے گریز کیا۔ اب بھی عرض کرنا ہے تو صرف اتنا کہ کسی جلسے میں کتنے لوگ تھے ان کی تعداد کا تعین آپ انتہائی غیر جانبداری اور منطقی انداز میں بھی کرنے کی جسارت کریں تو نہ اس جلسے کے منتظمین مانتے ہیں نہ ان کے مخالفین۔ جنونیوں کی حد تک منقسم ہوئے لوگوں کو سچ سننے کی عادت نہیں رہتی۔ سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے ویسے بھی میں اس بات پر 1986 سے اصرار کر رہا ہوں کہ سیاسی جلسوں میں موجود افراد کی تعداد کا تعین ایک فروعی مشغلہ ہے۔

اصل بات جلسوں کے ذریعے دیے پیغامات کو پوری طرح جاننا ہوا کرتی ہے۔ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں اس سے بڑا ہجوم آج تک نہیں دیکھا جو 10 اپریل 1986 کے دن محترمہ بے نظیر بھٹو کی طویل جلاوطنی کے بعد لاہور ایئرپورٹ سے اُتر کر مینارِ پاکستان کی طرف جاتے ہوئے راستوں پر نظر آیا تھا۔ ایسے شاندار استقبال کے باوجود محترمہ، جنرل ضیاء الحق اور ان کے زیرسرپرستی بنی جونیجو حکومت کا سیاسی حوالوں سے کچھ بھی نہ بگاڑ پائیں۔ جونیجو حکومت کو بالآخر برطرف کیا تو خود اس کے خالق ضیاء الحق نے اور وہ خود اس دُنیا اور اقتدار سے رخصت ہوئے تو کسی سیاسی تحریک کے ذریعے نہیں بلکہ 17 اگست 1988 کو بعد از دوپہر ہونے والے ایک فضائی حادثے کی وجہ سے۔

جلسوں کی تعداد اور اس میں نظر آنے والے جوش و خروش کو بنیاد بنا کر سیاسی تجزیے کرتے ہوئے میرے کئی دوست اس امر کا خیال نہیں رکھتے کہ ہمارے ہاں لوگ اب بہت موبائل ہو چکے ہیں۔ لاہور سے صرف چار گھنٹوں میں آپ اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں۔ پشاور اس شہر سے اب صرف دو گھنٹے کی مسافت کا طلب گار ہے۔ چھٹی کا دن ہو۔ آپ کے پاس کوئی چھوٹی موٹی کار ہو تو آپ دو تین دوستوں کے ساتھ اپنے پسند کے رہ نما کو سننے اسلام آباد آنا کوئی بہت اذیت ناک کام نہیں سمجھتے۔ اپنے سفر کو بلکہ Outing کے طور پر Enjoy کرتے ہیں۔

عمران خان کے اتوار والے جلسے میں غور طلب بات البتہ یہ تھی کہ اس میں اسلام آباد کے ان رہائشیوں نے نسبتاََ بہت کم تعداد میں شرکت کی جو تحریک انصاف کے 31 اکتوبر 2011 کے لاہور والے جلسے کے بعد سے مئی 2013 تک رضاکارانہ دیوانگی کے ساتھ اس جماعت کے لیے کام کرتے رہے۔ ان رضا کاروں میں سب سے متاثر کن بات گھریلو عورتوں کی شرکت تھی اور سب سے بڑھ کر نسبتاََ خوش حال گھرانوں کے پڑھے لکھے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی وارفتگی جنھیں عام طور پر غیر سیاسی اور ممی ڈیڈی مارکہ کہا جاتا تھا۔ یہ نوجوان انتخابی عمل میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لیا کرتے تھے۔ مگر 2013 میں انھوں نے اس عمل میں بڑے جوش سے حصہ لیا تھا۔ تحریک انصاف کے سرکردہ لوگوں کو اپنے اسلام آباد میں موجود ایسے حامیوں کی اتوار والے جلسے کی بابت واضح نظر آنے والی لاتعلقی پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔

اب بڑھتے ہیں اس جلسے کے ذریعے دیے گئے ’’پیغام‘‘ کی طرف۔ ناک کو سیدھا پکڑیں یا ہاتھ گھما کر اصل بات ہے تو اتنی کہ اب عمران خان قبل از وقت انتخاب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ میں قبل از وقت انتخاب کے مطالبے کو ہرگز ’’غیر جمہوری‘‘ نہیں سمجھتا۔ نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1990،1993 اور 1997میں قبل از وقت انتخابات ہی تو حاصل کیے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے مگر انھیں ان دنوں ایوانِ صدر میں بیٹھے غلام اسحاق خان اور پھر فاروق خان لغاری کے ساتھ مل کر وزیر اعظم کے خلاف سازشی مہم چلانا پڑی۔ 18 ویں ترمیم کے بعد اب ایسا ہونا ممکن نہیں رہا۔ اب جو بھی جماعت قبل از وقت انتخاب چاہتی ہے اسے پاکستان کے تمام بڑے شہروں خاص کر لاہور، راولپنڈی، پشاور، ملتان، فیصل آباد، حیدر آباد اور کراچی میں ’’پہیہ جام‘‘ قسم کے مناظر دکھا کر یہ انتخابات لینا ہوں گے۔

اس ضمن میں ایک اور بات بھی ذہن نشین رکھنا ہو گی۔ ہمارے ہاں 18 ویں ترمیم ہی کی بدولت اب کافی خود مختار صوبائی حکومتیں بھی موجود ہیں۔ فرض کیا نواز شریف نئے انتخابات کے لیے تیار ہو بھی جائیں تو وہ تحریک انصاف ہی کے پرویز خٹک کو اپنی صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ سید قائم علی شاہ سندھ میں براجمان ہیں۔ اب ایم کیو ایم بھی ان کی حکومت کا ایک بار پھر حصہ بن چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو اپنے صوبے میں نئے انتخابات کروانے کے لیے نواز شریف کسی صورت قائل نہیں کر پائیں گے۔ بلوچستان کے حوالے سے بس اتنا یاد رکھیے کہ مئی 2013ء میں بھی اس صوبے میں ووٹروں کی کافی نمایاں طور پر کم نظر آنے والی تعداد نے حصہ لیا تھا۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت کو فارغ کر دینے کے بعد ابھرنے والے جذبات کو بھی ہمیں ذہن میں رکھنا ہو گا۔

ایک بات بہرحال طے ہے۔ عمران خان قبل از وقت انتخابات لے پائیں یا نہیں وہ مسلم لیگ کے ’’گڑھ‘‘ سمجھے جانے والے پنجاب میں اب مسلسل تھرتھلی مچاتے رہیں گے۔ اسلام آباد کے بعد اب ان کی سونامی 23 مئی کو پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد میں سجے گی۔ اس شہر میں لوڈشیڈنگ کے بحران کا سب سے زیادہ اثر چھوٹے کاروباری حضرات اور دیہاڑی دار مزدور بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ وہاں کے صنعت کار خاص طور پر وہ جن کا سارا دارومدار سوتی کپڑے سے بنی مصنوعات کی برآمد پر منحصر ہے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پہلے سے ملے ہوئے Orders کو پورا کرنے میں بڑی دقت محسوس کر رہے ہیں۔

وہ ڈالر کی پاکستانی روپوں کے حوالے سے قدر کم ہو جانے پر بھی اتنے خوش نہیں۔ عمران خان اس شہر کو نواز حکومت کے خلاف غصے سے اُبلتا ہوا دکھانے کے بعد اپنے اصل ہدف کی طرف اور زیادہ تیزی سے بڑھنے پر خود کو مجبور محسوس کریں گے۔ نواز شریف اور ان کے برادرِ خورد عمران خان اور ان کی جماعت کو اس ضمن میں ہر صورت ’’مایوس دیکھنا چاہیں گے‘‘ قصہ مختصر پنجاب میں ہلچل جاری رہے گی۔ مسلسل سیاسی ہلچل کسی بھی فریق کی ذرا سی غلطی کے باعث چند صورتوں میں بھرپور ہیجان کی صورت بھی اختیار کر لیا کرتی ہے۔

حکومتیں اس ہیجان پر پولیس وغیرہ کے ذریعے قابو پانے کی کوششیں کرتی ہیں۔ ’’اپنے کارکنوں کو سیاسی مقابلہ‘‘ کرنے کے لیے میدان میں اتارنے سے گھبراتی ہیں کہ اس طرح ملک میں ’’خانہ جنگی‘‘ والی کیفیت نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ’’خانہ جنگی‘‘ کے ’’امکانات‘‘ ریاست کا صرف ایک ہی ادارہ Prevent کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی صلاحیتوں کو آزمائش میں ڈالا جائے تو اقتدار ضیاء الحق کا مقدر بنتا ہے۔ 1977ء والے اصغر خان کا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔