لوگ کیوں پاگل ہوجاتے ہیں؟

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 14 مئ 2014

اگر کوئی صاحب دو اور دو کو بائیس کہنے پر بضد ہو جائیں او ر آپ کے لاکھ سمجھانے پر بھی اپنی ہٹ دھر می پر قائم رہیں اور لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو جائیں تو ظاہر ہے آپ فوراً وہاں سے کھسکنے میں ہی اپنی عافیت سمجھیں گے اور کانوں پر ہاتھ لگاتے ہوئے کہیں گے کہ ان کو خدا سمجھائے تو سمجھائے انسان کے بس کی یہ بات نہیں ہے۔ کہتے ہیں عقل بادام کھانے سے نہیں بلکہ دھکے کھانے سے آتی ہے۔ نہیں جناب نہیں نہ عقل بادام کھانے سے آتی ہے اور نہ ہی دھکے کھانے سے بلکہ اکثر اوقات ساری عمر گزر جاتی ہے لیکن عقل آتی ہی نہیں۔

عقل صرف اس وقت آتی ہے جب آپ اسے آنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن اگر آپ ساری عمر اکڑے رہیں تو اور بات ہے اور یہ بھی کہ آپ کی عقل کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہ ہو ہمارے حکمرانوں کو ان کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے خیرخواہوں نے پہلے ہی روز یہ سمجھا دیا تھا کہ محا ذ آرائی کے نتائج ہمیشہ خو فناک نکلتے ہیں اور آپ ماضی میں ایسے ہی ہولنا ک نتیجے سے دو چار ہو چکے ہیں لہٰذا اب مزید ہولناکی سے اپنے آپ کو بچا کے رکھیے گا لیکن شا باش ہے ہمارے حکمرانوں کو کہ انھوں نے نا سمجھنے کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے لیکن یہ کریں بھی تو کریں کیا دراصل یہ محاذ آرائی کے مرض میں مبتلا ہیں انھیں محاذ آرائی میں ہی سکون ملتا ہے اور وہ سکون حاصل کر نے کے لیے سب کچھ کر گزرتے ہیں اور جب بہت کچھ ان کے خلاف ہو گزرتا ہے تو پھر رونے اور چلانے لگتے ہیں عورتوں کی طرح کوسنے دینے لگتے ہیں دوہایاں دیتے ہیں۔

ان کی اس صورتحال پر لنکن کی وہ بات بہت یا د آتی ہے کہ مجھے وہ آدمی یاد ہے جس نے اپنے ماں باپ کو قتل کر دیا جب اسے سزا سنائی جانے لگی تو اس نے اس بنا پر رحم کی درخواست کی کہ وہ یتیم ہے۔ گرو ڈک یہ کہتے کبھی نہیں تھکتا تھا کہ ہم اپنی زندگی نا معلوم اور بے اختیار قوتوں کے اثرات کے تحت بسر کرتے ہیں۔ انسانی فطرت عملاً کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ غلط کار سوائے اپنے سب کو الزام دیتا رہتا ہے ہم سب اس معاملے میں یکساں ہیں۔

بیسویں صدی کے مشہور ما ہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کہتے ہیں کہ ہمارے ہر فعل کے دو محرک ہوا کرتے ہیں جنسی خواہش اور بڑا بننے کی امنگ جب کہ امریکا کے بہت بڑے فلسفی پر وفیسر جان ڈیوی اس بات کو ذرا دوسرے لفظوں میں بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسانی فطرت کی سب سے بڑی خواہش ’’ اہم بننے کی امنگ‘‘ ہے بڑا بننے کی اسی خواہش نے ایک بقال کو قانون کی چند کتابوں کے مطالعے پر مجبور کیا جو اس نے ایک گھر کے کباڑ خانے سے دو روپے کے عوض خریدی تھیں اس کا نام لنکن تھا۔ یہ ہی وہ امنگ تھی جس نے چارلس ڈکنز کو اپنے لا فانی ناول لکھنے پر ابھارا اسی جذبے نے سر کرسٹوفر رین کو سنگ تراشی کے بہترین نمونے پیش کرنے پر اکسایا۔

اسی جذبے نے راک فیلر کو اپنی ضرورت سے زائد اربوں روپے جمع کر نے پر مجبور کیا۔ اسی جذبے کی وجہ سے جارج واشنگٹن اپنے آپ کو ’’ جناب‘‘ ،عالی ہمت، صدر ریاست ہائے متحد ہ امریکا کہلانا پسند کرتے تھے جب کہ کولمبس نے ’’امیر البحر و وائسرائے ہند‘‘ کے خطاب کی درخواست کی تھی۔ ملکہ کیتھرائین ان خطوں کو کھولتی بھی نہ تھیں جن پر ’’ملکہ معظمہ‘‘ نہ لکھا ہوتا تھا۔ مسز لنکن وائٹ ہائوس میں مسز گرانٹ پر یہ کہہ کر بر س پڑیں کہ میری اجازت کے بغیر تم نے میرے سامنے بیٹھنے کی جرأ ت کیسے کی۔ کرو ڑ پتی سر مایہ داروں نے امیر البحر بانڈو کی قطب شمالی کی مہم کے لیے اس وعدے پر روپیہ دیا کہ وہ بر فانی پہاڑوں کے سلسلوں کو ان کے نام سے موسوم کریگا۔

وکٹر ہیوگو کا خیال تھا کہ اس کی حوصلہ افزائی جب ہی ہو سکتی ہے کہ پیرس شہر کا نام بدل کر اس کے نام پر رکھا جائے یہاں تک کہ شیکسپئر جیسے بڑے فن کار نے بھی اپنے خاندان کی شان و شوکت میں چار چاند لگانے کے لیے شاہی ڈھال حاصل کی جس پر اس کے خاندان کا نشان خصوصی کھدا تھا۔ کچھ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر بعض لوگوں کو حقیقی دنیا میں برتری کا احساس نصیب نہ ہو تو وہ اسے دیوانگی کے خواب زار میں تلاش کرنے کی غر ض سے پاگل ہو جائیں۔

امریکی اسپتالوں میں سب سے زیادہ تعداد ان مریضوں کی ہے جو دما غی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ دیوانگی کا سبب کیا ہے کوئی شخص بھی اس پیچید ہ سوال کا جواب آسانی سے نہیں دے سکتا حتی کہ پوسٹ مارٹم کے دوران ایسے مریضوں کے دماغ کی رگیں بڑی سے بڑی طاقت والی خوردبین سے بھی دیکھی گئی ہیں لیکن ان کے دماغ بظاہر بالکل اسی طرح صحیح و سالم نظر آتے ہیں جیسے کہ ہمارے اور آپ کے ہیں پھر یہ لوگ پاگل کیوں ہوئے۔ یہ سوال امریکا کے پاگلوں کے ایک بہت بڑے اسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر سے کیا گیا یہ ڈاکٹر صاحب دیوانگی کے علم میں ماہر ہونے کی بناء پر بڑے سے بڑا خطاب اور بڑے سے بڑا عزاز حاصل کر چکے ہیں۔

انھوں نے صاف الفاظ میں بتایا کہ انھیں یہ علم نہیں کہ لوگ کیوں پاگل ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک سے کوئی بھی نہیں جانتا لیکن انھوں نے یہ بات ضرور بتائی کہ بہت سے پاگل ہونیوالے لوگ دیوانگی میں احساس برتری کی تسکین حاصل کرتے ہیں کیونکہ اصلی زندگی میں وہ اپنے اس جذبے کی تسکین نہ کر سکے۔ کہا جاتا ہے خو شامد، چاپلوسی اور جھوٹ یہ سب ناکارہ ہیں خاص طور پر یہ سمجھ دار انسانوں پر تو بالکل ہی بے اثر ہیں خوشامد سے واقعی سمجھدار لوگ متاثر نہیں ہوتے لیکن یہ بھی درست ہے کہ بعض لوگ اتنے بھوکے ہوتے ہیں کہ گھٹیا چاپلوسی اور خوشامد کو بڑی چاہ سے ہضم کر جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک فاقوں مرتا انسان گھاس تک کھا جاتا ہے۔

میکسیکو شہر میں چاپولٹی پیک کے محل میں جنرل او بریگن کے مجسمے کے نیچے ان کے یہ فلسفیانہ الفاظ کندہ ہیں ’’حملہ آور دشمنوں سے مت گھبرائو لیکن خوشامدی دوستوں سے ڈرو‘‘ شہنشاہ جارج پنجم نے بکنگھم پیلس میں اپنے مطالعے کے کمرے میں چھ اصول لکھوا کر لٹکا رکھے تھے ان میں سے ایک یہ تھا ’’مجھے نہ نیاز مندی سکھائو نہ سستی چاپلوسی‘‘۔ اگر ہم اپنے ملکی سیاسی و تاریخی اہم کرداروں کا پوسٹ مارٹم کریں تو ہم پر حیرت انگیز طور پر یہ انکشاف ہو گا کہ ہمارے تمام اہم کردار بڑا بننے کی امنگ کے مر ض میں مبتلا رہے ہیں آپ ذرا اور پیچھے کی طرف سفر کریں تو برصغیر کی سیاست میں بھی اس مرض کے مریض آپ کو جا بجا بغیر ڈھونڈے ہوئے مل جائینگے ۔

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس مرض کے خاتمے اور اس سے بچنے کے لیے پولیو کے قطروں کی طرح کیوں قطرے ایجاد نہ ہو سکے ہیں کیونکہ دیگر تمام ہو لناک امراض کی طرح یہ مرض بھی ہمیشہ جان لیوا ثابت ہوا ہے اور اس مرض کے متاثرین کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں میں ہے کیوں نہ ہم دنیا کے تمام ڈاکٹروں، پروفیسروں، ماہرین نفسیات کی توجہ اس مرض پر مذکور کرنے کے لیے ملکر اس مرض کا کوئی دن منائیں تا کہ اس مر ض سے نہ صرف ہمیں بلکہ دنیا کو بھی نجات حاصل ہو سکے کیونکہ اس مرض سے پاکستانیوں کو بہت مصیبتیں، تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔