کیا مودی وزیر اعظم بننے کے بعد بدل جائے گا؟

نصرت جاوید  جمعرات 15 مئ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سال 2000ء کے آغاز کے ساتھ ہی جس انگریزی اخبار سے میں ان دنوں وابستہ تھا مجھ پر زور دیا جانے لگا کہ میں مستقل بنیادوں پر بھارت کے دارالحکومت نئی دلی میں رہتے ہوئے وہاں سے رپورٹنگ کروں۔ میرے بیوی اور بیٹیوں کو یہ خیال ہرگز پسند نہ آیا۔ بیٹیوں کو ویسے بھی اپنے والدین سے کہیں زیادہ نانا، نانی اور دادی سے محبت تھی۔ وہ ان سے دور کسی اور ملک میں رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ میں بہرحال اپنے صحافتی فرائض سے مجبور ہوا، اس شہر میں طویل قیام کے لیے مسلسل وہاں جاتا رہا۔

اس شہر میں بڑی سنجیدگی سے میں نے ایک ایسا کمرہ بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی جو میری ایک حوالے سے دلی میں مستقل نظر آنے والی قیام گاہ بھی ہو۔ چھوٹے کچن اور دو کمروں والا کوئی مکان جہاں آنے کا راستہ الگ سے موجود ہو ڈھونڈنے نکلا تو دریافت ہوا کہ نسبتاً صاف ستھرے پھر بھی Poshنہ سمجھے جانے والے کسی محلے میں ایسا مکان 60سے 70ہزار بھارتی روپے ماہوار سے کم داموں پر نہیں مل سکتا۔ میرا پاکستانی صحافی ہونا ان داموں میں کم ازکم دس ہزار کا فوری اضافہ کردیتا۔ شاید میں یہ سب اپنی سہولت کے لیے برداشت کرلیتا۔ مگر کوفت اس وقت بہت شدید محسوس ہوئی جب اندازہ ہوا کہ کافی پڑھے لکھے اور ’’سیکولر‘‘ ہونے کے دعوے دار بھارتی بھی اپنے ہمسایے میں کسی مسلمان کو اس لیے برداشت نہیں کرتے کہ ان کے باورچی خانے سے ’’ماس‘‘ کی بو آتی ہے۔

بھارتی معاشرت کا یہ ایک ایسا پہلو تھا جو میں 1984ء سے کئی بار بھارت کے دوروں کے باوجود دریافت نہیں کرپایا تھا۔ بہرحال بالآخر زچ ہوکر میں نے کسی مکان کی تلاش ترک کردی اور ’’جن پتھ‘‘ کے نام کے اسی ہوٹل کے ایک کمرے میں اپنے ہر دورے پر جاتا رہا جو میں نے 1984ء میں دریافت کیا تھا۔ بہت سارے حوالوں سے یہ سرکاری ہوٹل کافی بوسیدہ اور ناخوش گوار ہے۔ مگر اس کا تمام اسٹاف میرا بہت واقف ہوچکا تھا۔ وہ مجھے گاہک نہیں دوستوں کی طرح سمجھتے۔ ان دنوں ابھی کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ وغیرہ بھی اتنے عام نہیں ہوئے تھے۔ صحافی خبریں ٹیلی پرنٹر کے ذریعے بھیجا کرتے تھے اور وہ اس ہوٹل کے عین سامنے واقع GPOمیں کافی تعداد میں نصب تھے۔

نئی دلی میں اپنا فارغ وقت میں گھنٹوں پیدل چلتے ہوئے پرانی دلی کے ان علاقوں میں صرف کرتا جسے شاہ جہاں نے آگرہ سے اپنا دارالخلافہ دلی منتقل کرنے کے بعد بسایا تھا۔ اس مسلم اکثریتی علاقے میں برصغیر کی تاریخ کے کئی ایسے آثار تھے جن سے ہماری آج کی نوجوان نسل بھی خوب واقف ہے۔ جامع مسجد، اُردو بازار، ہرے بھرے پیر کا مزار اور غالب کا محلہ اور گھر میرے پسندیدہ علاقے تھے۔ میں ان میں گھومتا خوانچہ فروشوں اور سائیکل رکشے والوں سے دلی کی مخصوص ’’کرخنداری‘‘ زبان ولہجہ سننے کی کوشش کرتا مگر اکثر مایوس ہوجاتا کہ ایسے لوگوں کی زیادہ تر تعداد یا تو بہار سے وہاں آئی تھی یا ان بنگلہ دیشیوں پر مشتمل جو انسانی اسمگلروں کے ذریعے بالآخر کراچی پہنچنا چاہتے تھے۔ دلی سے وابستہ ان یادوں کے ساتھ میں ایک روز اسلام آباد میں پرانی کتابوں کی ایک دکان میں گیا تو وہاں ایک کتاب نظر آئی۔

’’دلی۔جنوں کا شہر‘‘ اس کتاب کا انگریزی عنوان تھا۔ میں سمجھا کہ یہ بھی کسی گورے سیاح کی لکھی کوئی Trashکتاب ہوگی۔ مگر اس کا پہلا صفحہ کھولتے ہی اسے پڑھنے میں محو ہوگیا۔William Dalrympleاس کتاب کا مصنف تھا۔ اپنی اس کتاب کے بعد سے جو اس نے اپنے ایامِ نوجوانی میں لکھی، Dalrympleبھارت کے اس دور کی جسے مسلمانوں اور خاص طور پر مغلیہ دور سے وابستہ سمجھا جاتا ہے بھرپور Fascinationمیں مبتلا ہوگیا۔ اسی دور کی کشش نے اسے بعدازاں بڑی تحقیق کے بعد 1857ء کے حوالے سے The Last Mughalلکھنے پر مجبور کیا۔ مگر اس کتاب سے پہلے اس نے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ برصغیر میں اپنی آمد کے ابتدائی سالوں میں برطانوی گورے اس تہذیب سے بہت متاثر ہوئے جسے ہندو فارس کا امتزاج کہا جا سکتا ہے۔

اگرچہ قرۃ العین حیدر نے اپنے کئی ناولوں اور ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ والی آپ بیتی میں ان روایات کا ذکر تواتر کے ساتھ کیا تھا۔ مگر وہ خاتون اُردو میں لکھا کرتی تھیں اور اپنے فن کی مارکیٹنگ سے ہرگز لاتعلق وناواقف۔ ہم بدنصیب ان کی بہت ساری دریافتوں اور مشاہدات کی ان کی زندگی میں تو دور کی بات ہے آج بھی پوری طرح پذیرائی نہیں کرپائے۔ برصغیر میں آنے والے گوروں نے اپنے ابتدائی ایام میں مغل طرزِ زندگی اور مسلم معاشرت کی مکمل نقل میں جو انداز اختیار کیا اس کی بھرپور جھلک ہمیں Dalrympleہی کے White Mughalsمیں نظر آتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے آپ کو حیدر آباد دکن کی مسلم معاشرت کا مخصوص اندازِ زندگی بھی اچھی طرح سمجھ آجاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اس ریاست کا ایران کے ساتھ بہت ہی قدیمی گہرا رشتہ بھی۔

Dalrympleکا تفصیلی ذکر میں نے اس لیے کیا ہے کہ دو ہی روز پہلے اس نے ایک تفصیلی مضمون بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات کی بابت لکھا ہے۔ بہت سارے دیگر صحافیوں کی طرح اس نے بھی اپنے اس مضمون میں اعلان کردیا ہے کہ نریندر مودی بھارت کا آیندہ وزیر اعظم ہوگا۔ یہ اعلان کرتے ہوئے بھارت، اس کی تاریخ اور یہاں کے تہذیبی ورثے سے بے تحاشہ متاثر اسی لکھاری نے مگر بڑی شدت سے اس امر پر بہت دُکھ کا اظہار بھی کیا ہے کہ بھارتی متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت جس کی تعداد اس نے 30کروڑ گنوائی ہے۔

مودی کے فسطائی اور ہندو انتہاء پرستانہ خواب اور جذبات کے بارے میں ہرگز فکر مند نظر نہیں آرہی۔ بہت پڑھے لکھے۔ اپنے اپنے شعبوں میں انتہائی کامیاب اور اپنے تئیں ’’سیکولر‘‘ بنے خواتین وحضرات شاداں ہیں تو صرف اس بات پر کہ مودی کرپٹ نہیں ہے۔ Doerہے۔ بیورو کریسی کے سرخ فیتے کو روندتا ہوا اپنے ملک کے سیٹھوں کو ہر وہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے میں دن رات جتا رہتا ہے جو معیشت کو بہتر ہوتا دکھا سکے۔

مودی کے ’’روشن خیال‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ مداحین کے سامنے Dalrympleنے جب بھی اس کا ماضی اور ذہنی ونفسیاتی ساخت کا مسئلہ اٹھایا تو ان کی اکثریت بس یہ کہہ کر کندھے اچک کر چپ ہوجاتی رہی کہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد مودی بدل جائے گا۔ بھارت کا آئین اور بہت ہی تگڑی بیوروکریسی اسے لگامیں ڈال دے گی۔ وہ بالآخر مسلمانوں کے بارے میں Softرویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ Dalrympleہرگز اس سوچ سے متفق نظر نہیں آتا۔ بدقسمتی سے میرا اپنا بھی یہی عالم ہے۔ مگر ہمارے ہاں امورِ خارجہ کے اپنے تئیں بقراط بنے لوگ اب بھی اس بات پر بضد ہیں کہ بالآخر مودی میں سے ایک اور واجپائی برآمد ہوجائے گا۔ کاش وہ درست ثابت ہوں اور میں غلط۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔