تمام ایڈہاک اورمستقل ججوں کوفارغ کرانے کیلیے درخواست دائر

قیصر شیرازی  جمعرات 15 مئ 2014
18ویں ترمیم کے بعدکسی بھی ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات نہیں کیا جاسکتا،  پٹیشن . فوٹو فائل

18ویں ترمیم کے بعدکسی بھی ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات نہیں کیا جاسکتا، پٹیشن . فوٹو فائل

راولپنڈی: ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں ملک کے چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے تمام ایڈہاک اور مستقل ججوں کی تقرریوں کو غیرآئینی قراردیتے ہوئے ان سب کوغیرآئینی ججز قرار دے کر فارغ کرانے کے لیے آئینی پٹیشن دائر کر دی گئی ہے۔

اس پٹیشن میں اہم نوعیت کا آئینی نکتہ اٹھاتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ18ویں ترمیم کے بعدکسی بھی ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات نہیں کیا جاسکتا،آئین کے تحت اگر صدر مملکت اپنی آئینی صوابدید کے تحت کسی بھی ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات کرتے ہیں تو اس جج کو پھر مستقل جج نہیں بنایا جاسکتا،ایڈیشنل جج کی مدت(ایکسال) کے بعد از خود ختم ہوجائے اور وہ جج نہیں رہے گا ۔

اسی طرح جوڈیشری بھی کسی بھی وکیل کو براہ راست یا ماتحت عدلیہ سے کسی بھی جج کو ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات نہیں کر سکتی نہ ہی سفارش کر سکتی ہے بلکہ جوڈیشری، عدالتی کمیشن ایڈیشنل کے بجائے ہائی کورٹس کیلیے براہ راست مستقل جج تعینات کرے گی اور اگر جوڈیشری،عدالتی کمیشن کسی کو آئین کے آرٹیکل193کے تحت ایڈیشنل جج مقرر بھی کرتی ہے تو ایسے ججز کو مستقل کرنے کیلیے زیرغور نہیں لایا جا سکتا بلکہ ایڈیشنل مدت ختم ہوتے ہی فارغ تصور ہوں گے، اس لیے لاہورہائی کورٹ، سندھ،پشاور اور بلوچستان ہائی کورٹس میں جتنے بھی ایڈیشنل ججز تعینات کیے گئے ہیں یا انھیں بعد میں کنفرم کیا گیا ان سب کو آئین کے تحت غیرآئینی قرار دیتے ہوئے سبکدوش کرنے کا حکم دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔