انتخابات اور بھارت

شہلا اعجاز  جمعـء 16 مئ 2014
shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب بھارت میں الیکشن کی گہما گہمی کی شروعات ہوئی تھیں ایک مشہور بھارتی صحافی نے شنکر اچاریہ سے ایک سوال کیا تھا عوام کے سامنے نہ سہی لیکن ڈھیروں کیمروں کی زد میں شنکر جی اس سوال پر ایسے بھنائے کہ اس صحافی کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کرڈالا، سوال یہ تھا کہ اگر نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم بن گئے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟

اس سوال کی تلخی اتنی شدید تھی کہ جواب دینے والے کا ہاتھ اٹھ گیا اور جواب دیا گیا کہ ایسا محسوس کروں گا۔۔۔۔ویسے تو یہ ان کے اپنے دل کی آواز تھی لیکن ساتھ ساتھ ایک صحافی کے منہ پر اس کار گزاری کی رپورٹ نے پورے ملک میں ان کے خلاف صدائیں بلند کروا دیں، یہ درست ہے کہ نریندر مودی کی تاریخ اور حال اتنا داغ دار ہے کہ مستقبل کا سوچ کر بھی جھرجھری سی ابھرتی ہے بہرحال شنکر جی کی حرکت غلط تھی۔

آنے والے وقتوں میں بھارت کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے؟ یہ ایک گمبھیر سوال ہے اور اس کا جواب وہاں بسنے والے مسلمانوں کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہے اس لیے کہ ہردوسری صورت ایک نئی شکل کے ساتھ بد سے بدتر نظر آرہی ہے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر بھی شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں حالیہ کانگریس کی حکومت نے ایک ہاتھ میں شکر تو دوسرے ہاتھ میں خنجر والی مثال قائم کی تھی امن دوستی اور سکھ کی آشا کے سیلاب میں کیا کچھ ڈوب چکا ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن اس کے پیچھے پھر اسی مظلوم عوام کی تمنائیں، آرزوئیں اور ظالم پیٹ کا سوال ہے جو اب خود ایک سوالیہ نشان بن کر ہماری نظروں کے سامنے جھول رہا ہے چند مخصوص طبقوں کی خواہشات کیسے کیسے کھیل کھیلتی ہیں اور اس سے کتنے مظلوم بے گناہ اثرانداز ہوتے ہیں اب احساس ہو رہا ہے لیکن ان کے درد کی شدت کہیں بہت دور سسک رہی ہے اس پر بحث پھر کبھی سہی۔

بی جے پی پرانی کہانی کو عوام کے ذہنوں سے محو کرنے کی ازحد کوششیں کرچکی ہے لیکن اب تک تو محسوس یہ ہو رہا ہے کہ لوگ پرانے زخم بھولے نہیں ہیں ،2002 کے گجرات کے فسادات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی جس پر آواز اٹھانیوالے سہم کر کونوں کھدروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے لیکن ایک فرض شناس ہندو پولیس افسر نے ایسے میں اپنے فرائض کو یاد رکھا لیکن اسے اس کی ایمانداری مہنگی پڑی اور اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ ایک ایسی حقیقی ڈرامائی آگ اور خون سے بھری کہانی تھی جس کا انت شاید اس بار ہوجائے اور تیسری بار بھی بے جے پی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔

لیکن جو اوپر والے نے لکھا ہوتا ہے وہ ہی ہوتا ہے 2000 میں ایک رپورٹ کیمطابق بھارت میں انتہا پسند ہندو تنظیموں کو باقاعدہ آتشیں اسلحے کی تربیت دی جانے لگی ہے، بجرنگ دل نامی بدنام تنظیم نے اپنے زہریلے مقاصد کے لیے باقاعدہ ایک فورس قائم کی تھی جس کا نام ’’خانگی فورس‘‘ تھا اس میں شامل ہونے والے ہندو نوجوانوں کو بندوق اور پستول چلانے کی مہارت دینے کا عزم کیا گیا۔ اس خبر کے بعد ہی بھارت میں اقلیتوں پر حملوں کا سلسلہ پھیل گیا، ان جنونیوں کے اقلیتوں پر حملوں کے خلاف اس وقت کی حکومت کو توجہ دلانے کے لیے ’’انسانی حقوق قومی کمیشن‘‘ قائم کیا گیا جس کی رپورٹ کے مطابق ’’کمیشن کو سالانہ پچاس ہزار شکایات موصول ہو رہی ہیں، صرف اپریل 99 سے مارچ 2000 تک کمیشن کو پچاس ہزار 634 شکایات موصول ہوئیں۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا عروج دیکھا گیا اور ان میں اترپردیش کی ریاست سر فہرست رہی جہاں سب سے زیادہ پولیس والوں کی ہلاکتیں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہوئے، ان تمام واقعات میں وہ واقعات سرفہرست ہیں جو بجرنگ دل نے بی جے پی کی آشیرواد میں سرانجام دیے تھے، لیکن تیسری بار بھی الیکشن میں سینہ ٹھونک کر قدم رکھنے والے بی جے پی کی نظریں اب بھی وزارت کے اہم منصب پر ہیں وہ چاہتی ہے کہ انتخابات وہ جیتے، نریندر مودی جو پہلے مسلم اقلیت کو اس دھرتی کا بوجھ سمجھ کر اتار پھینکنا چاہتے تھے لیکن اب الیکشن کے حوالے سے اس حساسیت کو بخوبی جان چکے ہیں۔

مسلم فسادات میں اب تک جتنا نقصان مسلمان اٹھا چکے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے لیکن نریندر مودی 2002 کے گجرات کے واقعے پر نظریں پھیر لینے کا مذاق ظاہر کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے وہ جان چکے ہیں کہ ووٹ کی گنتی کا اس اقلیت کی موجودگی اور پسندیدگی کا بہت اہم ہاتھ ہے لیکن وہ اپنی ذاتی رنجش اور انا کو بھلانے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں، کبھی ہاں کبھی ناں کی گردان انھیں آگے بڑھاتی نظر نہیں آتی۔

بھارت کی سیاست میں خواتین کا کردار بھی خاصا اہم نظر آتا ہے الیکشن میں آنے والے انتخابی حلقوں پر مقبولیت کا گراف دیکھتے شاید کہا جاسکتا ہے کہ خواتین بھی ماہر سیاستدانوں کی طرح اتار چڑھاؤ کے گر جان چکی ہیں لیکن اس بار نریندر مودی، راہول گاندھی اور اروند کیجری وال اہم منصب پر تیار بیٹھے ہیں 2009 کے الیکشن میں سونیا گاندھی کی پکی پکائی روٹی پر من موہن سنگھ نے حق جمالیا تھا اسے ان کی قسمت کا کرشمہ کہہ لیں یا سونیا گاندھی کی بدقسمتی لیکن اپنے پورے دور حکومت میں من موہن سنگھ نے جس رویے کو اختیار کر رکھا تھا شاید سونیا بی بی اس پر پورا اتر نہ سکتیں۔

اس لحاظ سے 2009 میں کانگریس کا فیصلہ صحیح ثابت ہوا لیکن اب ماں کے مقام پر نوجوان راہول گاندھی آچکے ہیں، حالانکہ یہ سونیا گاندھی ہی تھیں جنھوں نے کانگریس کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دے کر قابل کیا تھا جس نے انتہائی تیزی سے بلندی کی جانب سفر کیا اور حکومت کی کمان سنبھال لی لیکن اب راہول گاندھی اپنی والدہ کی محنتوں کا ثمر پانا چاہتے ہیں، اندرا گاندھی کے دونوں صاحبزادے جن حالات میں دنیا سے رخصت ہوئے تھے اس نے ان کی بیگمات کو کسی نہ کسی حوالے سے سیاسی میدان میں اترنے کے لیے راضی کر ہی لیا۔

سونیا کی کانگریس اور مانیکا گاندھی کی بی جے پی میں شمولیت نے واضح کر دیا تھا کہ دونوں خواتین کی سوچ اور نظریوں میں کتنا تضاد ہے، ورون گاندھی نے ایک انتخابی جلسے میں جس انداز سے مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی اس نے اس بات کا پول کھول دیا کہ موصوف کے عزائم بھارت کے ایک بڑے اقلیتی عنصر کے بارے میں کیا ہیں یوں 2009 میں ہی ورون گاندھی پورے ملک میں اس حوالے سے خاصے بدنام ہوگئے۔ اور بی جے پی اندرا گاندھی کی فیملی سپورٹ کے باوجود جیت نہ سکتی تھی۔

ایک کے بعد ایک شکست نے بی جے پی کے بھڑکتے جذبوں کو سرد نہ کیا اور اب تیسری بار بھی وہ بہت کچھ سوچ کر میدان میں اترے تو ہیں۔ نریندر مودی ایک ایسی متنازعہ شخصیت بن چکے ہیں جن کا داغ دار دامن مشرق سے لے کر مغرب تک اپنی بدنام کہانیوں کے باعث خاصا مشہور ہے لیکن سیاست کا چسکا کرسی کا نشہ سب کچھ بھلا کر آگے اور بہت آگے جانے کی دوڑ میں کھڑا کر دیتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بھارت کے 2014 کے الیکشن کے بعد کس جانب رخ کرتے ہیں کیا وہ تمام مبصرین کی رائے کے برخلاف خوش دلی سے دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے۔ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی بات کریں گے۔ مسلمان اقلیتی فرقے کو اس کا جائز حق دلائیں گے۔ بہت بڑے اور بھاری سوالات ہیں اور جواب؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔