افسروں کا کڑا احتساب کریں، ٹیکس نیٹ خود بڑھ جائے گا

امجد بخاری / کاشف رضا  جمعـء 16 مئ 2014
لوگ ٹیکس کلچر اور افسر سے خوفزدہ ہیں، ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں میں گیپ ختم کرنا ضروری ہے۔ فوٹو : شاہد سعید

لوگ ٹیکس کلچر اور افسر سے خوفزدہ ہیں، ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں میں گیپ ختم کرنا ضروری ہے۔ فوٹو : شاہد سعید

جون قریب آتے ہی بجٹ کی آمد آمد ہو جاتی ہے تنخواہ دار طبقہ نئی امیدیں وابستہ کرتا ہے تاجر منافع کی چھریاں تیز کر لیتے ہیں۔

سٹاکسٹ منڈیوں پر نظر بڑھاتے ہوئے چیزیں ذخیرہ کرنے کے نئے طریقے سوچتے ہیں عام آدمی معاشی بہتری کی توقعات وابستہ کرتا ہے اور ٹیکس گزاروں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے کہ بجٹ میں ان کے ساتھ کیا ہو گا۔ بجٹ دراصل اخراجات اور آمدن کا تخمینہ ہے پاکستان میں عموماً خسارے کے بجٹ بنتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ آمدن کم اور اخراجات زیادہ اور یہ زیادہ اخراجات قرضوں کے حصول سے پورے کئے جاتے ہیں۔

تجارتی خسارے کو کم کرنے کیلئے بھی بوجھ عوام کے ناتواں کندھوں پر منتقل کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین انہی دنوں سڑکوں پر آ کر تنخواہیں بڑھانے کیلئے حکومت پر اپنا دباؤ بڑھاتے ہیں۔ تاجر اور صنعتکار معاشی تخمینوں کو دیکھ کر مستقبل کی سرمایہ کاری پر غور کرتے ہیں۔ بجٹ تیاری کے مراحل میں ہے، طے کیا جا رہا ہے کہ ٹیکسوں میں کس طرح اضافہ کیا جائے۔ سرمایہ کار اور صنعتکار کو کس طرح مزید سرمایہ کاری پر راغب کیا جائے اور مختلف مدوں میں اخراجات کے حتمی تخمینے تیار کئے جائیں۔

ایسے میں ’’ایکسپریس‘‘ نے معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے صنعتکاروں کی بجٹ کے حوالے سے رائے اور تجاویز سامنے لانے کی کاوش کی ہے تاکہ اس اہم طبقے کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچے اور حکومت کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے میں گائیڈ لائن بھی فراہم ہو سکے۔روزنامہ ایکسپریس ملتان اور ایوان تجارت و صنعت ملتان کے اشتراک سے منعقدہ ایکسپریس پری بجٹ فورم کی روداد نذر قارئین ہے۔

خواجہ محمد عثمان(صدر ایوان تجارت و صنعت ملتان)

بجٹ کو صرف ٹیکسوں کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے حالانکہ بجٹ آپ کو بتاتا ہے کہ حکومت کی آئندہ مالی سال کی سمت کیا ہے وہ کہاں سے پیسہ اکٹھا کرے گی اور کہاں خرچ کرے گی۔ خرچ کرنے کے معاملہ میں سب سے کمزور سیکٹر تعلیم ہے تعلیمی شعبہ میں جی ڈی پی کا صرف 1.6 فیصد خرچ ہو رہا ہے اسے 5 فیصد تک خرچ ہونا چاہئے ورنہ ہم ترقی سے دور رہیں گے اور ماضی کی طرح ہر پالیسی کے بے سود نتائج ملیں گے۔ صحت کی سہولیات بڑی ناقص ہیں اس کا بجٹ بھی دو گنا کیا جائے۔ فوج اور پولیس کا بجٹ بھی بڑھایا جائے تاکہ امن و امان کی صورتحال بہتر رہے‘ ٹیکس نظام وسیع کرنا بھی ایشو ہے۔ ملک میں صرف 8 لاکھ ٹیکس گزار ہیں اگر حکومت پرعزم ہو اور تمام ادارے بھرپور ساتھ دیں تو ہم ٹیکس نیٹ بڑھا سکتے ہیں۔

لوگوں کو بتایا جائے کہ ٹیکس نیٹ میں ضرور آئیں تاکہ ملک کی ترقی ممکن ہو۔ قوم کو پیسہ خرچ کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے قوم پیسہ خرچ کرنا جانتی ہے اسے ٹیکس ادا کرنے کے بدلے میں کچھ نہ کچھ ریٹرن ضرور ملتا ہے۔

لوگوں کو صرف ٹیکس افسر اور ٹیکس کلچر سے خوف ہے ایک ٹیکس افسر کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں اگر وہ آپ کے گوشوارے پر اعتراض کر دے کہ آپ کا ٹیکس کم ہے تو یہ اعتراض دور کروانے میں تین سے چار سال لگ جاتے ہیں۔ اسی دوران ٹیکس گزار کا قیمتی وقت اور کیس لڑنے پر رقم ضائع ہوتی ہے اگر افسر کا اعتراض غلط ثابت ہو جائے تو اسے کوئی سزا نہیں دی جاتی‘ اس کا کوئی احتساب نہیں۔

ٹیکس افسروں کا رویہ بہتر کرکے اور انہیں احتساب کے کٹہرے میں لا کر ٹیکس نیٹ بڑھایا جا سکتا ہے‘ ٹیکس ادا کرنا فرض ہے۔ حکومت پیمرا کے ذریعے یہ قانون نافذ کر دے کہ کسی بھی چینل پر جو ڈرامہ آن ایئر ہو گا اس میں ایک یا دو منٹ کیلئے ٹیکس دینے کے حوالے سے آگہی ڈائیلاگ ضرور شامل ہونگے۔ اس سے ہمیں آئندہ پانچ‘ سات سال میں از خود ٹیکس دینے کی عادت پڑ جائے گی کیونکہ بطور قوم ابھی ہم ٹیکس چوری کرنا برا نہیں سمجھتے۔ تعلیمی نصاب میں ٹیکس ادائیگی کے مضامین شامل ہونے چاہئیں۔ بجٹ میں جنوبی پنجاب کے انفراسٹرکچر کیلئے خصوصی فنڈز رکھے جائیں۔

موٹرویز پر کام تیز کیا جائے تاکہ ٹرانسپورٹیشن سسٹم بہتر ہو‘ ٹیکسوں کا بوجھ کم کیا جائے‘ جنرل سیلز ٹیکس یک عددی کیا جائے‘ ان ڈائریکٹ ٹیکس کم کئے جائیں۔ حکومت کو تمام ایوان تجارت و صنعت شیڈو بجٹ بنا کر دینا چاہتے تھے مگر کسی ادارے نے اعداد و شمار نہیں دیئے اس لئے شیڈو بجٹ نہیں بنا کر دے سکے۔ بجٹ میں بنکوں کو پابند کیا جائے کہ ہر سال 5 ہزار نئے بزنس مین قرضے دیکر متعارف کروائے تاکہ معیشت تیزی سے آگے بڑھے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے قوم کو رقم بچانے کی بجائے خرچ کرنے والا بنا دیا۔

پہلے لوگوں کو پیسہ بچانے اور ضرورت کے وقت خرچ کرنے کی عادت تھی اس وقت 10 لاکھ روپے کی گاڑی وہی لیتا تھا جس کے پاس 20 لاکھ روپے کی بچت ہو مگر انہوں نے ایسی پالیسیاں متعارف کروائیں کہ 2 لاکھ روپے بچت والا بھی گاڑی کا مالک بن گیا۔ بنکوں کے ذریعے گاڑیاں ڈاؤن پیمنٹ پر لینے کریڈٹ کارڈ متعارف کروائے گئے۔ رقم نہ ہونے کے باوجود لوگ بنکوں سے سہولت ملنے پر رقم خرچ کرنے کے عادی ہو گئے۔

طاہر رحمن نقی(سینئر نائب صدر ایوان تجارت و صنعت ملتان)

امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے بجٹ میں اضافی فنڈز رکھے جائیں ہمارے ہاں امن و امان کنٹرول میں رکھنے کیلئے تربیت یافتہ افراد‘ ضروری آلات اور ٹیکنالوجی کی شدید کمی ہے۔ دنیا میں جس طرح امن و امان کنٹرول کیا جاتا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ ملک اور خصوصاً ملتان میں امن و امان کی صورتحال نہایت خراب ہے۔ ہر شخص بالخصوص کاروباری طبقات نہایت غیر محفوظ ہیں‘ چوری‘ ڈکیتی کی وارداتیں معمول بن چکی ہیں۔ وارداتوں کے خاتمہ میں پولیس ناکام نظر آتی ہے‘ صنعتکاروں کو اپنی فیکٹریوں‘ دفاتر کی سکیورٹی کیلئے بھی خود انتظامات کرنا پڑتے ہیں جن پر بھاری اخراجات آتے ہیں جو ایک اضافی مالی بوجھ ہے اگر امن و امان کی صورتحال ٹھیک ہو جائے تو کاروباری حالات نہ صرف بہتر ہو جائینگے بلکہ معاشی سرگرمیاں بھی تیز ہو جائینگی۔

جو پہلے ٹیکس نیٹ میں ہیں ان پر مزید بوجھ ڈالنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جو صحیح نہیں ہے۔ ایک عام آدمی کو بجٹ کے فوائد ملنے چاہئیں جو لوگ دستاویزی معیشت میں کام کرتے ہیں وہ بجٹ میں پھنس جاتے ہیں۔ صرف پہلے سے ٹیکس دینے والوں کو بجٹ میں قابو نہ کیا جائے جو لوگ قابل ٹیکس آمدنی رکھتے ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔

یہاں حالت یہ ہے کہ غریب سے غریب تر بھی ان ڈائریکٹ ٹیکس دے رہا ہے خواہ وہ دال‘ ماچس‘ دودھ کا پیکٹ‘ بجلی یا گیس لے۔ ٹیکس دینے کے باوجود بھی قوم کو کچھ نہیں ملا‘ ہمارا تحفظ نہیں ہے‘ ریلوے‘ پی آئی اے جیسے منافع بخش اور بڑے اداروں کا برا حال ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جب حکومت ٹیکس لینے کے بعد لوگوں کو کچھ نہیں دیتی تو پھر ٹیکس گزار کیسے حکومت پر اعتماد کر لے گا۔

سید افتخار علی شاہ (نائب صدر ایوان تجارت و صنعت ملتان)

بجٹ میں نئے ٹیکس نہ لگائے جائیں بلکہ نئے ٹیکس گزار تلاش کرکے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے تاکہ حکومت کو اور زیادہ ریونیو ملے اور حکومتی معاشی مشکلات میں کمی آئے جو لوگ پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں انہیں تنگ نہ کیا جائے بلکہ بجٹ دوستانہ ہونا چاہئے۔ حکومت امن و امان کی صورتحال بہتر بنائے۔

یہ صورتحال بہتر ہونے سے کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی اور ٹیکس ادائیگی میں اضافہ ہو گا۔ ایکسپورٹ پالیسی میں لوگوں کو مراعات دی جائیں تاکہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں اور دوسرے ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی عادت ختم ہو اور ہم خود انحصاری کی جانب راغب ہوں۔ حکومت کو چاہئے کہ دیگر ممالک میں پاکستانی سفارتخانوں کے کمرشل اتاشی فعال کریں تاکہ ہم ایکسپورٹ بڑھا سکیں۔ ایکسپورٹرز کو گزشتہ کچھ عرصہ سے بند کی گئی مراعات بحال کی جائیں۔

پروفیسر ڈاکٹر عمران شریف (چیئرمین شعبہ اکنامکس بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان)

حکومت پر لوگوں کا اعتماد اس کی پالیسیوں کی وجہ سے بنتا ہے۔ پاکستان میں جو بجٹ بنتا ہے اس میں خسارے کا بڑی خوشی سے بتایا جاتا ہے پھر اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے ورلڈ بنک یا کسی ملک سے قرضہ لینا پڑتا ہے۔

یہ خسارہ 3 یا 4 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے ورنہ معیشت پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بجٹ میں صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کیلئے نہ ہونے کے برابر فنڈز رکھے جاتے ہیں۔

گزشتہ بجٹ کے وعدے بھی ابھی تک پورے نہیں کئے گئے‘ وزیراعظم یوتھ لون سکیم کی قرعہ اندازی کے باوجود کامیاب امیدواروں کو ابھی تک قرضہ نہیں دیا گیا۔

ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں بہت بڑا گیپ ہے اسے ختم کیا جائے اور ان میں توازن لایا جائے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ہر سال خراب ہو رہی ہے اس کی بہتری کیلئے توجہ دی جائے‘ پولیس کا کردار اور بھی زیادہ منفی ہو گیا ہے جب سرمایہ کار کو جان کا تحفظ نہ ہو تو وہ نئی سرمایہ کاری کیسے کرے گا۔ پاکستان کے گروتھ ریٹ اور سرمایہ کاری کو بڑھانے کیلئے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار کو اعتماد دینا ضروری ہے۔ حکومت مختلف ٹریڈنگ بلاکس بنائے اس سے امپورٹس کم اور ایکسپورٹس بڑھتی ہیں۔

میاں اقبال حسن(کنوینر انجینئرنگ سب کمیٹی ایوان تجارت و صنعت ملتان)

مائیکرو‘ میکرو اکنامکس اور جی ڈی پی کی بنیاد پر بجٹ کا سارا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ بجٹ کسی بھی قوم کے ریونیو کلیکشن اور اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے جب اخراجات زیادہ ہوں تو تشویش ہوتی ہے کہ یہ رقم کہاں سے لائیں گے۔

حکومت کا وطیرہ ہے کہ اخراجات بڑھنے پر دیگر ممالک کی طرف امداد کیلئے دیکھتے ہیں ہم غریب ملک ہیں ہماری معیشت کی رفتار بڑھ نہیں رہی۔ بجٹ کیسا بھی ہو مگر عام آدمی کی حالت تو کبھی نہیں بدلی۔

قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت پیسہ کہاں سے لا رہی ہے اور کہاں خرچ کر رہی ہے۔ ہماری یہاں ٹیکس کو بھی صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا ہم نے ان ڈائریکٹ ٹیکس تو پروموٹ کئے ہیں مگر ڈائریکٹ ٹیکسوں کو بھی پروموٹ نہیں کیا۔ اس وجہ سے امیر‘ امیر تر اور غریب‘ غریب تر ہو رہا ہے کیونکہ امیر کو تو ٹیکس نہیں دینا پڑتا وہ غریب سے لے لیتا ہے۔ امپورٹس میں اضافہ ہو رہا ہے جب 20 ملین ڈالر کا تجارتی خسارہ ہو گا تو اس کا خمیازہ ہمیں ہی بھگتنا پڑے گا۔ 2020ء تک ہمیں خوراک کی کی کمی کا سامنا ہو گا اس کیلئے بھی ابھی سے منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔

محمد یونس غازی (وائس کنوینر ٹیکسیشن سب کمیٹی ایوان تجارت و صنعت ملتان و سابق صدر ٹیکس بار ایسوسی ایشن ملتان)

انکم ٹیکس کو بھی ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں شامل کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ ڈائریکٹ ٹیکس ہے۔ 80 فیصد ٹیکس حکومت ود ہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے وصول کر رہی ہے چاہے کسی کو نفع ہو یا نقصان ایک فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ضرور دینا پڑتا ہے اگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پورا دن فیکٹری نہ چلے تب بھی مالک اپنے مزدور کو پوری تنخواہ ادا کرتا ہے۔

حکومت بجٹ میں موجودہ ٹیکس نظام کو توسیع دے‘ صرف موجودہ ٹیکس گزاروں پر ہی کام ہو رہا ہے‘ نیا ٹیکس گزار تلاش نہیں کیا جا رہا۔ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اتنا بڑا ہے اس کا کام نئے ٹیکس گزار ڈھونڈنا‘ ان کی آمدنی کی اسسمنٹ (تشخیص) کرنا‘ ڈاکومینٹیشن کرنا اور ٹیکس کولیکشن کرنا ہے۔ ٹیکس سسٹم میں اتنے زیادہ جرمانے رکھے ہوئے ہیں کہ ٹیکس اور جرمانوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سال صرف 10 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے ہیں‘ ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے کے معاملے میں ایف بی آر گہری نیند سو رہا ہے۔

مرزا علی احمد(کنوینر سمال ٹریڈرز کمیٹی ایوان تجارت و صنعت ملتان)

الفاظ میں تو بجٹ سے ایک سال کی آمدنی اور خرچ کا حساب لگایا جاتا ہے جب ہم ذرائع آمدن بڑھاتے ہیں تو لوگوں کو سہولیات دینا بھی ضروری ہے جب ان ڈائریکٹ ٹیکس بڑھیں گے تو معیشت میں ٹیکس ریونیو کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا ہے اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پیداواری اخراجات بڑھیں گے تو مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا اور لوگوں کی قوت خرید کم ہو جائے گی جس سے ساری معیشت ریورس ہو جاتی ہے۔ حکومت ٹیکس جمع کرنے کیلئے شارٹ ٹرم پالیسیاں تو بہت بناتی ہے مگر لانگ ٹرم پالیسیاں نہیں بنائی جاتیں۔

ادھر کالا دھن پوری ملکی معیشت کو ڈسٹرب کر دیتا ہے‘ امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہو تو کون سرمایہ کاری کرے گا۔ حکومت چھوٹے تاجر کو دستاویزی معاملات میں نہ الجھائے‘ ٹیکس جمع کرنے میں چھوٹے تاجر پر اعتماد کریں‘ ڈاکومینٹیشن کی وجہ سے چھوٹا تاجر ٹیکس نیٹ میں آنے سے ڈرتا ہے۔ حکومت زراعت پر ٹیکس لگائے‘ ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے مراعات دی جائیں‘ ٹیکس گزار کو اولڈ ایج بینیفٹ دیا جائے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کر دیں تو وسائل استعمال کرکے معیشت تیزی سے ترقی کر سکتی ہے۔

مظفر حیات خان خاکوانی (رکن مینگو گروورز کمیٹی ایوان تجارت و صنعت ملتان)

حکومت فوڈ سکیورٹی کیلئے مناسب انداز میں کام نہیں کر رہی ہے۔ پانی کی کمی بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے زراعت کو خطرہ ہے‘ بدقسمتی سے پانی کی کمی بھی ہے اور پانی ضائع بھی ہو رہا ہے۔ ہمارے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے انتظامات نہیں ہیں‘ سڑکیں خستہ حال ہیں خصوصاً دیہات سے منڈیوں تک سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

ان سڑکوں کی مرمت کی جائے‘ روڈ انفراسٹرکچر بہتر بنایا جائے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر روئی کا واحد خریدار ہے اور اس کی اجارہ داری ہے حکومت روئی کا متبادل خریدار خصوصاً ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) و مارکیٹ میں متعارف کروائے۔ کاشتکاروں کیلئے کھادوں کی دستیابی یقینی بنائی جائے‘ پوٹاش فرٹیلائزر گزشتہ دس ماہ سے نہیں مل رہی ہے اس کی دستیابی کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ زرعی شعبہ پر متعدد ٹیکس لگے ہوئے ہیں جو کاشتکار ادا کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔