یوم نُکبہ پر اسرائیل کی بہیمانہ کارروائی

ایڈیٹوریل  جمعـء 16 مئ 2014
اسرائیل کی شروع ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ فلسطینیوں کے اندر داخلی اختلافات کو پروان چڑھایا جائے.    فوٹو؛ اے ایف پی

اسرائیل کی شروع ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ فلسطینیوں کے اندر داخلی اختلافات کو پروان چڑھایا جائے. فوٹو؛ اے ایف پی

چھیاسٹھ سال قبل صہیونی سازش سے فلسطین کو تقسیم کرنے کی تلخ یادوں کو تازہ کرنے کے لیے مقبوضہ بیت المقدس میں یوم نُکبہ(یوم تقسیم ) منایا گیا۔ اس موقع پر مختلف علاقوں میں فلسطینیوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف احتجاج کیا جب کہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے  احتجاجی مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے داغنے کے علاوہ فائرنگ بھی کی جس کے نتیجے میں حسب معمول چند فلسطینی نوجوان شہید ہو اور متعدد زخمی گئے۔ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں قابض اسرائیلی بارڈر پولیس نے فلسطینیوں پر فائرنگ کر دی۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق شہید ہونے والے دو فلسطینیوں کی عمریں بیس اور سترہ سال کی تھیں۔  دونوں کو براہ راست سینے میں گولیاں ماری گئیں۔ انھیں اسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔   اسرائیلی فوج کے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس اور رام اللہ کے درمیان واقع قلندریہ چیک پوائنٹ پر  دو سو کے قریب مظاہرین اور اسرائیلی فوجیوں میں تصادم ہوا جس میں فوج نے ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ شہر الخلیل میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے‘ غزہ کی پٹی کے قریب ایرز کراسنگ کی طرف بڑھنے والے فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

فلسطینی صدر محمود عباس کے ہیڈکوارٹرز شہر رام اللہ میں بھی یوم نکبہ پر فلسطین کی تقسیم کے 66 برس مکمل ہونے پر شہریوں نے 66 سیکنڈ تک خاموشی اختیار کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس موقع پر صدر محمود عباس نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ سال ہماری طویل جدوجہد کی کامیابی کا  سال ہو گا‘ یہ ہی وقت ہے کہ جدید تاریخ میں اس طویل غاصبانہ قبضے کو ختم کیا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ وقت ہے جب اسرائیلی رہنمائوں کو اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ فلسطینیوں کا فلسطین کے سوا اور کوئی وطن نہیں ہے۔‘‘

ادھر حماس اور الفتح میں مفاہمتی معاہدے کے تحت غزہ میں بھی حماس کے  وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ نے وزیر اعظم ہائوس خالی کر دیا ہے جب کہ فلسطینی وزارت داخلہ کے مطابق یاسر عرفات بلڈنگ بھی الفتح کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ الفتح اور حماس میں مفاہمت نہایت مثبت پیشرفت ہے تاہم اسرائیل اس مفاہمت پر سخت مشتعل ہے۔ حماس فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کا بازوئے شمشیر زن ہے جسے جدید ترین اسلحے کے انبار رکھنے والا اسرائیل دہشت گرد قرار دیتا ہے اور الفتح پر زور دیتا ہے کہ اگر اس نے حماس کے ساتھ مفاہمت ترک نہ کی تو اسرائیل اس کے ساتھ قیام امن کی کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔

اسرائیل کی شروع ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ فلسطینیوں کے اندر داخلی اختلافات کو پروان چڑھایا جائے تا کہ ان کو متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف جدوجہد کا موقع نہ مل سکے۔ واضح رہے مد مقابل میں سازشوں کے ذریعے  غلط فہمیاں پیدا کرنا اسرائیلیوں کی پرانی عادت ہے جس کے شواہد زمانہ قبل از اسلام کی تاریخ  میں بھی ملتے ہیں۔

بہرحال فلسطینی قیادت اب فہم و تدبر کا مظاہرہ کر رہی ہے‘ الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت بہت بڑی پیش رفت ہے‘ ان دونوں تنظیموں کے اختلافات سے اسرائیلی حکومت نے بہت فائدہ اٹھایا ہے‘ اب اسرائیل ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اگر فلسطینی قیادت اپنے اختلافات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور اس پر کاربند رہتی ہے تو پھر فلسطین  کی آزادی کو تادیر روکا نہیں جا سکتا‘ اسرائیل خواہ جتنی مرضی کوشش کرے۔ اسرائیلی سیکیورٹی حکام نے مقبوضہ بیت المقدس میں یوم نکبہ پر جو خون ریزی کی ہے‘ اس کا بھی اسے حساب دینا پڑے گا اور وہ دن دور نہیں جب بیت المقدس پر اس کا کنٹرول بلآخر ختم ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔