لگتا تو نہیں پر شاید

نصرت جاوید  جمعـء 16 مئ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

تحریک انصاف کے سیاسی دشمن اور اخباری ناقدین ہوشیار باش۔ اب یہ جماعت عمران خان کے وارفتہ مداحین کا محض ایک ہجوم ہی نہیں رہی۔ اس کے تجربہ کار سیاسی لوگوں میں سے اب چند افراد ’’خودمختارانہ انداز‘‘ میں بھی عمل پیرا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مقصد ان کا عمران خان کے خلاف بغاوت وغیرہ برپا کرنا ہرگز نہیں۔

وہ اپنے رہنما کی محبت میں اب بھی بہت پُر خلوص ہیں۔ ان میں اتنی طاقت ابھی پیدا نہیں ہوئی کہ وہ کپتان کے ان ’’بے ساختہ‘‘ نظر آنے والے فیصلوں کو روک سکیں جو تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین لوگوں کو ’’غیر سیاسی‘‘ یا جمہوریت کے خلاف ’’سازش‘‘ دکھا کر پیش کرتے ہیں۔ ہاں اس بات کی لگن اب بہت نمایاں نظر آنا شروع ہو گئی ہے کہ ایسے فیصلوں کے بارے میں پھیلائے منفی تاثر کی نفی کی جائے اور عمران خان کے فیصلوں کو ہر صورت کوئی مثبت نظر آنے والی Spin  فراہم کی جائے۔

تحریک انصاف میں اُبھرتے اس رحجان کا اظہار سب سے پہلے جاوید ہاشمی کی اس طویل تقریر کے ذریعے ہوا جو انھوں نے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران 11 مئی کے اسلا م آباد والے جلسے سے قبل فرمائی تھی۔ جاوید ہاشمی کی اس تقریر سے پہلے یہ تاثر بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا کہ نواز شریف حکومت کے عسکری قیادت کے ساتھ چند سنگین معاملات پر بڑھتے اختلافات کے ان دنوں میں عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف دھرنے رچانے کا منصوبہ ’’اچانک‘‘ کسی ’’اشارے‘‘ کی بدولت بنایا ہے۔ مقصد کچھ اس طرح کے حالات بنانا ہے جو بالآخر 5 جولائی 1977ء کے ذریعے ضیاء الحق کے ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کا باعث ٹھہرے۔

جاوید ہاشمی نے اپنی تقریر کے ذریعے بھرپور طریقے سے ہمیں یہ سمجھانا چاہا کہ ان کی جماعت نے کئی ماہ پہلے سے یہ طے کر رکھا تھا کہ اگر 2013ء کے انتخابات میں سرزد ہونے والی ’’دھاندلیوں‘‘کے خلاف کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے تو 11 مئی 2014ء کے روز ان انتخابات کے ایک سال مکمل ہو جانے پر بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ دھرنے کے فیصلے کو ایک سوچا سمجھا فیصلہ قرار دینے کے بعد ہاشمی صاحب نے سب سے زیادہ اصرار اس دعوے پر کیا کہ تحریک انصاف کے احتجاج کا ہدف قبل از وقت انتخاب کا حصول ہرگز نہیں۔ ان کی اصل خواہش ہے تو محض اتنی کہ آنے والے انتخابات کو صاف، شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں باہم ملکر کسی فول پروف نظام کی تلاش شروع کر دیں۔

ایمانداری کی بات ہے میں نے جاوید ہاشمی کی اس تقریر کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اپنے سنکی ذہن میں یہی سوچتا رہا کہ ہاشمی ایک بہادر آدمی والا ’’باغی‘‘ہے۔ جو دل میں آئے کہہ ڈالتا ہے۔ مجوزہ دھرنے کے بارے میں اس کی باتیں اپنی جگہ مگر تحریک انصاف کے پرجوش کارکن جو انٹرنیٹ پر ہمہ وقت طوفان اٹھائے رکھتے ہیں ’’باغی‘‘ کے اس عزم کو کیسے ہضم کر پائیں گے کہ ’’اگر اس پارلیمان کو کسی غیر جمہوری قوت نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی کہ وہ اس کے تحفظ کے لیے نواز شریف کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے‘‘ نواز شریف کے چند چاہنے والوں کی جانب سے جاوید ہاشمی کی اس تقریر کی والہانہ پذیرائی نے میرے شکوک و شبہات کو مزید تقویت فراہم کر دی۔

اتوار کا دھرنا گزر جانے کے مگر تین دن بعد مجھے تحریک انصاف میں ان دنوں شامل ایک پرانے کرم فرما کا ٹیلی فون آ گیا۔ انھوں نے حکم دیا کہ میں اسی جماعت کے ایک سرکردہ رہنما کے اسلام آباد والے گھر میں رات کے کھانے کے لیے حاضر ہو جائوں۔ پیر سے جمعہ کے دوران اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کی وجہ سے میں دوپہر یا شام کی دعوتوں میں شریک ہونے کا وقت نہیں نکال پاتا۔ اپنے اس کرم فرما کی بات ڈالنا مگر ممکن نہ تھا۔ لہٰذا کافی تاخیر سے کئی گھنٹے پہلے سے سجی اس محفل میں شریک ہو گیا۔

وہاں میزبان اور میرے کرم فرما کے علاوہ تین بڑے سینئر صحافی بھی موجود تھے۔ ان تینوں کا میرے شعبے میں بڑا مقام ہے۔ ان کی دیانت پر بدترین نقاد بھی اُنگلی نہیں اٹھا سکتے۔ البتہ ان کا شمار ان صحافیوں میں ضرور کیا جاتا ہے جنھیں ’’سُرخے یا جیالے‘‘ سمجھتے ہوئے اکثر ’’غداروں‘‘ کی صفوں میں دھکیلنے کی کوششیں ہوا کرتی ہیں۔

میرے اس دعوت میں پہنچنے سے پہلے اور پھر کافی دیر بعد تک ہم چاروں صحافی اس بات پر بضد رہے کہ عمران خان کی حالیہ ’’پھرتیوں‘‘ کا سبب کسی نہ کسی صورت وہ حالات بھی ہیں جو نواز حکومت نے کچھ معاملات پر سختی سے ڈٹ جانے کی وجہ سے اپنے لیے پیدا کیے ہیں۔ میزبان اور میرے کرم فرما نے ہمارے تندوتیز سوالوں کا مگر بڑی خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور ہر ممکن مگر قطعی مہذب اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ہمارے شکوک و شبہات کو غلط ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ بات مگر پھر بھی جم نہیں پا رہی تھی۔

بالآخر ہمارے میزبان نے گویا ’’ترپ‘‘ کا پتّا چل دیا۔ حقیقت چاہے کچھ بھی رہی ہو مگر تحریک انصاف کے اس سرکردہ رہنما نے ایک ایسا سوال کر دیا جس کا جواب کم از کم میں بھرپور ہاں میں دینے پر مجبور ہو گیا۔ سوال یہ تھا کہ عمران خان کے اسلام آباد والے جلسے نے کینیڈا میں بیٹھے ایک قادری کے 60 شہروں میں بیک وقت رچائے میلے کو Overshadow نہیں کر دیا جس کا واضح مقصد اس ملک میں جانے پہچانے آئینی اور جمہوری نظام کی ساکھ کو مکمل طور پر تباہ کرنا تھا۔

قادری شو کا عمران خان کے جلسے سے تقابل کرتے ہوئے ہمارے میزبان نے بعد ازاں بڑی مہارت سے یہ کہانی بننا شروع کر دی کہ تحریک انصاف کسی اور کے ’’اشاروں‘‘ پر جمہوری نظام کا تیا پانچہ کرنے سڑکوں پر نہیں نکلی۔ انتخابی نظام کو صاف اور شفاف بنانے کی جدوجہد کرتے ہوئے عمران خان اور ان کی جماعت تو بلکہ جمہوری نظام کو مزید توانا اور جاندار بنانے کی ایک پُر خلوص مہم چلا رہے ہیں۔

میزبان کی جانب سے یہ خوشگوار Spin سنتے ہوئے میرے شکی ذہن میں ’’لگدا تا نئیں پر شید‘‘ والا فقرہ کئی بار گونجا۔ میں لیکن اس کا اظہار نہ کر پایا۔ ہمارے میزبان اپنی کہانی کو درست ثابت کرنے میں چاہے وقتی طور پر سہی پوری طرح کامیاب ہو گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔