شفاف انتخابات اور قوانین

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعـء 16 مئ 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کا نیا الیکشن کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ شفاف انتخابی عمل سے منسلک ہے۔ عمران خان نے بائیو میٹرک نظام کے نفاذ، اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور نگراں سیٹ اپ میں شامل کسی فرد کو ایک سال تک سرکاری عہدے نہ دینے کے لیے مطالبات قانون سازی کے ذریعے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ عمران خان اگر شفاف انتخابات کو حکومت کو ختم کرنے کے لیے استعمال کریں گے تو سارا فائدہ اسٹیبلشمنٹ کو ہو گا۔

2008ء میں جو قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھی اس اسمبلی نے آئین میں کی گئی 18 ویں اور 19 ویں اور 20 ویں ترامیم منظور کر کے ایک خود مختار الیکشن کمیشن اور انتخابات کے انعقاد کے لیے نگراں حکومتوں کے قیام کو یقینی بنایا تھا۔ آئین میں کی گئی ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کے سربراہ کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاق کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح چاروں صوبوں کے چیف جسٹس کو الیکشن کمیشن کے ایک ایک نمایندے کی تقرری کا اختیار دیا گیا تھا، یوں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور چوہدری نثار علی خان کے اتفاق سے جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔

عمران خان نے بھی فخرالدین کی حمایت کی تھی۔ جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم نے شفاف انتخابات کے لیے تندہی سے کام کیا۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ سال پہلی دفعہ یومِ ووٹ منایا۔ اس موقعے پر ہونے والی تقریبات میں صوبائی الیکشن کمشنروں اور اسلام آباد میں جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے واضح کیا تھا کہ انتخابی فہرست میں ووٹروں کی تصاویر چسپاں ہوں گی اور نادرا انتخابی فہرستوں کو مکمل کر کے انتخابی فہرستیں کمیشن کے حوالے کرے گا۔ کمیشن نے انتخابی فہرستیں انٹرنیٹ پر شایع کرنے کے علاوہ SMS سروس بھی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ہر فرد SMS کے ذریعے اپنا نام ووٹر لسٹ میں درج ہونے کی تصدیق کر سکتا تھا۔

6 ہفتے قبل پولنگ اسٹیشنوں کی فہرست کے اجراء، ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق کے بائیو میٹرک سسٹم کے نفاذ، انگوٹھوں پر نہ مٹنے والی سیاہی لگانے، کیمروں کے ذریعے پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی، ووٹنگ کے بعد ہر امیدوار کے کاؤنٹنگ ایجنٹ کو نتائج کی فراہمی اور پولنگ اسٹیشن کے دروازے پر نتائج کے اعداد و شمار Counting Sheets کے چسپاں ہونے کے اعلانات کیے گئے تھے مگر گزشتہ مئی کا دوسرا ہفتہ انتخابات کی شفافیت پر بہت سے سیاہ نشانات چھوڑ گیا تھا۔ صوبائی الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کو مکمل کرنے کے انتظامات پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔ جب ووٹر لسٹیں سامنے آئیں تو اس میں بہت سی فاش غلطیاں نظر آئیں۔

کراچی میں برسوں سے آباد لوگوں کے نام ان کے آبائی علاقوں کی فہرستوں میں شامل کر دیے گئے، یوں ان لوگوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔  پولنگ اسٹیشنوں کی فہرست 6 ہفتے پہلے جاری نہیں کی گئی۔ انتخابات سے چند دن قبل یہ فہرستیں جاری ہوئیں۔ سپریم کورٹ نے امیدواروں پر پابندی عائد کی تھی کہ وہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لانے کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کریں گے۔ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پولنگ اسٹیشن ووٹروں کے گھروں کے قریب بنائے جائیں گے۔

الیکشن کمیشن کے حکام نے سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ووٹروں کے گھروں کے قریب پولنگ اسٹیشن قائم کیے مگر ایسی عمارتوں میں اسٹیشن بنائے گئے جہاں جانا ممکن نہیں تھا۔ ایک ہی عمارت کی مختلف منزلوں پر علیحدہ علیحدہ اسٹیشن بنے، کراچی میں تو اسکولوں کی بعض عمارتوں میں 6 سے 12 اسٹیشن قائم کیے گئے۔ یوں 11 مئی کو ووٹروں کے ہجوم نے سارے انتظامات دھرم بھرم کر دیے۔ گزشتہ انتخابات میں ریٹرننگ افسران نے نااہلی اور غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا۔ انتخابات سے قبل سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اچانک ریٹرننگ افسروں کو ہدایات دینے کا شوق پیدا ہوا۔

اگرچہ ریٹرننگ افسر کے فرائض انجام والے ایڈیشنل سیشن جج ان کے ماتحت نہیں تھے مگر موصوف نے ریٹرننگ افسروں کو آئین کے آرٹیکل 63 اور 64 پر سختی سے عملدرآمد کی ہدایات کیں۔ یوں ریٹرننگ افسروں نے پانچواں کلمہ یاد نہ ہونے، وضو کے طریقے وغیرہ بیان نہ کرنے پر امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کا سلسلہ شروع کرنے پر انتخابی عمل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی بصیرت سے یہ معاملہ طے ہوا۔ ان ریٹرننگ افسروں نے اپنے عملے کے انتخاب میں بھی دلچسپی نہیں لی۔ بہت سے لوگوں کے نام پریزائیڈنگ اور پولنگ افسروں کی فہرست میں شامل ہوئے مگر سفارشوں اور بعض جگہوں پر پیسے لے کر ان لوگوں کو الیکشن ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا۔

یوں انتخابی عملے کی کمی کی وجہ سے پولنگ اور گنتی کے مراحل میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ اسی طرح ان افسروں کی نااہلی سے بیلٹ بکس، مہریں، بیلٹ پیپرز اور دوسرا متعلقہ سامان بہت دیر میں پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچا۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کے بیشتر پولنگ اسٹیشنوں میں دیر سے پولنگ شروع ہوئی۔ کراچی میں تو بعض پولنگ اسٹیشنوں میں 3 بجے پولنگ کا عمل شروع ہوا۔ کراچی میں پولیس، رینجرز اور فوج نے اپنے فرائض انجام نہیں دیے۔ یوں گنتی کے وقت پولیس اور رینجرز والے لاپتہ ہو گئے، اسی طرح مسلح گروہوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کا موقع ملا۔ صدارتی انتخابات کے وقت سپریم کورٹ کے یکطرفہ فیصلے سے شفاف انتخابی عمل پر ایک اور دھچکہ لگا۔

یہ واضح ہو گیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تنہا رہ گئے ہیں اور الیکشن کمیشن کے چاروں صوبوں کے نامزد اراکین ان سے تعاون کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یوں چیف الیکشن کمشنر کی کمانڈ مضبوط نہ ہونے کی بناء پر الیکشن کمیشن انارکی کا شکار ہوا جس کی بناء پر انتخابی عمل کی شفافیت ایک سوال بن گئی۔ جب شکست خوردہ امیدواروں نے انتخابی عرضداشتیں الیکشن ٹریبونل میں داخل کیں اور انگوٹھوں کی کمپیوٹر کے ذریعے تصدیق کا مسئلہ آیا تو پتہ چلا کہ الیکشن کمیشن نے مقناطیسی سیاہی فراہم نہیں کی تھی، اس بناء پر کمپیوٹر ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق سے قاصر رہا۔

اس صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین نے استعفیٰ دیدیا تھا۔ اصولی طور پر تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فخر الدین جی ابراہیم کے استعفیٰ کی وجوہات پر بحث ہونی چاہیے تھی تا کہ مستقبل کے لیے مؤثر اقدامات ہو سکیں ۔ جسٹس فخرالدین جی ابراھیم کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بے جا مداخلت سے وہ فرائض انجام نہ دے سکے۔ یہ الزام الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد بھی عائد کرتے ہیں۔ آئین میں کی گئی ترمیم کے ذریعے جب الیکشن کمیشن اور چاروں اراکین کے اختیارات برابر ہیں تو یوں واحد کمانڈ نہ ہونے کی بناء پر کمیشن انارکی کا شکار ہوا۔ اس صورتحال کے تدارک اور چیف الیکشن کمشنر کو مکمل طور پر بااختیار بنانے کے لیے قانون میں ترمیم ضروری ہے۔

بھارت کی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشین، ووٹروں کی تصدیق کے لیے بائیومیٹرک مشین کے استعمال، پولنگ اسٹیشنوں کی سیٹلائٹ کے ذریعے نگرانی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے ووٹنگ کے عمل میں تیزی پیدا کر کے بین الاقوامی معیار کی شفافیت کا معیار حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں چیف الیکشن کمشنر کو لامحدود اختیارات  حاصل ہیں، وہاں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سیاسی رہنمائوں پر پابندیاں عائد کر دیتا ہے۔

بھارتی الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دوران نئے چیف آف آرمی اسٹاف کے تقرر پر پابندی لگا دی تھی، اس طرح بینکوں کو پولنگ کے دوران اپنے گاہکوں کو کیش دینے کی ممانعت کر دی تھی اور شراب فروخت کرنے پر پابندی تھی۔ اس طرح بھارتی عدالتیں الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتیں، نئے انتخابی قوانین میں چیف الیکشن کمشنر کو یہ تمام اختیارات بڑھائے جا سکتے ہیں اور ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لیے فوجداری اختیارات دیے جا سکتے ہیں۔

پولیس اور رینجرز کو پریذائڈنگ افسر کے احکامات کی لازمی پابندی کے لیے ضوابط کی بناء پر مسلح گروہوں کو پولنگ اسٹیشن پر قبضے سے روکا جا سکتا ہے۔  اگر عمران خان شفاف انتخابات میں سنجیدہ ہیں تو انھیں قومی اسمبلی میں ایک انتخابی قانون کا مسودہ پیش کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو انتخابی قوانین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کے سربراہوں کی ایک گول میز کانفرنس منعقد کرنی چاہیے۔

اگر تحریکِ انصاف نیا الیکشن کمیشن کے قیام کے مطالبے کو موجودہ قومی اسمبلی توڑنے، وسط مدتی انتخابات کرانے یا وزیر اعظم نواز شریف کو ہٹانے کے لیے استعمال کرنا چاہئیں تو شفاف انتخابات کے لیے قانون سازی نہیں ہو سکے گی۔  اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر مسلم لیگ ن کی حکومت کو ہٹایا گیا تو مستقبل میں آنے والی منتخب حکومت عسکری اسٹیبلشمنٹ کی محتاج ہو گی یوں ملک 15 سال بعد پھر ایک نئے بحران کا شکار ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔