پشاورہائیکورٹ کا سوموٹو نوٹس بھی افغان جوڑنے کو زندگی کی ضمانت نہ دے سکا

ذیشان انور  ہفتہ 17 مئ 2014
عدالت نے ڈی این اے کے بعدفیصلہ میاںبیوی کے حق میں دیا،قتل کی دھمکیوںکے بعد جوڑا سرکاری شیلٹرچھوڑکردربدرہے۔ فوٹو: فائل

عدالت نے ڈی این اے کے بعدفیصلہ میاںبیوی کے حق میں دیا،قتل کی دھمکیوںکے بعد جوڑا سرکاری شیلٹرچھوڑکردربدرہے۔ فوٹو: فائل

پشاور: پشاورہائیکورٹ کا سوموٹو نوٹس بھی افغان جوڑے کی زندگی کی ضمانت نہ دے سکا ۔یہ جوڑاجان بچانے کیلیے سرکاری شیلٹر ہائوس چھوڑکر ایک سال 9 ماہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اپنی نومولود بچی کے ساتھ صوبے کے مختلف علاقوں میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔

پڑوسی ملک افغانستان سے بھاگ کر پاکستان آنیوالے افغان جوڑے کو قتل  کی دھمکیاں ملنے پر  پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس دوست محمد خان نے جولائی 2012 میں سوموٹو نوٹس لیا تھا ، افغان جوڑے نے ایبٹ آباد میں پناہ حاصل کی اور وہیں نکاح کیا تاہم رشتے داروںکے پہنچ کر انھیں اغوا اور قتل کی کوشش کی جو پولیس نے ناکام بنادی تھی۔ پشاور ہائیکورٹ نے میڈیا رپورٹ کی روشنی میں سوموٹو نوٹس پر کارروائی شروع ہوتے ہوئے دونوں فریقین کو عدالت طلب کیا تھا ۔

افغان جوڑے مریم اور ھیواد پرگھر والوں نے الزام لگایا کہ مسماۃ مریم پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے 2 بچے بھی ہیں تاہم جوڑے نے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا جس پر جسٹس دوست محمد خان نے افغان جوڑے کو زندگی کے بنیادی حق کے تحفظ کی خاطر پشاور ویمن شیلٹر ہائوس میں جگہ دینے اور تمام بنیادی سہولیات ، سیکیورٹی دینے اور ماتحت عدلیہ کوکیس 3ماہ میں نمٹانے کے احکامات جاری کردیے تھے ۔

ماتحت عدلیہ نے کیس پرکارروائی شروع کرتے ہوئے افغان خاتون کے ڈی این اے ٹیسٹ سمیت دیگر تحقیقات مکمل کیں اورکیس پر فیصلہ افغان جوڑے کے حق میں دیا جس پر ایک بار پھر فریقین نے عدالتی فیصلے کو ماننے سے انکارکرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تاہم اپیل خارج کردی گئی۔ دوران ٹرائل ہی افغان جوڑے کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی تو دوسری جانب جوڑے کے گھر والوںکی جانب سے انہیں مارنے کی دھمکیوں میں تیزی آنے لگی اور انھیں واپس افغانستان لے جانے کی کوششوںکے باعث افغان جوڑے نے سرکاری شیلٹر ہائوس تو چھوڑ دیا لیکن ایک سال 9ماہ گزر جانے کے بعد بھی وہ صوبے کے مختلف علاقوں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ وہ اپنی آئندہ زندگی سکھ کے ساتھ گزار سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔