شیر شاہی شاہراہ سے کینال روڈ تک

انتظار حسین  اتوار 18 مئ 2014
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

استاد ذوقؔ کیا خوب شعر کہہ گئے ہیں کہ ؎

پُل بنا‘ چاہ بنا‘ مسجد و تالاب بنا

نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا

استاد ذوقؔ نے شعر بہت بعد میں کہا۔ شیر شاہ پہلے ہی ایک ایسی سڑک بنا گیا جو اس برصغیر کے ایک کنارے سے شروع ہوتی ہے اور اس کے آخری کنارے تک دوڑتی چلی جاتی ہے۔ سمجھ لیجیے کہ پشاور سے چلو اور کلکتہ تک اس لمبی سڑک پر دوڑتے چلے جائو۔ مسافر یہی کرتے تھے۔ اسباب سفر باندھا اور چل کھڑے ہوئے۔ وہ جو میر انیسؔ نے کہا تھا کہ ع

ہوتے ہیں بہت رنج مسافر کو سفر میں

تو اب اس سڑک کی وجہ سے رنج سفر میں بہت تخفیف ہو گئی تھی کیونکہ شیر شاہ نے یہ اہتمام بھی کیا تھا کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سزائیں ہوں۔ اور پیاسے مسافروں کے حساب سے پانی کا انتظام یعنی مسافر مسلمان ہے تو اس کے لیے سبیل۔ مسافر ہندو ہے تو اس کے لیے پیائو۔

شیر شاہ کا دور اقتدار بھی مختصر ہی تھا۔ لگتا ہے کہ بس اس سڑک کو بنانے کے لیے ہی اس نے ہمایوں کو دھکیل کر اپنی سلطنت قائم کی تھی مگر استاد ذوقؔ نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ فیض کے اسباب بنائو گے تو نام کمائو گے۔ سو ایک سڑک بنا کر شیر شاہ ایسا نام پیدا کر گیا کہ برصغیر کی تقسیم ہو گئی مگر سڑک برقرار ہے۔ ہاں ایک فرق ضرور پڑا ہے۔ یہ فرق ہم پر رضا علی عابدی نے واضح کیا۔ جب تک ہم پاکستان میں اس سڑک پر چلتے ہیں یہ سڑک گرینڈ ٹرنک روڈ کہلاتی ہے۔ ہندوستان میں داخل ہوتے ہیں تو وہ شیر شاہی سڑک کہلانے لگتی ہے۔ پاکستان شیر شاہ کا احسان سر پہ لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

خیر ذکر استاد ذوقؔ کے شعر کا تھا۔ وہ گئے زمانے میں بھی کار آمد تھا۔ آج بھی کارآمد ہے۔ آج یہ شعر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے حساب میں لکھا جائے گا۔ آپ دیکھتے نہیں‘ ہمارے آپ کے دیکھتے دیکھتے پنجاب میں اور خاص طور پر لاہور میں کتنی سڑکیں بچھا دی ہیں مگر اس کو کیا کیا جائے کہ لاہور کے اتنے پل بن گئے اتنی سڑکیں بچھ گئیں۔ سو ہر طرف فیض کے اسباب بکھرے نظر آ رہے ہیں مگر لاہور کا کسی طور پیٹ ہی نہیں بھرتا۔ سڑکیں اتنی بن گئیں پھر بھی تھوڑی نظر آ رہی ہیں۔ اس شہر کی زمین سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اور کتنے درختوں کی قربانی چاہتی ہے۔

تازہ خبر یہ ہے کہ اب نیا منصوبہ بننے لگا ہے منصوبہ یہ ہے کہ کینال روڈ کو مزید وسیع کیا جائے اور یہ کام منصوبہ سازوں کو یوں آسان نظر آ رہا ہے کہ نہر کے دونوں جانب جو سبزے کی پٹی بچھی ہوئی ہے، کچھ پھول کھلے ہوئے ہیں‘ کچھ درخت کھڑے ہیں بس انھیں صاف کرنا پڑے گا۔ سڑک پھر کتنی چوڑی ہو جائے گی۔ موٹروں کو فراٹے سے دوڑنے کے لیے کتنی گنجائش پیدا ہو جائے گی۔ اس پر لاہور بچائو تحریک کی سربراہ عمرانہ ٹوانہ نے ٹکڑا لگایا ہے کہ اس سبزے کو اجاڑنے پر یہ لوگ بس تھوڑا ہی کریں گے۔ چند برسوں کے بعد پھر سڑکوں کو وسیع کرنے کا سوال اٹھائیں گے اور یہ سوال اس وقت تک اٹھتا چلا جائے گا جب تک اس شہر میں ایک بھی درخت اور ایک بھی سبزے کا تختہ باقی ہے۔

اصل میں جب بھی ارباب شہر فیض کے اسباب پیدا کرنے لگتے ہیں تو لاہور بچائو اور درخت بچائو کی فریاد شروع ہو جاتی ہے اور فیض کے اسباب خواہ مخواہ بے فیض نظر آنے لگتے ہیں۔ شیر شاہی کام میں اچھی خاصی اڑیکن لگ جاتی ہے۔

ایک سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس شہر میں کتنے ہی پل بن جائیں کتنی ہی سڑکیں بچھ جائیں ان سے بس وقتی تسکین ہوتی ہے۔ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جو سڑکیں بنی تھیں وہ کم پڑ گئیں۔ شہر کو مزید سڑکیں درکار ہیں۔ وجہ‘ وجہ موٹروں کی یلغار ہے۔ یہ ساری نئی شاہراہیں موٹر سواروں کے لیے ہیں۔ موٹروں کی ریل پیل میں پیادہ پِٹ گیا۔ آپ دیکھتے نہیں کہ کتنی سڑکوں پر تو فٹ پاتھ ہیں ہی نہیں جن سڑکوں پر مثلاً مال روڈ پر کتنے کشادہ فٹ پاتھ تھے۔ فٹ پاتھ کے متصل سبزہ و گل کی کیاریاں۔ ان کیاریوں کو تو اجڑنا ہی تھا۔ فٹ پاتھ بھی اتنے تنگ ہو گئے کہ سڑک کے اتنے پیادوں کو آرام سے چلنے نہیں دیتے۔ سڑکوں کی ساری وسعتیں موٹروں کی نذر ہو گئیں۔ پھر بھی موٹروں کا پیٹ نہیں بھر رہا اور موٹر سوار جو ہمارے زمانے کے شہسوار ہیں ان کی طبیعت سیر نہیں ہو رہی۔

لگتا ہے کہ موٹروں کا سیلاب اس شہر کو‘ اس شہر کے درختوں کو‘ اس شہر کے سبزہ و گل کو بہا کر لے جائے گا۔ گویا اس شہر میں ساری راحتیں فیض کے سارے اسباب موٹر سواروں کے لیے ہیں۔ باقی خلقت کیا کرے‘ کہاں جائے۔ ارے بھائی جب موٹروں کی اتنی ریل پیل ہے تو ٹریفک کے انتظام کو اس حساب سے درست کیا جائے اور ملکوں کے بڑے شہروں میں اگر موٹروں کی ریل پیل ہے تو وہاں ٹریفک کے نظم و ضبط پر بھی تو خاص توجہ کی جاتی ہے۔

ہمارے یہاں مسئلہ کا واحد حل یہ نظر آتا ہے کہ سڑکوں کی توسیع کرو اور توسیع کرو۔ توسیع کی جائے گی تو پھر درخت تو کٹیں گے۔ کینال روڈ کی مجوزہ توسیع کی خاطر سولہ سو درختوں کی بیخ کنی مطلوب ہے۔ درخت بچائو والوں نے اعتراض کیا تو جواب ملا کہ میٹرو بس پروجیکٹ کی تقریب سے دو ہزار درخت کاٹے گئے تھے۔ اس وقت تو کسی نے درختوں کے کٹنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ پھر اب کیوں اعتراض کیا جا رہا ہے۔

اگر واقعی اس وقت لاہور بچائو اور درخت بچائو کی تحریکیں چلانے والوں نے واقعی کوئی اعتراض نہیں کیا تو پوچھنے والے بجا طور پر پوچھ سکتے ہیں کہ درختوں کے کٹنے پر تب کسی نے چوں نہیں کی تو اب اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے اور یار ان معترضین سے پوچھ سکتے ہیں کہ اس پورے عرصے میں تم سوتے رہے اب خواب غفلت سے کیا سوچ کر جاگے ہو۔ یہ جھرجھری بعد از وقت ہے۔

تو کیا موجودہ احتجاج کو مشتے بعد از جنگ سے تعبیر کیا جائے۔ تو پھر گویا موجودہ شیر شاہی منصوبہ اٹل ہے اور ذرا زمانے کا فرق دیکھو۔ شیر شاہ ایک سڑک بچھا کر سرخرو ہو گئے۔ میاں شہباز شریف نے اتنے پل بنائے‘ اتنی سڑکیں تعمیر کیں۔ پھر بھی یار مطمئن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔