اہرام مصر کی تعمیر کا راز دریافت؟

ندیم سبحان  منگل 20 مئ 2014
مزدور گیلی صحرائی ریت پر گاڑی گھسیٹتے تھے۔  فوٹو : فائل

مزدور گیلی صحرائی ریت پر گاڑی گھسیٹتے تھے۔ فوٹو : فائل

اہرام مصر ،جنھیں دنیا کا ساتواں عجوبہ بھی شمار کیا جاتا ہے، صدیوں سے عام انسانوں کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں کے لیے بھی معمّا بنے ہوئے ہیں۔

اہرام دراصل فراعین مصر اور ان کی بیویوں کے مقبرے تھے۔ وہ مرنے کے بعد اسی دنیا میں دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان رکھتے تھے۔ اسی لیے موت کے بعد ان لاشوں کو حنوط کرنے کے بعد ممی کی شکل میں اہرام کے اندر رکھ دیا جاتا تھا۔ ممی کے ساتھ زروجواہر اور دیگر اسباب بھی رکھا جاتا تھا جو ’ صاحب مقبرہ ‘ کے خیال میں دوسرے جنم کے بعد اس کے لیے ضروری ہوتا۔ حتی کہ ان کے پسندیدہ جانوروں کو بھی حنوط کرکے ان کے ساتھ ہی رکھ دیا جاتا تھا۔

اہراموں کی تعمیر میں سیکڑوں ہزاروں ٹن وزنی پتھر استعمال کیے جاتے تھے۔ اس وقت تک مصر میں جو اہرام دریافت ہوچکے ہیں وہ 2670 قبل مسیح سے لے کر 670 قبل مسیح کے دوران تعمیر کیے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ اُس زمانے میں آج کی طرح بھاری تعمیراتی مشینری موجود نہیں تھی، اس کے باوجود انتہائی وزنی دیوہیکل پتھروں کی مدد سے اہرام تعمیر کیے جاتے رہے۔

یہ پتھر ہموار اور مسطح تھے۔ اہرام مصر کی تعمیر کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تعمیرات کو ماورائی مخلوق کا کارنامہ بھی قرار دیا جاتا رہا ہے، مگر ماہرین تعمیرات اور سائنس داں اب تک وہ طریقہ نہیں جان سکے تھے جو ان حیرت انگیز اسٹرکچرز کی تعمیر کے لیے ہزاروں برس قبل اختیار کیا گیا تھا تاہم اب سائنس دانوں نے وہ طریقہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کے ذریعے اہرام مصر کی تعمیر کے لیے دیوہیکل پتھروں کی مطلوبہ مقام تک منتقلی عمل میں آتی تھی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اہراموں کی تعمیر کے لیے پتھر تراش خراش کر دوردراز مقامات سے لائے جاتے تھے۔ یونی ورسٹی آف ایمسٹرڈم کے محققین اہرام مصر کی تعمیر کا راز جاننے کی جستجو میں تھے۔ محققین کا کہنا ہے کہ اہراموں کی تعمیر کے لیے مصریوں کو انتہائی وزنی پتھر صحرا میں سے لے جانے پڑتے تھے۔ سائنس دانوں نے جب خود یہ عمل دہرانے کی کوشش کی تو ان پر انکشاف ہوا کہ بڑے بڑے پتھروں کی منتقلی کا راز گیلی ریت میںپوشیدہ ہے۔

تحقیقی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ بھاری پتھروں، مجسموں  اور دوسرے وزنی سامان کو ’’ سلیج ‘‘ پر رکھ دیا جاتا تھا جسے مزدور کھینچتے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر مصری صحرائی ریت پر پانی چھڑک کر اسے نم کرلیتے تھے تاکہ سلیج کو گھسیٹنے میں آسانی رہے۔ تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اگر ریت کو مناسب طور سے گیلا کرلیا جائے تو اس پر سے سامان کو کھینچنے کے لیے درکار قوت نصف رہ جاتی ہے۔

اس نظریے کی آزمائش کرنے کے لیے سائنس دانوں نے تجربہ گاہ میں ایک اسی طرح کی سلیج ریت سے بھری ہوئی ٹرے میں رکھی جیسی قدم زمانے میں مصری استعمال کرتے تھے۔ رَو پیما کی مدد سے سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ ریت کے سخت ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر سے سامان کو کھینچنے کے لیے درکار قوت میں بھی کمی آتی چلی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کی مناسب مقدار ملانے پر گیلی صحرائی ریت خشک ریت کے مقابلے میں دو گنا زیادہ سخت ہوجاتی ہے اور اس سخت ریت پر سے سلیج پھسلتی چلی جاتی ہے۔ خشک ریت پر سے سلیج کو کھینچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک قدیم پینٹنگ میں بھی اس ترکیب کی وضاحت ملتی ہے۔ یہ پینٹنگ 1900 قبل مسیح میںمصر پر حکومت کرنے والے بادشاہ Djehutihotep کے مقبرے کی دیوار پر بنائی گئی ہے۔ اس میں واضح طور پر ایک شخص سلیج کے آگے کھڑا ہوکر ریت پر پانی چھڑکتا ہوا نظر آرہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔