وقت کی ٹرین

جاوید چوہدری  پير 19 مئ 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہمارے پاس تین آپشن ہیں۔ہمارا پہلا آپشن جمہوریت ہے‘ ہم سب لوگ‘ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اور ہمارے ملکی اور غیر ملکی دوست دل سے یہ مان لیں جمہوریت دنیا کا بہترین اور فعال نظام حکومت ہے اور پاکستان کا مستقبل بھی امریکا‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس‘ جاپان اور بھارت کی طرح اسی نظام میں مضمر ہے اور ہم اس کے بعد ملک کے اندر اور ملک کے باہر سے جمہوریت کو ’’ڈی ریل‘‘ کرنا بند کر دیں‘ پاکستان کا کوئی ادارہ جمہوریت کے خلاف کوئی حرکت کرے اور نہ ہی ہمارے بیرونی دوست اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مارشل لاء لگوائیں‘ فوج بھی تسلیم کر لے پاکستان کا مقدر بہرحال جمہوریت ہی ہے‘ ہم عوام بھی دل سے مان لیں ہمارے مسائل کے حل پارلیمنٹ کی درازوں میں ہیں اور ہم جب تک اچھی لیڈر شپ کا بندوبست نہیں کریں گے‘ یہ درازیں نہیں کھلیں گی اور ہمارے سیاسی رہنما بھی مان لیں ہم آمر نہیں ہیں‘ ہم قوم کے خادم ہیں‘ ہم نے قوم کو خدمت سے بنانا ہے۔

ہم اگر جمہوریت کا آپشن استعمال کرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے جمہوری نظام میں چند بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی‘ ہمیں سب سے پہلے یہ ماننا ہو گا‘ پاکستان میں جمہوریت بدترین شکل میں نافذ ہے‘ سیاسی جماعتیں سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں‘ یہ سیاسی جاگیریں‘ سیاسی فیکٹریاں اور سیاسی کمپنیاں ہیں‘ یہ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی طرح وراثت میں اگلی نسل کو منتقل ہوتی ہیں‘ ہمارے سیاسی حلقے بھی سیاسی حلقے نہیں ہیں‘ یہ وراثتیں اور گدیاں ہیں‘ معاشرے کے نامعقول‘ جاہل‘ پھڈے باز اور مطلب پرست لوگ اکثر اوقات سیاست کا سہارا لے کر پورے نظام کو ہائی جیک کر لیتے ہیں‘ یہ نظام کے سر پر بیٹھ کر نظام کو تسلیم نہیں کرتے‘ یہ تھانے میں پیش ہونا‘ عدالت کا سامنا کرنا‘ سڑک پر رکنا‘ ٹیکس دینا‘ قطار میں کھڑا ہونا‘ سرکاری اہلکاروں سے انکار سننا‘ بل ادا کرنا اور میرٹ کا خیال رکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں‘ یہ وزارتیں لے لیتے ہیں لیکن ان میں وزیروں جیسی اہلیت نہیں ہوتی‘ یہ کرپشن‘ لوٹ کھسوٹ اور جرائم کو بھی اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ ہوٹر‘ سائرن اور پروٹوکول کو اپنی زندگی کا نصب العین گردانتے ہیں۔

ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ہمارا الیکشن سسٹم اس قدر کمزور ہے کہ کوئی بھی شخص‘ کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی مالدار پارٹی اسے آسانی سے ’’ہائی جیک‘‘ کرلیتی ہے چنانچہ ہمیں اپنی جمہوریت تبدیل کرنا ہو گی‘ ہمیں پارٹیوں کو خاندانوں کے پنجے سے آزاد کرانا ہو گا‘ ہمیں حلقوں کو بھی وراثت کے چنگل سے چھڑانا ہو گا‘ ہمیں الیکشن کمیشن میں بھی بھارت جیسی اصلاحات کرنا ہوں گی اور ہمیں ایک ایسا معاشرتی سسٹم بھی بنانا ہو گا جس کی چھلنی سے صرف ایسے لوگ چھن کر پارلیمنٹ ہاؤس پہنچیں جن کی ایمانداری‘ حب الوطنی‘ دانش مندی‘ ذہانت‘ فطانت اور قانون پرستی کی قسم کھائی جا سکے۔

جو مطالعے میں پروفیسر‘ فیصلوں میں جرنیل‘ گفتگو میں وکیل‘ صحت میں مسٹر پاکستان اور شرافت میں ولی ہوں اور جن کے کریکٹر کو بڑے سے بڑے دشمن بھی مانتے ہوں اور ہمیں اگر اس کے لیے پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف بھی جانا پڑے تو ہمیں دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر سیاستدانوں کو سینیٹ کو اعلیٰ ترین دماغوں کا کلب بنا دینا چاہیے‘ سینیٹ میں صرف شاندار دماغ جا سکیں‘ کابینہ کے لیے وفاقی وزراء سینیٹ سے لیے جائیں جب کہ وزیر مملکت قومی اسمبلی سے منتخب کیے جائیں‘ یوں بھی معاملہ خاصی حد تک کنٹرول میں آ جائے گا‘ ہم نے اگر فوری طور پر یہ نہ کیا تو پھر ملک میں جمہوریت بچانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ یہ جمہوریت ملک کو نااہلی‘ کرپشن‘ فساد اور خاندانی آمریت کے سوا کچھ نہیں دے رہی‘ یہ حکمرانی کا تاج بادشاہوں کے نااہل بچوں کے سروں پر رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی!۔

ہمارا دوسرا آپشن فوج ہے‘ فوج بلاشبہ ملک کا منظم ترین ادارہ ہے‘ یہ اپنے افسروں کو جسمانی ٹریننگ بھی دیتی ہے اور ذہنی بھی۔ افواج پاکستان کے 95 فیصد افسر ایکسرسائز بھی کرتے ہیں‘ کتابیں بھی پڑھتے ہیں‘ لیڈر شپ کے کورسز بھی کرتے ہیں‘ سیاسی‘ سفارتی اور سماجی موضوعات پر لیکچر بھی اٹینڈ کرتے ہیں اور ملک کے اندر اور بیرون ملک تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں‘ ہمیں یہ ماننا پڑے گاملکی نظام ڈھیلا ہونے کے باوجودفوج میں آج بھی احتساب‘ ٹریننگ اور میرٹ موجود ہے۔

فوج میں جنرل کا بیٹا ہو یا صوبیدار کا یہ ایک ہی عمل سے گزر کر افسر بنتا ہے‘ ملک کے 99 فیصد آرمی چیف  مڈل کلاس کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور یہ بڑی جدوجہد کے بعد اعلیٰ ترین منصب پر پہنچے تھے‘ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ملک میں کرپشن کلچر کے باوجود فوجی افسر اتنے کرپٹ نہیں ہیں جتنے دوسرے شعبوں کے لوگ ہوتے ہیں‘ ہم جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہیں لیکن ہمیں تمام تر مخالفت کے باوجود ان کی ’’کمیونیکیشن سکل‘‘ کا اعتراف کرنا پڑے گا‘ یہ جس طرح میڈیا اور بین الاقوامی فورمز سے مخاطب ہوتے تھے‘ ہمارا کوئی دوسرا لیڈر اس گھن گرج اور دلیل سے بات نہیں کر سکتا اور یہ جس طرح بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے رہے ہیں‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اس طرح ہارورڈ اور سٹین فورڈ یونیورسٹی میں کھڑے نہیں ہو سکتے‘ فوج آج بھی ملک کے لیے قربانیاں دے رہی ہے‘ یہ قربانیاں بارڈر پر ہوں یا پھر بارڈر کے اندر ہمیں بہرحال یہ قربانیاں بھی تسلیم کرنا پڑیں گی چنانچہ فوج دوسرا آپشن ہے۔

فوج پانچویں مرتبہ بھی ملک کی عنان اقتدار سنبھال سکتی ہے لیکن یہ عنان پچھلی چار عنانوں سے مختلف ہونی چاہیے‘ فوج کو اقتدار میں آنے سے قبل یہ ماننا ہو گا ملک آج جس نہج تک پہنچا اس کی 80 فیصد ذمے داری فوج پر عائد ہوتی ہے‘ ملک کے ہر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ذاتی اقتدار کے دوام کے لیے سیاسی جماعت بنائی‘ اس شاہی جماعت نے بعد ازاں ملک سے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا‘ ہمارے یونیفارم صدور اپنے جونیئرز کا حق بھی مار کر بیٹھ گئے اور یوں فوج دس سال بعد اپنے حق کے لیے ان کی قربانی دینے پر مجبور ہو گئی چنانچہ فوج کو پانچویں مرتبہ آنے سے قبل چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے‘ فوجی آمر اقتدار میں آنے کے بعد یونیفارم اتار دے تا کہ اسے یونیفارم بچانے کے لیے پی سی اوز‘ سمجھوتے‘ ایل ایف اوز اور آئین میں بڑی تبدیلیاں نہ کرنی پڑیں‘ یہ حکمران کوئی کنگز پارٹی نہ بنائے‘ فوج اس کی واحد پارٹی ہو‘ یہ سول اداروں میں فوجی بھی تعینات نہ کرے کیونکہ اس سے فوج کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔

فوجی آمر تیس سال تک واپس نہ جائے‘ یہ ان تیس برسوں میں ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کو ڈویلپ ہونے دے‘ ان جماعتوں کو بلدیاتی نظام سے اٹھایا جائے‘ انھیں چھوٹے شہروں اور قصبوں کو ڈویلپ کرنے کا کام دیا جائے‘یہ پولیس اور عدالتوں کا نظام بہتر بنائے‘ ملک میں رول آف لاء ہو‘ تعلیم‘ صحت‘ قانون اور روزگار پر خصوصی توجہ دی جائے‘ سول سروس کو دوبارہ قدموں پر کھڑا کیا جائے اور جب یہ تمام کام ہو جائیں تو ایک جامع عمل کے ذریعے اقتدار سیاستدانوں کو منتقل کر دیا جائے‘ یہ فیصلہ بھی کر لیا جائے فوجی حکمران کے خاندان کا کوئی فرد سیاست‘ صنعت اور کاروبار میں نہیں آئے گا‘ یہ عام پاکستانیوں کی طرح زندگی گزاریں گے‘ فوج اگر یہ فیصلہ کر لے تو درست بصورت دیگر پانچواں مارشل لاء اس ملک کا آخری مارشل لاء ثابت ہو گا کیونکہ اس کے بعد مارشل بچے گا اور نہ ہی لاء۔

ہمارے پاس تیسرا اور آخری آپشن مذہبی جماعتیں ہیں‘ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے ملک پچھلے دس برسوں میں عسکری تنظیموں کے ہاتھوں میں منتقل ہو چکا ہے‘ جب جی ایچ کیو‘ مہران نیول بیس اور کامرہ ائیر بیس کا محاصرہ ہو جائے‘ جب دو بڑی جیلیں ٹوٹ جائیں‘ جب ہیوی مینڈیٹ نامعلوم شخص کے ایک خط پر پھانسی کی سزائیں معطل کر دے اور جب ریاست کمزور پوزیشن سے مذاکرات شروع کر دے تو پھر انکار کی کیا گنجائش بچتی ہے‘ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ملک کی کوئی سیاسی جماعت مذہبی دھڑوں کی حمایت کے بغیر اقتدار تک پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی اقتدار سلامت رکھ سکتی ہے‘ مذہبی جماعتیں عوام میں بے انتہا پذیرائی رکھتی ہیں‘ آج کسی ایک مکتبہ فکر کی کوئی جماعت کال دیتی ہے تو پورا ملک بند ہو جاتا ہے۔

کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کا ہولڈ تھا‘ ملک کی کوئی سیاسی جماعت یہ ہولڈ نہیں توڑ سکی‘اگر اس ہولڈ کو کسی نے چیلنج کیا تو یہ مذہبی جماعتیں ہیں‘ ملک میں اگر ایک مذہبی جماعت فتویٰ جاری کر دے تو جیو جیسا چینل بھی بند ہو جاتا ہے‘ یہ لوگ اسٹریٹ پاور بھی رکھتے ہیں‘ طاقت بھی اور اثر و رسوخ بھی۔  یہ ملک میں اسلامی شریعت بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں اور جس دن انھوں نے شریعت کے نفاذ کا فیصلہ کرلیا یہ کام اس دن ہو جائے گا اور کوئی ملکی اور غیر ملکی طاقت اسے ہونے سے روک نہیں سکے گی‘ ہمارے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے‘ ہم ملک ان کے حوالے کر دیں مگر ہمیں اس سے قبل بھی چند بڑے فیصلے کرنا پڑیں گے۔

ہمارے علماء کو اپنے فروعی اختلافات ختم کرنے پڑیں گے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہومذہبی جماعتوں کے قبضے کے بعد ملک مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جائے اور یہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں‘ ہمیں اس سے قبل اپنے ایٹمی اثاثوں‘ بین الاقوامی معاہدوں‘ 20کروڑ لوگوں کی خوراک‘ ادویات‘ پانی اور بجلی اور فارن ریزروز‘ انٹرنیشنل فلائیٹس‘گیس اور پٹرول کا بندوبست بھی کرنا ہوگا کیونکہ دنیا انقلاب کے آدھ گھنٹے بعد ہم سے یہ ساری سہولتیں چھین لے گی۔

ہمیں اس سے قبل اپنے دو خوفناک ہمسائیوں عبداللہ عبداللہ اور نریندر مودی سے بچاؤ کا بندوبست بھی کرنا ہوگا کیونکہ یہ دونوں اور ان دونوں کے ملک ہمیں زیادہ مہلت نہیں دیں گے اور ہمیں سب سے بڑھ کرملک چلانے کے لیے دو کروڑ پڑھے لکھے ہنر مندوں کی ضرورت بھی پڑے گی‘ ہمیں ان کا بندوبست بھی کرنا پڑے گا اور ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا ہمیں جب اپنے برادر اسلامی ملک تسلیم کرنے سے انکار کردیں گے تو ہم سفارتی دباؤ میں آئیں گے اور یہ سفارتی دباؤ ہمیں ’’گلوبل ویلج‘‘ میں اکیلا کردے گا‘ ہم سفارتی تنہائی سے کیسے نکلیں گے؟۔

ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں‘ ہمیں فوری طور پر ایک آپشن اٹھانا ہو گا‘ ہم نے اگر دیر کردی تو ہمارے پاس یہ آپشن بھی نہیں بچیں گے کیونکہ فرد ہوں یا قومیں وقت کی ٹرین زیادہ دیر تک انتظار نہیں کیا کرتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔