بھارتی مسلمانوں کے ہم ذمے دار

عبدالقادر حسن  پير 19 مئ 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سید کبیر علی واسطی کا یہ فتویٰ ہے کہ بھارت میں موجود مسلمانوں کی حفاظت ہم پاکستانیوں کی ذمے داری ہے۔ یہ فتویٰ ایک تاریخی حقیقت ہے جس پر بحث جاری رہے گی، اب آگے چلتے ہیں اور اس اعتراف کے ساتھ کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں پہلی بار مسلمان دشمنوں کے زبردست دباؤ میں ہیں اور دشمن بھی وہ جو ان مسلمانوں کو صرف شکست دینا ہی نہیں چاہتے انھیں سرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بات چھپاتے بھی نہیں ہیں۔ بھارت کے نئے وزیراعظم  مودی صاحب سے جب ایک بار کہا گیا کہ بعض مسلمان آپ کی گاڑی کے نیچے آ کر مر گئے تو انھوں نے جواب دیا کہ کتے بلے مرتے ہی رہتے ہیں اور یہ ان کا صحیح جواب تھا وہ مسلمانوں کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔

ان کی وزارت اعلیٰ کے زمانے میں گجرات میں انتظامیہ سے کہا گیا کہ وہ جس قدر مسلمان قتل کرسکتی ہے کر دے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس وقت آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ ہندو حکمرانوں کے مسلمانوں کے بارے میں کیا ارادے ہیں۔ دشمنوں کے ان ارادوں کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی حفاظت کرنی ہے اور بھارت میں آباد مسلمانوں کو بچانا ہے۔ یہ اس لیے کہ بھارت میں آباد مسلمانوں کے تحفظ کی ذمے داری ہماری ہے۔ یہ تحریک پاکستان کا حصہ ہے قیام پاکستان کے وقت جب یہ سوال پیدا ہوا کہ بھارت میں آباد مسلمانوں کے تحفظ کا کیا ہو گا تو پاکستان نے اسے اپنے ذمے لے لیا بلکہ بھارت کی جارحیت سے بچنے کے لیے دوسری غیر مسلم قوموں نے بھی کہا کہ ہمیں بھارت سے پاکستان بچائے گا۔ سری لنکا میں جب بھارتی تامل ناڈو سرگرم ہوئے تو پاکستان نے ان کو نکیل ڈالی بلکہ بدھ مت کو ماننے والی اس قوم کو فوج قائم کرنے پر تیار کیا اور اس فوج کے قیام میں مدد بھی دی۔

بھارت کے پڑوسی ان ملکوں کا دورہ کرنے کا مجھے بار بار موقع ملا تو گفتگو میں ان ملکوں نے ہر بار پاکستان سے اس امید کا ذکر کیا۔ تعجب ہو گا کہ دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال نے بھی بھارت سے خطرے کا اظہار کیا اور پاکستان کے ساتھ امیدیں وابستہ کیں۔ نیپال کا راستہ بھارت سے گزرتا ہے اور بھارت اسے بہت تنگ کرتا ہے بہرکیف بھارت کا کوئی پڑوسی بھی اس سے بے فکر نہیں ہے خواہ وہ اس کا ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ان دونوں کے تعلق کی بنیاد ہی دشمنی پر ہے۔ وہی دشمنی جس کے بارے میں اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش بنا کر ہم نے مسلمانوں سے ہزار سال کا بدلہ لیا ہے اور اس کی اس طویل غلامی سے آزاد ہوئے ہیں۔ بھارت کی سرزمین پر قیام پاکستان کے بارے میں ایک بلیغ اشارہ قائداعظم نے کیا تھا کہ جس بھارتی نے پہلی بار کلمہ پڑھا وہ ہمارا پہلا پاکستانی شہری تھا۔

برصغیر میں ہندو پاک تعلقات اتنے واضح ہیں اور ان کی تاریخ ایسی ہے کہ یہاں کے ہر مسلمان بچے کو بھی یاد ہے۔ کسی بھی مسجد کی اذان دن رات ہمارے بچوں کو ان کا مذہب یاد دلاتی ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں نے جب دو قومی نظریے کا اعلان کیا تو یہ پاکستان کے قیام کا اعلان نہیں تھا، یہ ہر اس مسلم آبادی کے پاکستان کا اعلان تھا جو بعد میں سمٹ کر پاکستان تک محدود ہو گیا۔ بھارتی لیڈروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس خطے میں مسلمان آبادی صرف ملک پاکستان تک محدود نہیں ہے۔

ہمارے علماء اور سیاسی جماعتوں کا بڑا اختلاف یہ تھا کہ علماء اس ملک کے دعوے دار اور طلب گار تھے جس پر انگریزوں نے قبضہ کیا تھا، علماء کا موقف یہ تھا کہ پاکستان وہ پورا مسلمان ہندوستان نہیں ہے جو مسلمانوں کی ملکیت تھا۔ علماء کے بقول مسلمانوں کا پورا ہندوستان تھا۔ پاکستان کو اس وسیع و عریض مسلم ہندوستان کا صرف ایک حصہ سمجھیں جس پر ہمارے آباؤ اجداد کی عملداری تھی۔ 1947ء کا ہندوستان ذہن میں لائیں، کیا یہ صرف پاکستان کے برابر تھا۔ بالکل نہیں۔ باوجود غداروں کی کامیابیوں کے اور حکومت کی کمزوریوں کے بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا فرمانروا تھا جسے معزول کر کے انگریزوں نے پورے ہندوستان پر اپنی عملداری قائم کر لی تھی۔

بھارت کے ہندو حکمران آج کے کمزور مسلمانوں کو تنگ نہ کریں۔ ذرا ذہن میں رکھیں کہ مسلمانوں کے پاس سات لاکھ دنیا کی بہترین فوج ہے جس کی تربیت پر فخر کیا جاتا ہے اور جو میدان جنگ میں جوہر دکھا چکی ہے اور ہندو افواج اس کی شاہد ہیں پھر اسی فوج کے پاس اپنے دور کا بہترین ایٹم بم بھی ہے جس کی سائنسی برتری کو دنیا تسلیم کرتی ہے ،کیا سات لاکھ فوج اور ایٹم بم کا مقابلہ کوئی کر سکتا ہے، مجھے نہیں معلوم کم از کم بھارت تو نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے ہاں مجبور مسلمانوں کو تنگ کر سکتا ہے لیکن اس وقت تک جب حکومت پاکستان پیار و محبت ختم  کر دے اور ویزوں کے کھلے اجراء کا شوق واپس لے لے۔ ہم لاہوریوں نے بھارت کی گلی سڑی سبزیاں بہت کھا لی ہیں اب ہمارے معدے انھیں مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ کاروبار کوئی عیب نہیں۔ خصوصاً کاروباری حکمرانوں کو یہ پسند بھی بہت ہے۔ اپنا سامان بیچیں اور نفع کمائیں۔ دنیا ساری کاروبار پر چل رہی ہے ملکوں کے تعلقات کا پیمانہ کاروبار کو سمجھا جاتا ہے اور ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ نفع میں رہے لیکن اپنے وقار کے ساتھ۔ کاروبار طاقت کے ذریعے ہے اور فوج خواہ کتنی بھی ہو معاشی طاقت نہ ہو تو یہ کامیاب نہیں ہوتی۔ نپولین کے بقول طاقت سپاہی کے معدے سے ہو کر گزرتی ہے۔

بھارت کے انتخابات نے جو موضوع جگا دیا ہے وہ اب جاگتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔