ڈاکٹر ذاکر حسین کی یاد میں

شکیل فاروقی  پير 19 مئ 2014
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

مئی کے مہینے کو ڈاکٹر ذاکر حسین (مرحوم) کی ذات اور شخصیت سے ایک خصوصی نسبت ہے۔ مئی 1962 میں انھوں نے نائب صدر جمہوریہ ہند کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس کے بعد 1967 میں جب وہ صدر جمہوریہ ہند منتخب ہوئے تو تب بھی مئی کا ہی مہینہ تھا اور پھر اسی ماہ کی 9 تاریخ کو ان کی کامیابی کا اعلان ہوا جس کے بعد 13 مئی کو انھوں نے حلف وفاداری اٹھایا۔ اور پھر جب سنیچر (ہفتے) کے روز صبح کے سوا گیارہ بجے انھوں نے اس دار فانی سے کوچ کیا تو تب بھی مئی کا ہی مہینہ تھا اور تاریخ 3 تھی۔ یہ تاریخی منظر اس لحاظ سے بڑا عجیب اور یادگار تھا کہ یہ پہلا موقع تھا جب راشٹر پتی بھون (ایوان صدر) کے درودیوار قرآن مجید کی تلاوت سے گونج رہے تھے۔ ہزاروں اہل ایمان اور علمائے کرام نے ڈاکٹر صاحب کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین خان کی بلند پایہ اور شش جہت شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔

کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بلاشبہ وہ ایک مجموعہ صفات تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے اولین شیخ الجامعہ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر، صوبہ بہار کے گورنر اور پھر اس کے بعد بالترتیب نائب صدر اور صدر جمہوریہ ہند۔ مگر ان کی اولین اور آخری شناخت ایک بے مثل ماہر تعلیم کی تھی جس کا تمام چھوٹے بڑے اور اپنے پرائے سب ہی لوہا مانتے تھے۔ ان کی اسی امتیازی خصوصیت کی بنا پر گاندھی جی نے انھیں آزاد ہندوستان کے نظام تعلیم وضع کرنے کی سب سے بڑی ذمے داری سونپی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے تعلیمی ویژن اور علمی عظمت کا اندازہ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ ہی سے لگایا جاسکتا ہے جس کی تخم ریزی اور آبیاری انھوں نے اس انداز سے کی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا ہوا آج یہ ادارہ ایک مثالی درس گاہ بن چکا ہے جس کی شہرت کی گونج پورے ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔

دہرا بدن، کھلتا ہوا گندمی رنگ، چہرے پر خوبصورت داڑھی، آنکھیں روشن، کشادہ پیشانی، چہرے سے ذہانت، متانت اور بلند نگاہی عیاں، جسم پرخوبصورت شیروانی اور سر پرکشتی نما سادہ مگر دیدہ زیب ٹوپی، یہ تھا ڈاکٹر صاحب کا پرکشش سراپا جس پر دیکھنے والے کی نظر پڑ جائے تو ہٹنے کا نام ہی نہ لے۔ ڈاکٹر صاحب جب جرمنی سے نئے نئے واپس آئے تھے تو انھوں نے مولانا محمد علی اور حکیم اجمل خان کے بے حد اصرار پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پرنسپل کی ذمے داری قبول کی تھی۔ اس وقت جامعہ ملیہ دہلی کے علاقے ترول باغ میں ہوا کرتی تھی جہاں سے اسے بعد میں دریائے جمنا کے کنارے واقعے اوکھلا کے اس علاقے میں منتقل کردیا جو اب ذاکر صاحب ہی کے نام پر ذاکر نگر کہلاتا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامی کی پرنسپل شپ کا ابتدائی دور ڈاکٹر صاحب کے لیے کڑی آزمائش کا دور تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جامعہ کی مالی حالت اچھی نہ تھی اور اس کا گزارا چند مخلص اور بے لوث معاونین کی مالی اعانت سے ہی ہو رہا تھا جن میں دہلی کے دو ممتاز تاجر ملک دین محمد اور محمد شفیع قریشی پیش پیش تھے۔ چناں چہ اس دور میں ذاکر صاحب ایثار و قربانی کی زندگی گزار رہے تھے اور وہ اپنی گزر اوقات کے لیے جامعہ سے جو کچھ بھی لیتے تھے وہ متوسط درجے کے ایک شخص کی آمدنی کے مقابلے میں بھی بہت کم اور ناکافی تھی۔

سچ پوچھیے تو بے مثل قربانی اور ایثار کا یہ جذبہ ہی تھا جس نے جامعہ ملیہ میں ایک نئی روح پھونک دی اور ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو تعلیمی حلقوں میں روشنی کے ایک عظیم الشان مینار کی صورت میں پیش کردیا۔ بالآخر ڈاکٹر صاحب کی محنت اور قربانیاں رنگ لائیں اور 15 تا 18 نومبر 1946 جامعہ کا وہ تاریخی جشن سیمیں منعقد ہوا جس میں ایک جانب صدر جلسہ ہزہائی نس نواب سر حمید اللہ خان آف بھوپال، سامنے والی قطار میں پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، بیرسٹر آصف علی اور سی راج گوپال آچاریہ بیٹھے ہوئے تھے تو ان ہی کے برابر سامنے والی صف میں محمد علی جناح، محترمہ فاطمہ جناح، نواب زادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی خاں تشریف فرما تھے جب کہ ڈائس کی پچھلی صفوں میں مولانا سید سلیمان ندوی، سر شیخ عبدالقادر، ڈاکٹر عبدالحق اور حفیظ جالندھری جیسی شخصیات موجود تھیں۔

1948 میں ڈاکٹر صاحب نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا بھلا چاہنے والوں اور مولانا ابوالکلام آزاد کی شدید خواہش پر یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ قبول کرلی اور جامعہ ملیہ کی ذمے داری اپنے قابل اعتماد رفیق کار پروفیسر محمد مجیب کے سپرد کردی۔ اس وقت مسلم یونیورسٹی انتہائی پرآشوب دور سے گزر رہی تھی۔

نتیجتاً یہ کٹھن ذمے داری قبول کرنا ڈاکٹر صاحب کے لیے عزت سادات کو داؤ پر لگانے کے مترادف تھا۔ اگرچہ ڈاکٹر صاحب نے حالات کو سدھارنے اور معاملات کو سنبھالنے کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ بہت کچھ کرنے کی کوشش کی لیکن مجبوری کی نادیدہ بیڑیوں کے بندھنوں نے انھیں زیادہ کامیاب نہ ہونے دیا جس کے نتیجے میں بہت سی مایوسیوں اور ناکامیوں نے جنم لیا۔ بہار کی گورنری اور نائب صدر اور پھر صدر جمہوریہ ہند کے مناصب پر فائز ہونے کا معاملہ بھی کم و بیش ایسا ہی تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو ان مناسب پر فائز کرکے حکومت ہند نے تو خوب خوب سیاسی فوائد حاصل کیے مگر ڈاکٹر صاحب کی مسلمانوں کے حوالے سے شہرت اور ساکھ کو فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہی پہنچا۔ بہ قول شاعر:

اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے ہندوستان کے علمائے کرام سے انتہائی قریبی مراسم تھے اور وہ خلوص نیت سے چاہتے بھی تھے کہ وہ ان کی علمی اور دینی درسگاہوں کو اپنے تعلیمی تجربے اور ویژن سے فیض یاب بھی کریں لیکن افسوس وہ اپنی اس دلی خواہش کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔

ڈاکٹر صاحب نظریات و افکار اور ان کے سیاسی رجحانات سے تو اختلاف کیا جاسکتا ہے تاہم ان کی بے پناہ قابلیت، علمیت، بلند پایہ شخصیت، انتہائی شرافت اور عظمت سے انکار ہرگز ممکن نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ صرف اس واقعے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ نائب صدر جمہوریہ ہند کے منصب پر فائز ہونے کے بعد جب انھوں نے دہلی یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے جلسہ تقسیم اسناد سے سنسکرت زبان میں بے تکان خطاب کیا تو تمام حاضرین نے جن کی غالب اکثریت ہندو اور سکھ طلبا و طالبات، اساتذہ کرام اور اہل علم پر مشتمل تھی فرط حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں دبالیں۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب سنسکرت زبان میں خطبہ اسناد دینے کی سابقہ روایت کو نہ صرف برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ اسے چار چاند لگا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب سنسکرت بھی اسی روانی سے بول رہے تھے جس روانی سے وہ اپنی مادری زبان اردو یا انگریزی بولا کرتے تھے۔ یہ بات محض کانوں سنی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی ہے کیونکہ ہم اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی بے پناہ علمیت کا اس سے بڑا ثبوت بھلا اور کیا ہوسکتا ہے۔ سنسکرت زبان کے ایک انتہائی ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے عرض ہے کہ یہ ایک انتہائی دقیق اور مشکل زبان ہے جس کے لیے بڑی مشق اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہندو اسے دیو بھاشا یعنی دیوتاؤں کی زبان کہتے ہیں اور ان کی مقدس کتاب والمیکی رامائن کا اصل نسخہ سنسکرت زبان ہی میں ہے جس کا مہاکوی تلسی داس نے ہندی جاننے والے عام ہندوؤں کی آسانی اور سہولت کی خاطر ہندی زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔