میدانِ سیاست میں مطالبات کی گونج

عارف عزیز  بدھ 21 مئ 2014
مسلم لیگ ن کے مقامی راہنما اپنی قیادت سے نالاں۔  فوٹو : فائل

مسلم لیگ ن کے مقامی راہنما اپنی قیادت سے نالاں۔ فوٹو : فائل

کراچی: ملک کی سیاسی، مذہبی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں ان دنوں احتجاج میں مصروف ہیں۔ اہم قومی امور اور عوامی مسائل پر ریلیوں، جلسوں اور مظاہروں کی وجہ سے وفاقی حکومت دباؤ کا شکار نظر آرہی ہے۔

کراچی شہر میں بھی حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ زوروں پر ہے۔ مظاہرین شہر میں بدامنی کے خاتمے، قتل و غارت گری کے واقعات کی روک تھام، مبینہ طور پر قانونی حراست کے دوران لاپتا افراد کی بازیابی، پانی و بجلی کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے کے مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر نظر آرہے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے خلاف اور فوج اور آئی ایس آئی کی حمایت میں بھی ریلیاں نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔

گذشتہ ہفتے شہر کی بڑی سیاسی قوت متحدہ قومی موومنٹ کی اپنے قائد الطاف حسین کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے اجرا کا معاملہ حل نہ کیے جانے پر احتجاجی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔ دوسری جانب پولیس اور رینجرز کے ناکوں اور جگہ جگہ قائم چوکیوں میں موجود اہل کاروں سے ’بچ بچا‘ کے ٹارگیٹ کلرز شہریوں کو قتل کر کے فرار ہوجانے میں بھی ’کام یاب‘ رہے۔ ہفتۂ رفتہ میں وزیراعظم میاں نواز شریف کراچی آمد اور اس موقع پر اجلاس میں کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن کے حتمی مرحلے کی منظوری مختلف حلقوں میں بحث کا موضوع رہی۔

میاں نواز شریف کی آمد پر منعقدہ اجلاس میں کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن بلاامتیاز اور کسی دباؤ کے بغیر جاری رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے ملزمان کے سیاسی سرپرستوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی۔ اس موقع پر کراچی آپریشن کی ٹیم میں تبدیلی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ آپریشن میں عسکری اور خفیہ ادارے مقامی پولیس اور رینجرز سے تعاون کریں گے۔

شہر میں کالعدم تنظیموں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن میں تیزی لائی جائے گی۔ آپریشن سے متعلق شکایات کا ازالہ ایک کمیٹی کے ذمہ ہو گا۔ وزیر اعظم نے اجلاس میں سندھ کے پانچوں ڈویژنز میں جیلوں کی تعمیر، پولیس کو جدید وسائل کی فراہمی اور سی سی ٹی وی کیمروں کے دائرہ کار کو بڑھانے اور سندھ رینجرز میں مزید بھرتیوں کی بھی ہدایت کی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کراچی میں آپریشن کے دوران کسی بھی قسم کا ردعمل سامنے آ سکتا ہے، اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ قیامِ امن کے لیے مفادات اور ذاتی خواہشات سے پاک نظام وضع کرنا ہو گا۔

گورنر ہاؤس کراچی میں اس اجلاس میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف، آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام، کورکمانڈر کراچی، ڈی جی آئی بی، سیکریٹری داخلہ سندھ، ڈی جی رینجرز، قائم مقام آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے حیدر عباس رضوی، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن، عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید اور مسلم لیگ (ن) کے سلیم ضیاء بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں چیف سیکریٹری سندھ نے کراچی آپریشن اور حکومت سندھ کے اس سلسلے میں اقدامات پر بریفنگ دی۔

ڈی جی رینجرز اور قائم مقام آئی جی نے بھی مختلف امور پر تفصیلی بریفنگ دی۔ وزیر اعظم نے اجلاس میں غیر قانونی سموں کی بندش، تحفظ پاکستان آرڈیننس پر مؤثر عمل درآمد نہ ہونے، ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات، قبضہ مافیا اور دیگر مسائل پر حکومت سندھ اور سکیوریٹی حکام سے تفصیلی بات کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت سندھ کراچی میں غیر قانونی اسلحہ برآمد کرنے کے لیے گھر گھر تلاش شروع کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے اداروں کی مشاورت سے فوری پالیسی تشکیل دے۔ اجلاس میں غیرقانونی سموں کی بندش سے متعلق فیصلہ اور وفاقی سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کمیٹی میں سیکریٹری ٹیلی کام، پی ٹی اے، چاروں صوبائی حکومتوں کے نمائندے اور موبائل فونز کمپنیوں کے نمائندے شامل ہوں گے اور یہ بائیو میٹرک سسٹم کے نفاذ کے لیے اقدامات کرنے میں مدد دیں گے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں آپریشن کا اگلا مرحلہ تیز ترین حکمت عملی کے تحت ہو گا۔ اس موقع پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ کراچی سمیت پورے ملک میں قیام امن کے لیے حکومت کا ساتھ دیں گے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے سب کی مدد کی ضرورت ہے، ہمیں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس موقع پر ڈی جی رینجرز نے بتایا کہ کراچی میں نقص امن میں لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا،کالعدم تنظیموں اور بعض سیاسی جماعتوںکے کارکنان کا بڑا ہاتھ ہے۔ تاہم رینجرز امن کے لیے بھر پور اقدامات کررہی ہے۔

سیاسی قائدین سے ملاقات میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ کراچی میرے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو سیاسی چھتری استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ ملکی مسائل اور مشکلات، خصوصاً امن کے قیام سے متعلق سیاسی رائے کو اہم سمجھتے ہیں۔ کراچی کی صورت حال میں بہتری لانے کے لیے ہر ایک سے ہاتھ ملانے کو تیار ہوں۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن حیدر عباس رضوی نے کہاکہ وزیراعظم نے ایم کیوایم کے مطالبے پر آپریشن کے جائزے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے، ایم کیو ایم نے وزیر اعظم سے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل اور ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے انہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے، کیوں کہ ہم امن چاہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کا امن ہی پاکستان کا امن ہے، اس بات کو سمجھتے ہوئے وزیر اعظم، آرمی چیف اور صوبائی حکومت نے جس طرح اپنی فکر مندی کا اظہار کیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے بہت بڑا پیغام ہے، جو شہر کا امن خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ وزیرا عظم کو کراچی اون کرنے کا مشورہ دیا ہے، اجلاس میں پولیس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کے معاملے پر بات ہوئی ہے۔ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں بلدیہ کی میئرشپ خالی ہے، یہاں بلدیاتی انتخابات ہونے چاہییں، کراچی کے امن کے لیے گورنر سندھ کی تبدیلی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

باخبر ذرایع کے مطابق وزیراعظم نے کراچی میں ہر قسم کی مافیا اور ان کے سرپرستوں کے نام اور ان کے غیر قانونی کاموں کی تفصیلات کی رپورٹ طلب کی ہے، جس پر متعلقہ حساس ادارے نے کام شروع کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور سندھ کابینہ کے اراکین نے مذکورہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کرتے ہوئے کراچی آپریشن کی کام یابی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں صوبائی کابینہ کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں صوبے کے محکمۂ پولیس کو جدید آلات کی فراہمی اور ٹارگیٹڈ آپریشن کی کام یابی کے لیے وفاق سے 27 ارب روپے مانگے گئے ہیں۔

سندھ کی سطح پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کبھی عوام کی توجہ حاصل نہیں کرسکی۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں ن لیگ کے راہ نماؤں کے آپس کے اختلافات اور گروہ بندی کا سلسلہ بھی تنظیمی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا، لیکن سیاسی تبصرہ نگاروں کے مطابق اس کی اصل وجہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی سیاسی مصلحتیں اور سندھ سے متعلق امور میں عدم دل چسپی کا مظاہرہ ہے۔ ماضی میں اسی بات پر پارٹی کی صوبائی قیادت کا مرکزی قائدین سے اختلاف ہوا اور اب عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے پلڑے میں اپنی وفاداری کا وزن ڈالنے والے بھی انہی معاملات پر قائدین سے خفا نظر آرہے ہیں۔ سردار ممتاز بھٹو کئی مرتبہ اپنے جلسوں میں پارٹی کی قیادت سے اہم فیصلوں میں اعتماد میں نہ لیے جانے اور مقامی قیادت اور کارکنوں کو نظر انداز کرنے کی شکایت کرچکے ہیں۔

اسی طرح پچھلے دنوں سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ مروت نے کہا کہ مرکزی قیادت اور وفاقی حکومت سندھ کے بارے میں فیصلوں پر پارٹی کے ارکان کو اعتماد میں نہیں لے رہی۔ تمام فیصلے لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھ کر کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے تو یہاں کہہ دیا کہ اگر ایک ہفتے میں ارکان سندھ اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور تحفظات دور نہ کیے گئے تو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ یہ بات انہوں نے ہفتے کو مسلم لیگ کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے کارکنان اور راہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائی کی جارہی ہے، متعدد مرتبہ پارٹی کی مرکزی قیادت کو آگاہ کیا، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ وفاقی حکومت کے اس رویے سے منتخب نمائندوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔